میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسلام ترقی کرنے سے کہاں منع کرتاہے؟

اسلام ترقی کرنے سے کہاں منع کرتاہے؟

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۶ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

ایک یونیورسٹی کے ڈاکٹرصاحب بتارہے تھے کہ آج 22تاریخ ہے مگران کے پاس پیسے ختم ہوگئے ہیں۔موصوف ماہانہ 40ہزارروپے تنخواہ لیتے ہیں،پھربھی 22تاریخ کوان کی جیب خالی ہوگئی ۔پھرخودہی بتانے لگے کہ اس مرتبہ فلاں کپڑوںکی دکان پرسیل لگی تھی تومیں نے خریداری کرلی 3400والی پینٹ 1700روپے میں مل گئی تھی تومیں نے 7 پینٹیں خریدلیں۔اسی طرح دیگراشیاءکی خریداری پرکوئی 20ہزارروپے خرچ کردیئے ۔میں نے ان سے پوچھا اتنے مہنگے کپڑے خریدنے کی وجہ ؟موصوف کہنے لگے تمہارادماغ خراب ہے یہ تواللہ کاشکرہے کہ سیل لگی تھی ورنہ میری تنخواہ ہی کتنی ہے جو میں 3400کی پینٹ خرید سکوں؟اورتمہیںکیامعلوم کہ اچھی پینٹ کتنے کی آتی ہے؟ اچھی پینٹ 6000کی آتی ہے ۔موصوف اپنے آپکوغریب سمجھتے ہیں،اورسوچتے ہیںکہ کسی طرح کوئی مزید اچھی نوکری مل جائے تاکہ گزربسراچھی طرح ہوسکے۔ 40000میںتوگزارابہت مشکل سے ہوتاہے ۔
ایک یونیورسٹی کی غریب استانی صاحبہ کاحال بھی پڑھ لیتے ہیں۔موصوفہ بہت نیک ،شریف اورمذہبی پس منظررکھتی ہیں۔19گریڈکی آفیسرہیں۔ان کاپرس بھی مہینے کی آخری تاریخوں میں خالی ہوجاتاہے ۔موصوفہ کاکہنا ہے کہ وہ اپنی ساری تنخواہ اپنی ذات پرلٹاتی ہیں۔ موصوفہ 60 ہزار مہینہ کماکربھی خود کوغریب سمجھتی ہیں۔بتاتی ہیںکہ میراایک سوٹ8ہزارتک کاآتاہے جبکہ سوٹ تو16000کے بھی ہوتے ہیںمگرمیں اسراف نہیںکرتی ،اس لیے 8000تک کاخرید لیتی ہوں۔اوریہ خریداری ہردوسرے تیسرے مہینے ہوتی ہے ۔
یہ دونوںاساتذہ کرام اچھے ،باکردار،نیک اوراسلام سے محبت کرنے والے ہیں۔مگران کے نزدیک اپنی ذات پرخرچ کرنااورجتنادل چاہے خرچ کرناکوئی بری بات نہیںہے ۔استانی صاحبہ سے جب پوچھاگیاکہ جس ملک میں رمضان شریف میں غریبوںکوپورے مہینے کاراشن 1800روپے کادیا جاتا ہو تو وہاں 8000 کا ایک سوٹ لیناصحیح عمل ہے ؟ توانہوںنے فوراََ کہا اسلام اچھے کپڑے پہننے سے کب منع کرتاہے ؟ استانی جی سے سوال کیاگیاکہ محترمہ اسلام مہنگے کپڑے پہننے کاحکم بھی کہاںدیتاہے ؟قرآن شریف میں ،حدیث میں کہاںلکھاہے کہ مہنگے کپڑے پہنو؟ حضورﷺکے کپڑوںمیں پیوند لگے ہوتے تھے ،کیوں؟کیاحضورﷺ مہنگے کپڑے نہیںخرید سکتے تھے؟ آپ ﷺ تو مسلمانوںکے حکمران تھے تب بھی خود اختیاری فقر کو اختیار کیا۔اپنی مرضی سے غریبوںکی طرح زندگی گزاری توحضور ﷺیہ اعمال کس کودکھانے کے لیے کرتے تھے ؟ کیاحضور ﷺکے ایسے اعمال کرنے کامقصد امت کورہنمائی فراہم کرنانہ تھی؟ حضور ﷺنے سادہ اورغریبوںوالی زندگی گزارکرامتیوںکوصاف اورواضح پیغام دیاکہ دنیا میں دل نہ لگانا،دنیاکی عیش پرستی میں نہ پڑجانا، یہ دنیاعارضی مقام ہے ، اصل رہنے والی جگہ آخرت ہے، اس لیے اس دنیاسے اتناہی لوجتناایک مسافر لیتا ہے ۔ امام الجاہدین کی اس سنت کو آقاﷺ کے تمام صحابہ کرام ؓ نے خوب خوب زندہ کیا۔
حضرت عمرؓ کاواقعہ تومشہورہے کہ جب بیت المقدس کی چابیاںلینے پہنچے تومسلمانوںنے ان سے درخواست کی کہ امیرالمومنین اپناکرتابدل لیں کیونکہ کرتے میں پیوند لگے تھے ،مگرسیدناعمرؓنے اس مشورہ کوقبول نہیںکیا۔اورفرمایاکہ ہماری عزت اسلام سے ہے ،کپڑوںسے نہیں۔ حضرت عمرؓنے ایساکیوںکیا؟وہ توامیرالمومنین تھے ان کے لیے اچھے اورپیوند سے پاک کپڑے پہنناکیامسئلہ تھا؟آخر اس واقعہ میں کیارازپوشیدہ ہے؟ یہ وہی حضرت عمرؓہیںجوماضی میں جب ایک روزحضور ﷺکے پاس تشریف لے گئے تودیکھاحضورﷺ زمین پرایک معمولی سی چٹائی پرسورہے تھے، سیدنا عمرؓ رونے لگے اورفرمانے لگے کہ حضورﷺ میرے ماںباپ آپ ﷺ پرقربان،آج قیصروقصریٰ کے محلات ہمارے قبضے میں ہیںاورایسے وقت میں بھی ہمارے آقاﷺ اتنی سخت زندگی گزاررہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا عمرؓ ہمارے لیے آرام کی جگہ آخرت ہے ۔ہم نے اس دنیاسے کیالینا؟تویہ کیسے ممکن تھاکہ وہ عمرؓ اپنی عملی زندگی میں ضرورت سے زیادہ دنیالیتے ؟
حضرت ابوبکرصدیق ؓ سے ان کی زوجہ محترمہ نے میٹھے کی خواہش کی پھر چند روز بعدمیٹھا تیار کرلیا۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓفوراً بیت المال گئے اوریہ اضافی رقم کٹوادی کہ زندگی میٹھے کے بغیربھی گزر سکتی ہے ۔حیرت ہے ان حضرات کویہ خیال کیوںنہیںآتاتھاکہ حضور ﷺ اوراسلام نے کہاں میٹھاکھا نے سے منع کیاہے ؟اسلام کہاںترقی سے روکتاہے ؟حضرت ابوبکرصدیق ؓ خلیفہ بننے کے بعدکاروبار کرنے لگے توصحابہ کرام ؓ نے منع کردیا کہ آپ صرف خلافت کی ذمہ داری سنبھالیں،اس وقت کسی صحابی ؓ نے خداجانے کیوںنہ بحث کی کہ اسلام کہاںکاروبار سے منع کرتاہے ؟
ہماری اسلامی تاریخ کاایک بہت دلچسپ اعجاز یہ ہے کہ ہمارے ہاںجوآدمی نیک ہوگا جو آدمی بزرگ ہوگا،اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ کم سے کم دنیالے گا۔جومعیارزندگی میں جتناکم ہوگا،وہ ہمارے مذہب میں اتنا بلندہوگا۔حبیب خداﷺ کاایک معجزہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی زندگی کوایک غریب آدمی اپناناچاہے تواپناسکتا ہے اورایک ارب پتی حضورﷺ کی طرح زندگی گزارناچاہے توگزارسکتا ہے ۔انبیاءکرام معاشروںکے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ حضورﷺ سے سادہ زندگی کسی نے نہیںگزاری،اگرحضور ﷺکے شب وروز کو پڑھا جائے اور اپنا معیار زندگی دیکھاجائے تو سرمارے ندامت اور شرمندگی سے جھک جاتا ہے۔ میں حیران ہوتا ہوںان لوگوںپرجوکہتے ہیں اسلام ترقی سے اورمعیارزندگی بلندکرنے سے کب منع کرتاہے؟ اصل سوال یہ ہے کہ اسلام اچھا معیار زندگی اورترقی کرنے کاحکم کب دیتاہے؟ ہمیں حضورﷺ کی احادیث مبارکہ میںکوئی ایک حدیث ایسی نہیں ملتی جس میںحضورﷺ نے 2-4 صحابی ؓ حضرت عثمان ؓ کے حوالے کئے ہوں کہ عثمانؓ ان کوبھی اپنے ساتھ لگالیںاوران کوبھی امیرہونے کے گرسیکھادیں تاکہ مسلمانوںکے حالات بدل جائیں ۔ ایساکوئی واقعہ نہیںملتا۔لیکن آج جس مسلمان سے معیارزندگی کم کرنے کی بات کی جائے وہ 1لاکھ 24ہزارصحابہ کرام ؓ کو چھوڑ کر فوراََحضرت عثمان ؓ کواپنے دفاع کے لیے سامنے لے آتاہے ۔حضرت عثمان ؓ اگرخود پر 1 لاکھ خرچ کرتے تھے تو امت پردس کروڑخرچ کرتے تھے ۔ اگرآج کا مسلمان اسی طرح امت پرخرچ کرسکتا ہوتوہوجائے امیر۔مگریہ بات یادرکھنی چاہیے ،کہ حضرت عثمان ؓ سود کے لین دین کے بغیرامیرتھے۔ آج کامسلمان دس کروڑخود پرخرچ کرکے ،ایک لاکھ امت پرخرچ کرکے مثال حضرت عثمان ؓ کی دیتاہے ،افسوس!!
اسلام میں اگرکوئی آدمی امیرہے تو اسلام اس کومنع نہیںکرتامگرامیرہونے کی حوصلہ افزائی بھی نہیںکرتا،بلکہ ہروقت آخرت کی بات کرتاہے۔ دنیاسے کم سے کم لینے کی بات کرتاہے ۔آج کے امیروںسے سوال کریں کہ وہ اپنے غریب رشتہ داروںکی کیامددکرتے ہیںتووہ بتاتے ہیںکہ ہم اپنے پرانے کپڑے پھنکتے تونہیںہیں بلکہ وہ ہم اپنے ان ہی غریب رشتہ داروںکودیتے ہیں۔اسی طرح اپنابچاہواکھانابھی غریبوںکودے دیتے ہیں۔آج کے مسلمانوںکامسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ امیرہونے کے لیے تڑپتے،ترستے اورکڑھتے ہیں۔ہم باتیں کرتے ہیںامریکا کوتباہ کرنے کی اور خود غریب رہنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔امریکا کے پاس ایٹم بم سے بڑا ہتھیار ”ترقی“ہے، اوراس کوآج امت مسلمہ میں کوئی ہتھیار سمجھتا ہی نہیں۔سب فرعون جیسی عیاشی اورموسیٰ علیہ السلام جیساخاتمہ چاہتے ہیںاوریہ دونوںایک ساتھ میسرنہیں آسکتے ۔
حضور ﷺ نے غریبوںکوخوشخبری دی کہ حضور ؓ قیامت کے روزغریبوں کے ساتھ جنت میں جائینگے اورغریب امیروںسے ہزاروںسال پہلے جنت میں جائینگے۔مگرپھربھی آج کا ہر دوسرا مسلمان امیر ہونا چاہتا ہے ،کیوں؟ اس کیوںکی وجہ یہ ہے کہ مذہبی لوگوں اورعلماءکرام نے امیر ہونا شروع کردیاہے ۔اوریہ سب اس ملک میں ہو رہا ہے جہاںراوی کے پل سے ایک ماںاپنے تین بچوںکے ساتھ کئی روزکی بھوک سے تھک کر دریامیں کود گئی ۔
یہ 8ہزارکے سوٹ لینے والی خواتین اور 6000 کی پینٹ خریدنے والے مرد اور لاکھوں مالیت کی گاڑیوں میں سفرکرنے والے علماءکرام کل قیامت کے روزپل صراط پرراوی میں ڈوبی عورت اوراس کے تین بچوںکاسامنا کرنے اوران کومطمئن کرنے کے لیے تیاررہیں۔وہ کل جب آپ سب کاگریبان پکڑے گی اوراللہ تعالی اور حضور ﷺ سے روروکر کہے گی کہ میں بھوکی تھی اور یہ عیاشیاںکررہے تھے تب سب کو سمجھ آئے گا کہ اسلام ترقی کرنے اورمعیار زندگی بلندکرنے سے کہاںمنع کرتاہے ۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں