طالبان کی خواتین کی ملازمت پر بھی پابندی
شیئر کریں
افغانستان میں طالبان انتظامیہ نے ہفتے کو تمام مقامی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کو حکم دیا ہے کہ وہ خواتین ملازمین کو ملازمت سے روک دیں۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق طالبان کی طرف سے ملک میں خواتین کی ملازمت پرپابندی کا یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوسری طرف حال ہی حکومت نے لڑکیوں کی جامعات میں تعلیم کے حصول پرپابندی عائد کردی تھی۔ وزارت اقتصادیات کے ترجمان عبدالرحمن حبیب کی طرف سے تصدیق شدہ خط میں کہا گیا کہ خواتین ملازمین کو تا حکم ثانی کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ کچھ خواتین ملازمین نے اسلامی لباس کی انتظامیہ کی تشریح پر عمل نہیں کیا۔ یہ حکم طالبان انتظامیہ کی جانب سے یونیورسٹیوں میں خواتین کے داخلے پر پابندی کے بعد سامنے آیا جس کی عالمی سطح پر سخت مذمت کی گئی اور افغانستان کے اندر بھی احتجاج اور شدید تنقید ہوئی۔ گزشتہ ہفتے وزارت اعلی تعلیم نے ایک اعلامیے میں کہا تھا کہ یونیورسٹیوں میں خواتین کی تعلیم حاصل کرنے پر تاحکم ثانی پابندی ہوگی۔ امریکا سمیت مختلف عالمی تنظیموں نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے طالبان کو کہا تھا کہ وہ جلد از جلد خواتین کی تعلیم پر سے پابندی ہٹائیں۔ خواتین پر یونیورسٹیوں کے دروازے بند کیے جانے کے اعلان کے چند روز بعد طالبان کے وزیر برائے ہائر ایجوکیشن شیخ ندا محمد ندیم نے سرکاری ٹی وی آر ٹی اے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یونیورسٹیوں میں بچیوں کی تعلیم پر عارضی پابندی چند مسائل کی وجہ سے لگائی گئی۔ طالبان کے اس حکم نامے کے بعد افغانستان میں تمام سرکاری اور نجی محکموں حتی کہ محکمہ صحت سے بھی خواتین ملازمین کو نکال دیا جائے گا۔ قبل ازیں طالبان نے خواتین کی تعلیم پرغیرمعینہ مدت تک پابندی عائد کردی تھی۔