میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سپریم کورٹ: آئندہ ہفتے فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلے پر اپیلیں سماعت کے لیے مقرر

سپریم کورٹ: آئندہ ہفتے فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلے پر اپیلیں سماعت کے لیے مقرر

جرات ڈیسک
جمعه, ۲۶ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلے پر اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کردیں، آئندہ ہفتے جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کرے گا۔اس سے قبل 13 دسمبر کو سپریم کورٹ کے جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں ایک بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی مشروط اجازت دی تھی۔ جسٹس طارق مسعود کی سربراہی میں بینچ نے سپریم کورٹ کے ہی 23 اکتوبر کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر مشروط فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل جاری رہے گا لیکن فوجی عدالتیں اپیلوں کے فیصلے تک ٹرائل پر حتمی فیصلہ نہیں دیں گی۔سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس امین الدین، جسٹس محمد علی، جسٹس حسن اظہر، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان شامل تھے۔ عدالتی فیصلہ پانچ ایک کی نسبت سے دیا گیا جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔واضح رہے 23 اکتوبر 2023 کو سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک 5 رکنی بینچ نے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کے حوالے سے مختصر فیصلہ جاری کیا تھا جبکہ 13 دسمبر 2023 کو جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں ایک بینچ نے اس فیصلے کو معطل کر دیا گیا تھا۔جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کے حوالے سے تفصلی فیصلہ جاری کیا تھا جس میں جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس عائشہ اے ملک کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔125 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے فیصلے کی ابتدا لارڈ ایٹکن کے 1941 کے ایک جملے سے کی تھی۔لارڈ ایٹکن نے اپنی مشہورزمانہ تقریر میں کہا تھا کہ برطانیہ میں بدترین جنگی حالات میں بھی قوانین خاموش نہیں تھے، برطانیہ میں بدترین جنگ میں بھی قوانین وہی تھے جو حالت امن میں تھے۔جسٹس یحیی آفریدی نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا تھا کہ 9 مئی ملزمان کا سول عدالتوں میں قانون کے مطابق ٹرائل ہونا چاہیے کیونکہ ایسے کوئی شواہد نہیں کہ مظاہرین نے دفاع پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہو۔جسٹس عائشہ ملک نے اپنیاضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ ریاست کے تینوں ستونوں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے، عدلیہ کی آزادی کے لیے ضروری ہے وہ ایگزیکٹو کے زیر اثر نہ ہوں، آفیشل سیکرٹ ایکٹ مقدمات کا ٹرائل عام فوجداری عدالتوں میں ہی ہوتا ہے۔انہوں نے لکھا کہ 9 مئی کے گرفتار 103 ملزمان پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات نہیں لگائی گئیں جبکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات نہ ہونے کے باوجود ملزمان کو عسکری حکام کے حوالے کرنے کی درخواستیں دی گئیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں