تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ
شیئر کریں
صابر مغل
پاکستان پر گزشتہ کئی دہائیوں سے انرجی بحران کے عفریت نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں کارخانے بند جبکہ لاکھوں افراد بے روز گار ہو ئے۔ حکومتوں کی جانب سے کئی منصوبے تو شروع ہوئے مگر وہ سب مہنگے منصوبے اس بحران کو ختم نہ کر سکے،قطر کے ساتھ ایل این جی منصوبے سے قبل ایران کے ساتھ گیس فراہمی کا منصوبہ ہوا جو تاحال کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ اب 28سال قبل جس گیس پائپ لائن منصوبے پر بات کا آغاز ہوا آج اس پر عمل درآمد تیزی سے ہورہاہے، گزشتہ روزوزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی اور افغان صدر اشرف غنی نے مشترکہ طورپر تاپی (ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا) گیس پائپ لائن منصوبے کے پہلے حصے کا افتتاح کیا، اس تقریب میں ترکمانستان کے صدراور وزیر مملکت برائے خارجہ امور ایم جے اکبرسمیت دیگر بھارتی حکومت کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ پائپ لائن کے پہلا حصے کے افتتاح افغانستان کے مغربی صوبے ہرات کی سرحد سے متصل ترکمانستان کے شہر راحت آباد میں ہواجبکہ دوسرے روزمغربی افغانستان کے تاریخی شہر ہرات میں بھی ایک تقریب منعقد ہوئی جس کے تحت بجلی ،آپٹک فائبرسمیت دیگر منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا شاہد خاقان عباسی افتتاح سے ایک روز قبل ترکمانستان پہنچے تھے جہاں ان سے صدر قربان گلی بردی محمدوف سے ملاقات میںترکمانستان کے ساتھ دو طرفہ تعاون،توانائی ،تجارت اور اقتصادی راہداری کے حوالے سے موثر بات چیت ہوئی، 1814 کلومیٹر اس طویل گیس پائپ لائن سے بھارت اور پاکستان کے علاوہ افغان صوبوں ہرات فراہ ہلمند اور نمرورکو بھی گیس فراہم کی جائے گی۔
اعلامیہ کے مطابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اس سلسلہ میں ہونے والی تقاریب میں کہا کہ تاپی گیس پائپ لائن منصوبے سے خطہ کے کروڑوں عوام کی اقتصادی ،سماجی حالت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی خطہ میں امن کے فروغ میں اس کا اہم کردار ہو گا۔پاکستان خطے میں امن و ترقی کا علمبردار ہے، انہوں نے افغان صدر اشرف غنی کا شکریہ اد ا کیا جنہوں نے اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا جبکہ ترکمانستان کے صدر قربان گل بردی محمدوف نے گیس پائپ لائن منصوبے کا جو تصور پیش کیا تھاوہ اب توانائی کی راہداری میں تبدیل ہو چکا ہے اور اس راہداری میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ،اقتصادی زون ،،بجلی اور رابطوں کے دیگر منصوبے شامل ہیں ،افغان صدر اشرف غنی نے اس موقع پر کہا ہماری آنے والی نسلیں اس پائپ لائن منصوبے کو ہمارے خطے میں مشترکہ پوزیشن کی بنیاد کے طور پر دیکھیں گی اور اس سے ہماری معیشت کو ترقی،روزگار کے مواقع،سلامتی اور دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں مدد ملے گی،ہرات کے گورنر کے ترجمان جلال فرحاد نے کہا جنگ زدہ افغانستان میں اس پائپ لائن منصوبے کی تعمیر کے لیے سخت سیکیورٹی کے انتظامات کیے جائیں گے، اس حوالے سے سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا ہم اس منصوبے کی حفاظت کی ضمانت لینے کو تیار ہیں کیونکہ یہ منصوبہ افغانستان کی معیشت کے لیے اہم ترین ہے اور جو طالبان کی حکمرانی میں بھی قابل غورتھا۔
اس منصوبے سے ابتدائی طور پر 27ارب مکعب میٹر سالانہ گیس کی فراہمی ممکن ہو سکے گی جس میں سے تین ارب افغانستان جبکہ 12۔12ارب مکعب میٹر بھارت اور پاکستان کو حاصل ہو گی(یوں 500ملین کیوبک فیٹ افغانستان جبکہ ایک ارب 32کروڑ کیوبک فیٹ پاکستان اور اتنی ہی بھارت کوملے گی) بعد میں اس مقدار کو مزید بڑھایا جائے گا،پاکستان ہندوستان سے سالانہ 200سے 250 ملین ڈالر ٹرانزٹ فیس کے طور پر وصول کر کے یہی رقم افغانستان کو بطور اپنی فیس ادا کیا کرے گا،اس گیس پائپ لائن منصوبے کے 5۔5فیصد شیئرز پاکستان اور انڈیا نے خرید رکھے ہیں،اس منصوبے کی تکمیل میں مزید دو سال لگ سکتے ہیں۔ اس معاہدے کے مطابق اگر ہندوستان نے منصوبے سے علیحدگی اختیار کی تو ترکمانستان اس پر ہرجانہ عائد کرنے کا مجاز ہو گا،اس منصوبے پر بات چیت کا آغاز 1990 کو روس کے ساتھ ہوا تھاکیونکہ ترکمانستان اس وقت روس کا حصہ تھا۔1995میں معاہدے پر باقاعدہ دستخط ہو گئے، اس وقت انڈیا اس میں شامل نہیں تھا۔ روس کے ٹکڑے ہونے اور نائن الیون کے بعد 27؍دسمبر 2002میں نئے معاہدے پر بات چیت شروع ہوئی جس میں افغانستان اور پاکستان مشترکہ طور پر شامل ہوئے 2005میں ایشین ڈویلپمنٹ بنک نے انگلش کمپنی ہینس بین سے اس کی فزیبیلٹی رپورٹ تیار کروائی،بالآخر 28اپریل2008 کو اس معاہدے میں انڈیا بھی شامل ہو گیا اور اس معاہدے کو TAPIکا نام دے کر 11؍دسمبر2010کو ترکمانستان کے دارلحکومت اشک آباد میں اس پر تمام فریقین ممالک نے دستخط کیے،تاپی گیس پائپ لائن اب ترکمانستان ،افغانستان ،پاکستان اور انڈیا کا مشترکہ گیس پائپ لائن منصوبہ ہے جس کے تحت گیس پائپ لائن ترکمانستان سے افغانستان میں قندھار ،ہرات ہائی وے کے ساتھ پاکستان، وہاں سے کوئٹہ اور ملتان کے راستے فاضلکا کے قریب انڈیا میں داخل ہو گی ،اس منصوبے پر ماضی کی طرح بے یقینی کے گہرے بادل چھائے رہے۔ جنگ زدہ افغانستان کی وجہ سے یہ منصوبہ انتہائی پیچیدہ سمجھا جاتا رہا۔ اس کے علاوہ اس کا گزر افغانستان کے علاوہ پاکستان کے بھی بعض حساس مقامات سے ہونا تھا،آخر کاراس منصوبے کا سنگ بنیاد 13دسمبر2015 کوسابق وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف ،افغان صدر اشرف غنی،بھارتی نائب صدر حامد انصاری اور ترکمانستانی صدر قربان محمدوف نے رکھ دیا۔
نواز شریف اس وقت ترکمانستان کی مستقل غیر جانبداری کی 20ویں سالگرہ کے موقع پرمنعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے وہاں گئے تھے۔ سنگ بنیاد رکھنے سے ایک ماہ قبل ترکمانستانی صدر نے ریاستی کمپنیوں ترکمان گیس اور ترکمان گیس نیفٹسٹوری کے اپنے حصے کی گیس پائپ لائن تعمیر کرنے کے احکامات جاری کیے جبکہ اس گیس فیلڈ کو ڈویلپ اور آپریٹ کرنے کے لیے جاپانی ماہرین نے وہاں کام شروع کر رکھا ہے،سنگ بنیاد کے بعدایم ڈی انٹر سٹیٹ گیس پراجیکٹ مبین صولت نے کہا تھااس منصوبے کو آئندہ تین سال میں فاسٹ ٹریک پر مکمل کیا جائے گاجس کے بعد پاکستان میں گیس بحران ختم ہو جائے گا۔اس کے علاوہ مزید تین منصوبے گوادر ایل این جی ٹرمینل ،گوادر تا نواب شاہ اور کراچی تا لاہور ایل این جی پائپ لائن مکمل ہوئی تو ان کے ذریعے 3.5تا4ارب کیوبک فیٹ گیس یومیہ قومی سسٹم میں شامل ہو جائے گی ،28سال قبل سے شروع ہونے والے اس منصوبے کی بازگشت اب پایہ تکمیل پہنچنے کو ہے ،دس ارب ڈالر مالیت کے ا س منصوبے کوپہلے اسے 2017میں مکمل ہونا تھا اب امید ہے یہ2019تک مکمل ہو جائے گا، ،ترکمانستان کے سینٹرل ایشیا میں دنیا کے 52ویں بڑے اور مسلم ملک تاجکستان جس کا 80فیصد سے زائد حصہ شاہراہِ قراقرم پر مشتمل ہے جس کے جنوب مغرب میں قازقستان ،شمال میں ازبکستان ،جنوب شرق میں افغانستان ،جنوب میں ایران اور جنوب مغرب میں بحیرہ قزوین (یہ سمندر ایرانی شہر قزوین کے نام سے موسوم ہے جو رقبے اور حجم کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہے جس کا مجموعی رقبہ تین لاکھ 71ہزار مربع کلومیٹر ہے جو ایشیا اور یورپ کے درمیان چاروں طرف سے زمین میں گھرا ہوا خطہ آب ہے)،اس مسلم ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 89فیصد ہے، ترکمانستان کے جنوب مشرق میں واقع صوبہ ماری، جس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں یولونین اس کا ایک رہائشی علاقہ ہے یہ شہر مسلم ممالک کا اہم ترین اور سلک روڈ پر انتہائی اہمیت کا حامل شہر ہے ،کے قریب دنیا کی دوسری بڑی گیس فیلڈ ہے جہاں 4سے14ٹریلین کیوبک میٹرز ذخائر ہیں ۔یہ گیس فیلڈ 27 سو مربع کلومیٹر جس کی لمبائی 90جبکہ چوڑائی30کلومیٹر جبکہ گہرائی 13سے17ہزار فٹ تک ہے ،تاپی گیس فراہمی منصوبے سے پاکستان میں گیس کی کمی بڑی حد تک ختم ہو جائے گی۔ تاہم ایران اور پاکستان کے ساتھ کیے گئے گیس فراہمی معاہدے کو بھی عملی جامہ پہنایا جائے۔ ایران اس حوالے سے اپنی جانب گیس پائپ لائن کئی سال قبل مکمل کر چکا ہے مگر پاکستان نے صرف گوادرتا نواب شاہ پائپ لائن میں اضافی صلاحیت شامل کی گئی تا کہ ایران سے خریدنے والی گیس بھی سسٹم میں شامل کی جا سکے۔ عالمی پابندیوں و دیگر وجوہات کے ہٹنے پر اگر یہ منصوبہ بھی کامیاب ہوتا ہے تو ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔ ایران پاکستان کو ایک ارب کیوبک فیٹ گیس روزانہ فراہم کرنے پر رضامند ہے مگر پاکستانی حکام کی بیرونی مصلحتوں کے باعث لگتا نہیں کبھی ایران کے ساتھ ایسے روابط ہوں گے ۔یہی وجہ بن رہی ہے کہ ایران نے اپنی چاہ بہار بندر گاہ کا انڈیا کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے ،پاکستانی حکام کی سر د مہری کا اظہارایرانی سفیرمہدی دوست نے اسٹریٹجک ویژن انسٹی ٹیوٹ پاک ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اور موجودہ خطرات کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کے دوران کیا کہ دنیا کے کئی ممالک ایران کے ساتھ بینکنگ تعلقات قائم کر رہے ہیں مگر پاکستان گیس فراہمی معاہدے کے بعد بینکنگ تعلقات میں بھی بلاوجہ تاخیر کر رہا ہے۔ پاکستان کی ایران کے حوالے سے قدامت پسند پالیسی مناسب نہیں ،ایرانی سفیر کا یہ بیان دو طرفہ تعلقات کے درمیان در پیش چیلنجز کو واضح کرتا ہے۔