میدانِ جہاد کے عظیم شہسوار۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ
شیئر کریں
نام اور کنیت:آپؓ کا نام نامی اسم گرامی ¾ سعد،کنیت ¾ابو اسحاق،والد کا نام مالک، والد کی کنیت ابو وقاص اور والدہ کا نام حمنہ ہے۔والد کی طرف سے پورا سلسلہ¿ نسب یہ ہے : ”سعد بن مالک بن وہیب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ بن کعب لوی بن غالب بن فہر بن نضر بن کنانہ القرشی الزہری۔“
قبول اسلام:حضرت سعدبن ابی وقاص صکی عمر مبارک صرف انیس سال کی تھی کہ دعوت اسلام کی صدائے سامعہ نوازنے آپؓ کو توحید کا شیدائی بنا دیا۔ چنانچہ آپؓ حضرت ابوبکر صکے ساتھ بار گاہِ نبوت ا میں حاضر ہو کرخلعت ایمان سے مشرف ہوئے۔
بخاری شریف میں حضرت سعدصسے روایت ہے کہ ان سے پہلے کوئی شخص مسلمان نہیں ہوا تھااور ایک دوسری روایت میں وہ اپنے کو تیسرا مسلمان بتاتے ہیں ، لیکن محدثین عظام کی تحقیق کے مطابق چھ سات بزرگوں کو ان پر تقدم کا فخر حاصل ہو چکا تھا۔البتہ یہ ممکن ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص صکو ان کی اطلاع نہ ہو کیونکہ کفار کے خوف سے انہوں نے اپنے ایمان لانے کا اعلان نہیں کیا تھا۔ ( اسد الغابہ : ۲/۱۹۲،صحیح بخاری مع فتح الباری)
عزم واستقامت:حضرت سعدبن ابی وقاص صکی ماں نے لڑکے کے تبدیل مذہب کاحال سنا تو نہایت کبیدہ خاطر ہوئیں،بات چیت،کھانا پینا،سب کچھ چھوڑ بیٹھیں،چونکہ اپنی ماں کے حد درجہ فرماں بردار اور اطاعت شعار تھے،اس لیے سخت آزمائش کا موقع تھالیکن جو دل تو حید کی لذت کا آشنا ہو چکا تھاوہ پھر کفر و شرک کی طرف کس طرح رجوع ہو سکتا تھا ،ماں مسلسل تین دن تک بے آب ودانہ رہیں،لیکن بیٹے کی جبین استقلال پر شکن تک نہ پڑی ،خدائے پاک کو یہ شان استقامت کچھ ایسی پسند آئی کہ تمام مسلمانوں کے لیے معصیت الٰہی میں والدین کے عدم اطاعت کا ایک قانون عام بنا دیا گیا:ترجمہ:اگر والدین تجھ کو میرے ساتھ شرک کرنے پر مجبور کریں جن کا کوئی علم و یقین تیرے پاس نہیں ہے تو اس میں ان کی اطاعت نہ کر۔ ( صحیح مسلم ، سیر الصحابہؓ : ۲/۱۹۲)
مکہ کی زندگی:اسلام قبول کرنے کے بعد ہجرت نبوی ا تک مکہ میں مقیم رہے،گو یہ سر زمین عام مسلمانوں کی طرح ان کے لیے مصائب و شدائد سے خالی نہ تھی،تاہم استقلال کے ساتھ ہر قسم کی سختیاں جھیلتے رہے حضرت سعد بن ابی وقاص صکفار کے خوف سے عموماً مکہ کی ویران اور سنسان گھاٹیوں میں چھپ کر معبود حقیقی کی پرستش و عبادت فرمایا کرتے تھے،ایک دفعہ ایک گھاٹی میں چند صحابہ ث کے ساتھ مصروف عبادت تھے،اتفاق سے کفار کی ایک جماعت اس طرف آنکلی اور اسلام کا مذاق اڑانے لگے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص صکو بے بسی کی زندگی میں جوش آگیااور اونٹ کی ہڈی اٹھا کر اس زور سے ماری کہ ایک مشرک کا سر پھٹ گیااور خون بہنے لگا،بیان کیا جاتا ہے کہ اسلام کی حمایت میں یہ پہلی خون ریزی تھی جو حضرت سعد بن ابی وقاص صکے ہاتھ سے عمل میں آئی۔ (اسد الغابہ : ۲ /۱۹۱، سیر الصحابہ: ۲/۶۰۱ )
ہجرت مدینہ:مکہ میں جب کفار کے ظلم وستم سے مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ صبر وتحمل لبریز ہو گیا تو آنحضرت انے صحابہ کرام ثکو ہجرت مدینہ کا حکم دیا اس حکم کی بنا پر حضرت سعد بن ابی وقاص صنے مدینہ کی راہ لی ،اور اپنے بھائی عتبہ بن ابی وقاصص کے مکان میں فروکش ہوئے، انہوں نے ایام جہاہلیت میں ایک خون کیا تھااور انتقام کے خوف سے مدینہ میں سکونت اختیار کر لی تھی،یہاں پہنچ کر مسلمانوں کوآزادی اور طمانیت نصیب ہوئی،تاہم قریش مکہ کی حملہ آوری کا خطرہ موجود تھاآنحضرت انے پیش بینی کر کے حضرت عبد ہ بن الحارث صکو ساٹھ یا اسی سواروں کے ساتھ غنیم کی نقل و حرکت دریافت کرنے کے لیے روانہ فرمایا حضرت سعد وقاص صبھی اس جماعت میں شامل تھے غرض دورہ کرتے ہوئے حجاز کے ساحلی علاقہ میں قریش کی ایک بڑی تعداد سے مڈ بھیڑ ہوئی،چونکہ محض تجسس مقصود تھااس لیے کوئی جنگ پیش نہ آئی،مگر حضرت سعد بن ابی و قاص صکو کہاں تاب تھی؟ انہوں نے ایک تیر چلا ہی دیا،چنانچہ یہ اسلام کا پہلا تیر تھاجو راہِ خدا میں چلایا گیا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول ،جزثالث ص۹۹،سیرت ابن ہشام ج۱ ص۸۳۳)
غزوات!آپ بڑے نڈر اور بے باک صحابی تھے۔حضرت قیس صکہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعدبن ابی وقاص صکو یہ کہتے ہوئے سناکہ میںوہ پہلا عرب ہوں جس نے خدا تعالیٰ کے راستہ میں تیر اندازی کی۔ہم آنحضرت اکے ساتھ مل کر جہاد کرتے تھے،حالانکہ درختوں کے پتوں کے علاوہ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ( صحیح البخاری :ج اول ص۸۲۵)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح میں نقل کیا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص صاس سریہ میں شریک تھے جو سب سے پہلا اسلامی معرکہ تھا جو یکم ہجری کو مشرکین کے مقابلے میں تھا۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری :ج۷ص۴۸)
ایسے ہی ابتداءاسلام میں مکہ مکرمہ کی ایک وادی میں ایک مشرک نے دین اسلام پر اعتراض کیا تو آپ صنے اونٹ کا جبڑا لیکراس کو لہو لہان کر دیا،یہ وہ پہلا خون تھاجو اسلام کے دشمن کا اسلامی سپاہی نے بہایادہو۔ (الاصابہ فی تمیز الصحابہ : ج۲ ص۲۳)
آپؓ نے جنگ بدر،خندق،اُحد اور دیگر تمام مشاہد میں مردانہ وار جہاد کیا۔ (ارشاد الساری شرح صحیح البخاری: ج ۶ص۴۲۱)
آپؓ کا نام باب شجاعت میں سنہری حروف سے لکھا گیا ہے آپ قریش کے ان گھوڑ سواروں میں تھے جو غزوات میںنبوی اکی حفاظت کیا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم :۲/۱۸۲)
آپ بہترین تیر انداز تھے ،سید دوعالم انے احد کے دن آپ صکی تیر اندازی کے لیے دعا کی تھی:ترجمہ:اے اللہ سعد کا نشانہ درست کر دے۔(مشکوٰة المصابیح:۲ / ۶۶۵)
اور ایک روایت میں ہے:ترجمہ:”اے اللہ سعد کا نشانہ سخت درست کر دے۔“(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب: لابن عبد البر)نیز اسی روز آپ ا نے حضرت سعدصکی بہترین تیر انداز ہر آپ کو داد دیتے ہوئے یہ کلمات ارشاد فرمائے تھے:
ترجمہ:اے سعد! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہو جائیں تیر مارو!۔“ (جامع ترمذی: ۲/۶۱۲،صحیح مسلم ۲/۰۸۲)
حضرت علی صفرماتے ہیں کہ کسی اور کے لیے آنحضرت ا نے یہ الفاظ جمع نہیں کئے۔ہو سکتا ہے اس وقت تک یہ آپ ہی کا خاصہ ہوحضرت زبیرصکے بارے میں بھی سرکارنے یہ الفاظ جمع کئے ہیں جن کا ذکر ماقبل میں ہوا۔
علم وفضل:حضرت سعد وقاص صکا علمی پایہ نہایت ارفع تھا، حضرت عمر صفرمایا کرتے تھے کہ جب سعدبن ابی وقاص صرسول اللہ اسے حدیث روایت کریںتو پھراس کے متعلق کسی دوسرے سے نہ پوچھورسول اللہ اسے تحصیل علم میں کبھی پس وپیش شرم و حجاب دامن گیر نہ ہوتا تھا،ایک دفعہ بارگاہ نبوت میں حاضر تھے آنحضرت انے ایک جماعت کو کچھ عطیے مر حمت فرمائے،لیکن اس میں سے ایک شخص کو محروم رکھاحضرت سعد بن ابی وقاصص کو اس کی محرومی پر سخت تعجب ہوا،عرض کی یا رسول اللہا!میرا خیال ہے کہ یہ بھی مومن ہے؟ ارشاد ہوا،مومن یا مسلم،لیکن حضرت سعدبن ابی وقاص صکو تشفی نہ ہوئی،انہوں نے پھر اپنا سوال دہرایاآنحضرت ا نے اس دفعہ بھی وہی جواب دیا،غرض حضرت سعدبن ابی وقاص صنے مکرر سہ کرر اس سوال کو جاری رکھایہاں تک کہ رسول اللہا نے یہ فرماکر تشفی کر دی کہ بسا اوقات اس سے جس کو عطیے دیتا ہوں وہ شخص جس کو کچھ نہیں دیتا میرے نزدیک زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری،سیر الصحابہؓ:ج /۱۲۱)
ذریعہ معاش و جاگیر: ایک زمانہ وہ تھا کہ حضرت سعدبن ابی وقاص ص درخت کے پتے کھا کھاکر رسول اللہ اکے غزوات میں جانبازی دکھاتے تھے،لیکن اسلام نے بہت جلد روحانیت کے ساتھ ساتھ مادی حیثیت سے بھی اپنے فدائیوں کی عسرت و تنگ حالی کی دولت و ثروت سے مبذول کر دیا،خیبر کی مفتو حہ اراضی میں جاگیر ملی،ایران کے مال غنیمت میں حصہ ملا،اسی طرح دور فتنہ و فساد میں ایک غیر آباد زمین خرید کر زراعت کا مشغلہ اختیار کیا،غرض اخیر زندگی میں ایک بڑی دولت کے مالک ہوئے،کوفہ اور مدینہ سے دس میل کے فاصلے پر مقام عقیق میں عالی شان محلات تعمیر کروائے مگر باوجود اس کے غذا ولباس کی سادگی میںکچھ فرق نہیں آیا تھا۔
ازواج واولاد!حضرت سعدبن ابی وقاص صنے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں،ازواج کے نام یہ ہیں:(۱)بنت الشہاب(۲)بنت قیس بن معدی کرب(۳)ام عامر بنت عمرو (۴) زہد (۵)ام بلال بنت ربیع(۶)ام حکیم بنت قارظ(۷)سلمہ بنت حفض(۸)ظیہ بنت فامر (۹) ام حجر۔
اولادو احفاد:حضرت سعدبن ابی وقاص صکی چونتیس بچے بچیاں تھے ،جن میں سے اٹھارہ لڑکے اور سترہ لڑکیاں تھیں، سب کے نام حسب ترتیب درج ذیل ہیں۔
مذکر اولاد: (۱)اسحاق اکبر (۲)عمر (۳)محمد (۴)عامر (۵)اسحاق اصغر (۶)اسماعیل (۷) ابراہیم (۸)موسیٰ (۰۱)عبد اللہ(۱۱)عبد اللہ اصغر (۲۱)عبد الرحمن (۳۱) عمیر اکبر(۴۱)عمیر الاصغر (۵۱)عمرو(۶۱)عمران(۷۱)صالح(۸۱)عثمان۔
مو¿نث اولاد: (۱)ام الحکیم کبریٰ (۲)حفصہ (۳)ام القسم(۴)کلثوم(۵)ام عمران(۶)ام الحکیم صغریٰ (۷) ام عمرو(۸)ہند(۹)ام الزبیر (۰۱)ام موسیٰ (۱۱) حمنہ (۲۱) ام عمر(۳۱)ام ایوب (۴۱)ام اسحاق (۵۱)ملہ (۶۱)عمرہ (۷۱)عائشہ۔
وفات حسرت آیات! حضرت سعدبن ابی وقاص صنے مدینہ سے دس میل کے فاصلے پر مقام عقیق میں اپنے لیے ایک قصر تعمیر کروایاتھا،چنانچہ عزلت نشینی کی زند گی اس میں بسر ہوئی،آخر عمر میں قوی مضمحل ہو گئے تھے اور آنکھوں کی بصارت بھی جاتی رہی تھی،یہاں تک کہ ۵۵ ہجری میں طائر روح نے باغ رضوان کے اشتیا ق میں ہمیشہ کے لیے اس قفس عنصری کو خیرآ باد کہا، حضرت سعدبن ابی وقاصصنے وصیت کی تھی جنگ بدر میں جو اونی کپڑا میرے جسم پر تھااس سے کفن کا کام لیا جائے،چنانچہ اس پر عمل کیا گیااور لاش مدینہ لائی گئی،بعض امہات المو¿منین اس وقت زندہ تھیں،انہوں نے حکم دیا کہ اس جاں نثار رسول ا کا جنازہ مسجد میں لایا جائے،چنانچہ مسجد میں ان کے حجروں کے سامنے نماز ادا کی گئی، امہات المو¿منین بھی نماز میں شریک تھیں،کسی نے مسجد میں نماز جنازہ پر اعتراض کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا: ”لوگ کس قدر بھول جلد بھول گئے ہیں کہ رسول اللہ انے سہیل بن بیضاءصپر مسجد میں نماز نہیں پڑھائی۔“ غرض اس تزک و احتشام کے ساتھ اس مقام بقیع میں مدفون ہوئے۔ ستر( ۰۷) برس سے زیادہ عمر پائی اور اس عرصہ میں اپنے عظیم الشان کار ناموںکی ایسی یاد گاریں چھوڑ گئے کہ جن پر آنے والے لوگ تا قیامت فخر کرتے رہیں گے۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ سعد بن ابی وقاصؓ)
٭٭