علی رضا عابدی کے قتل کی تحقیقات دو برس بعد بھی نامکمل کیوں
شیئر کریں
کراچی (رپورٹ :شعیب مختار) دو برس بیت گئے قاتل قانون کی گرفت میں نہ آ سکے نادیدہ قوتیں تحقیقات میں رکاوٹ بن گئیں سندھ پولیس کا کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ(سی ٹی ڈی) ہائی پروفائل کیسوں کی گتھی سلجھانے میں ناکام ہو گیا متحدہ قومی موؤمنٹ کے سابق رہنما علی رضا عابدی کے قتل کی تحقیقات منطقی انجام تک نہ پہنچ سکی 4 مرکزی ملزمان تاحال مفرور تفصیلات کے مطابق 25 دسمبر 2018 کو متحدہ قومی موؤمنٹ کے سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کو ان کی رہائشگاہ کے باہر ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قتل کیا گیا تھا جس کا مقدمہ گزری تھانے میں درج کیا گیا ہے بعد ازاں تحقیقات کو جلد منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے تفتیش سی ٹی ڈی حکام کو سونپی گئی تھی جس نے تکنیکی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے ہائی پروفائل کیس میں ملوث محمد فاروق,حسیب,ابوکر اور غزالی نامی ملزمان کو گرفتار کیا ہے جنہوں نے دوران تفتیش قتل کی منصوبہ بندی سے متعلق اہم انکشافات کیے ہیں اور مزید 4 ملزمان کے نام اگل دیئے ہیں جن میں بلال،حسنین،مصطفی عرف کالی چرن اور فیضان شامل ہے جن کی گرفتاری دو برس گزر جانے کے باوجود بھی تاحال عمل میں نہیں آسکی ہے گرفتار ملزمان کا دوران تفتیش کہنا تھا کہ قتل کے عیوض انہیں 8 لاکھ روپے کی خطیر رقم کی ادائیگی حسینی بلڈنگ کے عقب میں نامعلوم شخصیات کی جانب سے کی گئی ہے جبکہ علی رضا عابدی پر فائرنگ کرنے والا مرکزی کردار 17 سالہ بلال ہے جو مفرور ہے گرفتار ملزمان کی جانب سے علی رضا عابدی قتل کیس میں سہولت کاری کا کردار ادا کیا گیا ہے جن پر عدلت کی جانب سے فرد جرم عائد کر دی گئی ہے تاہم سی ٹی ڈی کی جانب سے تفتیش سرد خانے کی نذر کیے جانے پر کیس کے مرکزی ملزمان تاحال قانون کی گرفت میں اب تک نہیں آ سکے ہیں آ ئندہ چند روز میں مذکورہ انکوائری مکمل طور پر بند کیے جانے کا اندیشہ ہے اس ضمن میں علی رضا عابدی کے والد اخلاق حسین عابدی کا روزنامہ جرآت سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہیں تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی پر سخت تحفظات ہیں دو برس بیت جانے اور سی ڈی آر میں تمام تفصیل ہو نے کہ باوجود مفرور ملزمان کا قانون کی گرفت میں نہ آنا سی ٹی ڈی کی غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کے ورثا کا دعوی ہے کہ تمام تر ملزمان کو قتل کے چند روز بعد ہی گرفتار کر کے لاپتہ کر دیا گیا ہے جس کی پیٹیشن بھی کورٹ میں مو جود ہے ان تمام تر امور کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔