میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ٹرمپ مخالف خواتین مارچ،سوشل میڈیا کا بھرپوراستعمال

ٹرمپ مخالف خواتین مارچ،سوشل میڈیا کا بھرپوراستعمال

منتظم
جمعرات, ۲۶ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

فی زمانہ سماجی میڈیا دنیا میں انقلاب کا سب سے موثر ذریعہ بن چکا ہے، مشرق وسطی میں عرب اسپرنگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عربوں کی یہ بیداری سماجی میڈیا کے توسط سے ہی ممکن ہوئی تھی جس کے نتیجے میں عوام طویل عرصے سے خود پر مسلط اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ گزشتہ ہفتے کو نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ان کے حلف اٹھانے کے دوسرے ہی دن واشنگٹن میں ہونے والے خواتین کے جس مظاہرے کی دنیا بھر میں زبردست دھوم ہے اس کا سب سے اہم ذریعہ بھی یہی سماجی میڈیا ہی تھی۔ اس احتجاجی مظاہرے کی اپیل ہوائی کی ایک خاتون ٹریسا ہوک نے کی تھی جنھوں نے نومبر کے انتخابات کے نتائج کو دیکھتے ہوئے فیس بک پر ایک پیج تشکیل دیا تھا اور دوستوں کو واشنگٹن میں ٹرمپ کے خلاف ایک مارچ کرنے کی دعوت دی تھی،بعد میں بالکل اسی طرح کے فیس بک صفحات ایوی ہارمون ، نیویارک کی ایک فیشن ڈیزائنر فونٹینا پارسن اور برنی بٹلر نے بھی تشکیل دیے بعد میں فونٹینا پارسن اور برنی بٹلر نے اپنی کوششوں کو مربوط کرنے کے لیے دونوں صفحات کو باہم ضم کرلیا بعد میں فیس بک کا یہی صفحہ واشنگٹن میں ہونے والے خواتین کے ملین مارچ کا آفیشنل صفحہ بنا۔ خواتین کے اس مارچ کا مقصد نئی امریکی انتظامیہ کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ خواتین کے حقوق، ایمگرینٹس اصلاحات، صحت کی سہولت، ماحولیات کے تحفظ، ایل جی بی ٹی حقوق کا تحفظ ، نسلی امتیاز، مذہبی آزادی اور مزدوروں کے حقوق کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لیں۔ بعد میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اس مارچ کی قیادت صرف کسی ایک کمیونٹی کے ہاتھوں میں نہ رہے بلکہ تمام رنگ ونسل کی خواتین اس مارچ کی قیادت کریں، مہم کی شریک بانی وینیسا وربل نے تمیکا ڈی میلوری، کارمین پیریز اور عرب مسلمان خاتون لینڈا سارسور کو بھی شریک چیئرویمن بنادیا۔ اس مارچ کے منتظمین ٹرمپ مخالفت مظاہرہ ترتیب دے کر امریکا میں خواتین کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنا چاہتے تھے، وہ سماجی انصاف اور انسانی حقوق کے لیے لوگوں کو اٹھ کھڑا ہونے کے لیے تیار کرنا چاہ رہے تھے اور اس مقصد میں سماجی میڈیا نے ان کی بے پایاں مدد کی۔ فیس بک، ٹیوٹر اور سماجی میڈیا کے دیگر پلیٹ فارم پر چلنے والی اس مہم میں چاروں شریک چیئر ویمنز میں سے لینڈا سارسور عرب امریکن ایسوسی ایشن نیویارک کی ڈائریکٹر ہیں جبکہ تمیکا مالوری نیشنل ایکشن نیٹ ورک کی سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ایک سیاسی منتظم ہیں۔کارمین پریز متحرک سیاسی گروپ گیدرنگ فار جسٹس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں، اور باب بلنڈ ایک فیشن ڈیزائنر ہیں اور وینسا وربل” اوکے افریقہ“ کی شریک صدر ہیں جنھوں نے نہ صرف مہم چلانے والی ٹیم کی سربراہی کی بلکہ سماجی میڈیا کے ذریعہ مارچ کے پیغام کو امریکا بلکہ پوری دنیا میں پھیلایا ، ان کے علاوہ بعض دیگر خواتین نے بھی شریک چیئرویمن کی حیثیت سے مارچ کے لیے خدمات انجام دیں ۔ 12 جنوری کو مارچ کی منتظمین نے ایک پالیسی پلیٹ فارم جاری کیا جس میں تولیدی حقوق، ایمگریشن ریفارم، مذہبی امتیاز، ایل جی بی ٹی حقوق ، نسلی وجنسی تفریق ، مزدوروں کے حقوق اور دیگر مسائل کا ذکر تھا، ان مسائل کی سنگینی کا احساس رکھنے والے عوام بڑی تعداد میں اس مارچ کے حق میں ہوگئے۔ منتظمین نے ماحولیات جیسے سنگین مسئلے کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ یہ ہمارا یمان ہے کہ اس ملک کے ہر شخص کو صاف پانی کی فراہمی کا حق حاصل ہے جس کے لیے موسمیات کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔کارپوریٹ سیکٹر کے فائدے کے لیے اور زمین اور اس پر موجود قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال نہیں ہونے دیا جائے گاکیونکہ اس کے نتیجے میں عوام کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ مظاہرے کے منتظمین کا کہنا تھا کہ کارپوریٹ سیکٹر کے فائدے کے لیے لوگوں کے تحفظ کو خطرے میں ڈال کر اور انھیں موت کے منہ میں دھکیل کر قدرتی وسائل کا استحصال نہیں کیا جانا چاہئے، انھوں نے عوام کو باور کرایا کہ ماحولیات کا تحفظ انسانی بقاءکے لیے کس قدر اہم ہے۔ منتظمین کا جاری کردہ پالیسی پلیٹ فارم سماجی میڈیا کے ذریعہ اس قدر مقبول ہوا کہ کوئی دو ملین یا20 لاکھ لوگوں نے آن لائن واشنگٹن کے اس ملین مارچ میں شریک ہونے کی حامی بھرلی ۔ بلکہ پوری دنیا میں انسانی حقوق پر یقین رکھنے والے اور خواتین و انسانی حقوق کی بشتر تنظیموں نے اس پالیسی پلیٹ فارم کو اپنا منشور گردانا اور مارچ کی اپیل پر لبیک کہا۔ واشنگٹن میں ہونے والے اس مظاہرے میں وکی پیڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایک دن پہلے ہونے والے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کے مقابلے میں کم از کم تین گنا زائد لوگ شریک تھے، خواتین کے اس مارچ میں شرکاءکی تعداد کسی طور پر پانچ لاکھ سے کم نہ تھی، اس مظاہرے نے امریکا میں انیس سو ساٹھ کی دہائی میں چلنے والی شہری حقوق کی تحریک جسے سول رائٹس موومنٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،کی یاد تازہ کردی جس کے نتیجے میں امریکا سے حتمی طور پر غلامی کا خاتمہ ہوا تھا اور سفید اور سیاہ فارم امریکیوں کے درمیان تفریق کو جرم قراردیا گیا تھا، تجزیہ نگاروں کے مطابق سول رائٹس کی اس تحریک کے دوران واشنگٹن میں ہونے والے مظاہرے میں جتنے لوگ شریک تھے خواتین کا یہ مظاہرہ اس سے کہیں بڑا تھا۔ لہٰذا وہ توقع کرتے ہیں کہ امریکی حکمران اس مظاہرے کو دیکھتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے لیے کسی انتہائی اقدامات سے گریز کریں گے۔ یہ مظاہرہ واشنگٹن کے انڈیپنڈنٹ ایونیو پر کیا گیا جبکہ اس سے محض ایک فرلانگ کے فاصلے پر ایک دن پہلے نئے امریکی صدر
کی تقریب حلف برداری کا انعقاد کیا گیا تھا۔ مظاہرے میں شریک خواتین عمومی طور پر گلابی ہیٹ پہنے ہوئے تھیں اور انھوں نے بینر اٹھارکھے تھے جن پر ”سماجی حقوق اہم ہیں“ اور ” ہماری برہمی جائز ہے“ لکھا تھا۔ ان مظاہرین کا احتجاج صدر ٹرمپ کے ان بیانات اور تبصروں کے خلاف تھا جو وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران خواتین ، تارکین وطن اورسماجی حقوق سے منسلک معاملات پر وقتا فوقتا جاری کرتے رہے ہیں۔ اس احتجاج میں شرکت کے لیے امریکا بھر سے لوگ واشنگٹن آئے تھے ، شہر کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے شہر سے باہر سے آنے والی 1800 بسوں کو پارکنگ کا اجازت نامہ جاری کیا ہے اس طرح صرف بسوں میں آنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہوجاتی ہے۔ یہ مظاہرے واشنگٹن تک محدود نہیں رہے۔ بلکہ واشنگٹن کے مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے ان ہی اوقات میں امریکا کے 408 شہروں اور قصبوں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے جبکہ دنیا کے 81 ممالک کے 168 مقامات پر بھی اسی دوران مظاہرے کئے گئے اس طرح مجموعی طور پر پوری دنیا میں 673 مقامات پر یہ احتجاجی مظاہرے ہوئے جن میں مجموعی طور پر 48 لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ امریکا میں ہونے والے مظاہرے میں واشنگٹن کے بعد نیویارک اور شکاگو کا مظاہرہ لوگوں کی تعداد کے اعتبار سے کافی بڑا مظاہرہ تھا جن میں لاکھوں لوگ شریک تھے۔ اور یہ سماجی میڈیا ہی کا کمال تھا کہ اتنی بڑی تعدادمیں لوگ نہ صرف امریکا میں اٹھ کھڑے ہوئے بلکہ اس سے کہیں زیادہ دیگر ممالک میں بھی لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور اس طرح سماجی میڈیا نے پوری دنیا کو ایک نکاتی ایجنڈے پر متحد کردیا اس طرح 21 جنوری کے خواتین مارچ نے موجودہ زمانے کے حکمرانوں اور استحصالی طبقے کو یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ اب وقت بدل چکا ہے اب وہ عوام کے مفادات کے خلاف اپنے من مانے فیصلوں میں اس طرح آزاد نہیں جیسا کہ وہ ماضی میں ہوا کرتے تھے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں