اسسٹنٹ ڈائریکٹر چارجڈ پارکنگ شیر علی کی اندھی کمائی ،وصولیوں کا بھانڈا پھوٹ گیا
شیئر کریں
بلدیہ عظمیٰ کراچی سابق میئر کراچی وسیم اختر کے دور میں کنٹریکٹ،عارضی بنیادوں پر بھرتی شدہ ملازمین کو مستقل ،ریگولر کرنے کی آڑ میں میگا کرپشن کا انکشاف ۔اصل و اہل کنٹریکٹ ملازمین کے بدلے جعلی بھرتیوں کے ذریعے لاکھوں، کروڑوں ٹھکانے لگا دیے، درجنوں غیرقانونی بھرتیوں سے متعلق بتایا جارہا ہے کہ فی کس 6 لاکھ رشوت، بھتہ لیا گیا۔اس گورکھ دھندے کے مرکزی کردار و کھلاڑی اسسٹنٹ ڈائریکٹر چارجڈ پارکنگ شیر علی، محکمہ فنانس کے اس وقت کے بجٹ آفیسر محمود بیگ، رشوت، بھتہ وصول،جمع کرنے کی ذمہ داری بیٹر سرفراز کی تھی جس نے اس مد میں لاکھوں کروڑوں افسران تک پہنچائے۔ اس حوالے سے انتہائی بااعتماد و باوثوق اندرونی،ادارتی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق جعلی بھرتیوں کے پس پشت شیر علی کار فرما ہے۔ شیر علی نے بھاری رشوت وصولیوں کے سبب کے ایم سی کے اصل حقدار پرانے کنٹریکٹ ، عارضی ، بھرتی شدہ ملازمین کو سائیڈ لائن کرتے ہوئے نئے اور فریش ملازمین کو مستقل، ریگولر کروا دیا جس کی بنیاد پر کرپٹ ادارتی مافیا نے لاکھوں کروڑوں ٹھکانے لگا دیے۔ اس حوالے سے واضح رہے کہ لگ بھگ گزشتہ5 ، 6ماہ قبل سابق مئیر کراچی وسیم اختر کے دور میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل،ریگولر ) کرنے کا عمل شروع کیا گیا تھا، جس کا چرچا بھی میڈیا کی زینت رہا، عارضی ملازمین کو مستقل،ریگولر کرنے کے اس کھیل، تماشے میں جائز و حقدار ملازمین کو انکے جائز حق سے محروم رکھا گیا اور دوسری جانب من پسند افراد سے بھاری وصولیوں کے بعد انھیں مستقل کردیا گیا ۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ راشی و کرپٹ افسران نے کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولائز کرنے کے عمل کو مال بناؤ پالیسی میں تبدیل کردیا تھا۔ اس اندھی کمائی اور وصولیوں کا بھانڈا لین،دین کے معاملے میں تنازع بننے کے بعد منظر عام پر آیا اور بھاری وصولیوں کا پردہ بھی فاش ہوا، اسسٹنٹ ڈائریکٹر چارجڈ پارکنگ شیر علی ان غیرقانونی بھرتیوں،وصولیوں کا مرکزی کھلاڑی ہے۔ذرائع بتاتے ہیں کہ موصوف نے دیگر کرپٹ و راشی افسران کے ساتھ باہم ملکر غیرقانونی طور پر منظور نظر افراد کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کے کنٹریکٹ ملازمین ظاہر کرکے ریکارڈ میں ردوبدل کرکے بھاری وصولیوں پر پکا کرا دیا۔ ان بھرتی شدہ جعلی ملازمین کا کہیں کوئی سروس ریکارڈ سرے سے موجود ہی نہیں تھا، ان ملازمین کو غیرقانونی طور پر جعلسازی اور جعلی پیپروں کے ذریعے انکی فائلیں بنائیں اور انکا سروس ریکارڈ کنٹریک ملازمین کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ذرائع بتاتے ہیںکہ شیر علی نے محمود بیگ نامی ملازم، جو کہ محکمہ فنانس میں تعینات ہے دونوں نے باہم ملکر اس غیرقانونی گیم،دھندے کے ذریعے من پسند بھرتیاں کیں، دونوں نے محکمہ فنانس میں جعلی بل اور کاغذات تیار کرائے۔ محمود بیگ کے ایم سی میں ڈائریکٹر بجٹ کے اہم ترین عہدے پر براجمان تھے۔ مزکورہ مافیا نے بھاری وصولیوں کے سبب بلدیہ عظمیٰ کراچی میں سالوں سے بطور کنٹریکٹ ملازمین اپنے فرائض انجام دے رہے تھے انھیں جعلسازی کے ذریعے اپنے جائز حق سے محروم کردیا، جبکہ ذرائع بتاتے ہیں منظور نظر غیرقانونی طور پر بھرتی شدہ ملازمین سے فی کس6لاکھ لئے گئے۔ یاد رہے کہ30 سے زائد منظور نظر ،نئے،فریش ملازمین کو جنکا تعلق کبھی کے ایم سی سے رہا ہی نہیں تھا انکو غیرقانونی،جعلی طریقے سے بطور کنٹریک ملازم ظاہر کر کے ریگولر پالیسی میں ڈال کر ریگولر کرا دیا۔ مزکورہ غیرقانونی طور پر بھرتی شدہ ملازمین میںوارث حسن، محمد عمر،عثمان محمد عمر،سید ارسلان،حیدر زیدی،سید زرغام عباس زیدی، مذکورہ بالا تمام ملازمین سے وصولی کرنے والا شخص سرفرازہے جس نے بیٹر کا کردار ادا کرتے ہوئے لاکھوں کروڑوں افسران کو پہنچائے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ سرفراز نامی شخص کی بیوی کو بھی جعلی انداز میں کنٹریکٹ سے ریگولر کرایا گیا ہے۔ مختلف سیاسی سماجی مذہبی جماعتوں اور شخصیات نے سپریم کورٹ وزیر اعلیٰ سندھ گورنر سندھ وزیر بلدیات سمیت تمام تحقیقاتی اداروں سے اٹھائے گئے حلف اور اپنے فرائض منصبی کے مطابق سخت ترین قانونی و محکمہ جاتی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔