مالی سال کی پہلی سہ ماہی‘حکومت کے بے لگام قرضے‘قومی آمدن کا 66فیصد سودخور ڈکار گئے
شیئر کریں
قرضوں پر سود کی اونچی شرح ملک کے لیے ایک بڑا مسئلہ اور ملکی وسائل پر بڑا بوجھ ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں اعتراف
زرمبادلے کے ذخائر میں اضافہ ملکی وسائل سے نہیں بلکہ غیر ملکی قرض سے حاصل ہونے والی 27 ارب ڈالر کی رقم سے ہوا
ایچ اے نقوی
موجودہ حکومت کی جانب سے آنکھ بند کر کے لیے جانے والے بھاری ملکی اورغیر ملکی قرضوں کی وجہ سے ملک کی معیشت اور قومی وسائل پر پڑنے والے منفی نتائج اب نظر آنا شروع ہوگئے ہیں اور اب یہ ظاہر ہونا لگاہے کہ ان قرضوں کی وجہ سے اس ملک کے عوام کو کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔
ملک پر قرضوں کے بھاری بوجھ کی وجہ سے ملکی وسائل پر پڑنے والے سنگین منفی نتائج کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ خود حکومت کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواںمالی سال کی پہلی سہ ماہی یعنی جولائی سے ستمبر کے دوران میں عوام پر عاید کردہ بھاری ٹیکسوں کے ذریعہ جمع ہونے والی رقم کا دوتہائی حصہ ملک پر واجب الادا سود یا سروسز اسے جوبھی نام دے لیں کی ادائیگی پر خرچ ہوگئی ،اور 34 فیصد سے بھی کم رقم خزانے میں باقی بچی ۔
اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی یعنی جولائی تاستمبر کے دوران میں 414 ارب یعنی 4کھرب 14 ارب روپے قرضوں پر سود یا سروسز کی مد میں ادا کیے گئے۔اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران میں ٹیکسوں کی مد میں مجموعی طورپر 625 ارب روپے یعنی6 کھرب 25 ارب روپے جمع کیے جاسکے تھے جس میں سے کم وبیش 66 فیصد رقم قرضوں پر سود کی نذر کرنا پڑی۔
سود یاسروسز کی مدمیں ادا کی جانے والی اس رقم میں سے 392.7 ارب روپے یعنی 3 کھرب92 ارب 70 کروڑ روپے ملکی قرضوں پر منافع یا سود کی مد میں ادا کیے گئے جو سود کی مد میں ادا کی جانے والی رقم کا کم وبیش94.9 فیصد حصہ بنتاہے، جبکہ اس مدت کے دوران میں غیر ملکی قرضوں کی مدمیں 21.6 ارب روپے یعنی 21ارب 60 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں یہ اعتراف کیاگیاہے کہ موجودہ حکومت نے ملکی اور غیرملکی ذرائع سے قرض حاصل کرنے کا نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے اور اگر ملکی وسائل میں قابل ذکر اضافے کی کوئی سبیل پیدا نہیں ہوئی تو آگے چل کر یہ قرضے اور ان پر واجب الادا سود کی رقم ہمارے گلے میں ہڈی بن کر اٹک سکتی ہے۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں یہ بھی اعتراف کیاگیاہے کہ قرضوں پر سود کی اونچی شرح ملک کے لیے ایک بڑا مسئلہ اور ملکی وسائل پر بڑا بوجھ ہے۔قرضوں پر سود یامنافع کی اونچی شرح کی وجہ سے ایک طرف ملک کے ترقیاتی منصوبے متاثر ہورہے ہیں اور وسائل کی کمی کی وجہ سے حکومت کو بجٹ میں اعلان کردہ ترقیاتی منصوبوں میں بار بار کٹوتی کرنے پر مجبور ہونا پڑتاہے جس کااندازہ پنجاب میں میٹرو اور اورنج لائن منصوبوں کا خرچ پورا کرنے کیلیے تعلیم اور صحت کے بجٹ میںمبینہ طورپر کی گئی بھاری کٹوتیوں سے لگایاجاسکتاہے۔دوسری جانب سود کی مدمیں بھاری ادائیوںں کی وجہ سے ملک کے مالی خسارے میں بھی مسلسل اضافہ ہورہاہے اورحکومت کی جانب سے عوام سے رقم کی وصولی کے لیے اختیار کیے گئے نت نئے ہتھکنڈوں جن میں پیٹرول ،پیٹرولیم کی مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہے مالی خسارے کا یہ جن قابو میں نہیں آرہاہے۔
اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق حکومت اب تک مجموعی طورپر ایک کھرب روپے مالیت کے قرضے حاصل کرچکی ہے ،جس کی وجہ سے ملک میں مالیاتی خلیج میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق حکومت نے 2015-16 کے دوران میں یعنی گزشتہ مالی سال کے دوران میں قرضوں پر سود کی مد میں مجموعی طورپر 12 کھرب 63 ارب روپے ادا کیے تھے جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران ٹیکس وصولی کی مجموعی مالیت 31 کھرب 12 ارب روپے کے مساوی تھی جبکہ مالیاتی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس سال حکومت کو گزشتہ سال کے مقابلے میں سود کی مد میں زیادہ رقم اداکرنا پڑے گی ،کیونکہ اس سال حکومت نے گزشتہ سال کی نسبت زیادہ رقم کے قرض حاصل کیے ہیں۔ ماہرین کایہ بھی کہناہے کہ اب اگر حکومت قرض لینا بالکل بند کردے اور اگلے 10 سال تک کوئی قرض نہ لے تو بھی ملک پر واجب الادا قرضوں پر سود کی ادائی کاسلسلہ جاری رہے گا اور اس دوران آنے والی ہر حکومت کو قرضوں پر سود کی مد میں اس سے کہیں زیادہ رقم ادا کرتے رہنے پر مجبور ہونا پڑے گا کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی اب تک لیے گئے قرضوں پر بھی سود اور سروسنگ کی رقم واجب الادا ہوتی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی پہلے سے لیے گئے بہت سے قرضوں کی مدت پوری ہونے کی صورت میںان کی ادائی بھی قومی خزانے پر بھاری بوجھ ثابت ہوگی اوران کی ادائی کے لیے حکومت کو لامحالہ نئے قرضوں کا طوق گلے میں ڈالنے پر مجبور ہونا پڑے گا جبکہ اس دوران ٹیکس وصولی کی مد میں بہت زیادہ فرق پڑنے کی بظاہر کوئی توقع نظر نہیں آتی۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ حکومت ملک کے زرمبادلے کے ذخائر میں اضافہ کرنے کاجو ڈھنڈورا پیٹ کر اس کا کریڈٹ اپنے سر لینے کی کوشش کررہی ہے وہ زرمبادلہ ملکی وسائل سے جمع نہیں ہوا بلکہ حکومت کے پاس موجود 27 ارب ڈالر مالیت کے زرمباد لہ کے ذخائر کی تمام رقم غیر ملکی قرض سے حاصل ہونے والی رقم ہے، اگر یہ قرض نہ ملتے تو اس وقت ملک کے پاس زرمبادلہ نام کی پھوٹی کوڑی بھی نہ ہوتی۔غیر ملکی قرضوں کے علاوہ حکومت ملکی بینکوں اوردیگر مالیاتی اداروں سے بھی 8 کھرب روپے سے زیادہ مالیت کے قرض حاصل کرچکی ہے جن پر سود یا منافع ٹیکسوں کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی کے 50 فیصد سے بھی زیادہ ہوتاہے۔
ایک طرف حکومت کو ملک پر قرضوں کے بوجھ کے سبب سود اور سروسز کی مد میں قیمتی زرمبادلہ ادا کرنا پڑرہاہے دوسری جانب ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کرنے والے ادارے بھی منافع اور اصل رقم کی مد میں بھاری زرمبادلہ بیرون ملک منتقل کرنے میں مصروف ہیں جس کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ گزشتہ 5 ماہ کے دوران یعنی جولائی سے نومبر کے دوران ملک میں براہ راست سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکی اداروں نے منافع اور اصل رقم کی مد میں مجموعی طورپر 591 ملین ڈالر یعنی59 کروڑ10 لاکھ ڈالر بیرون ملک منتقل کیے ،جبکہ اس مدت کے دوران ملک میں مجموعی طورپر 460 ملین ڈالر یعنی46 کروڑڈالر کے مساوی رقم لائی گئی اس سے ظاہرہوتاہے کہ اس مدت کے دوران بیرون ملک منتقل کی گئی رقم ملک میں لائے جانے والے زرمبادلہ کی رقم سے بھی28 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
اعدادوشمار سے یہ بھی ظاہرہوتاہے کہ حکومت کے ان دعووں کے برعکس کہ بڑے پیمانے پر غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آکر سرمایہ کاری کررہے ہیں اور اس طرح بھاری زرمبادلہ ملک میں آرہاہے گزشتہ 5 ماہ کے دوران ملک میں براہ راست سرمایہ کاری کی شرح میں45 فیصد تک کمی آئی ہے جس کی وجہ سے ملکی خزانے پر دباﺅ میں اضافہ ہواہے۔
ملکی خزانے کی یہ صورتحال حکومت خاص طورپر ہمارے وزیر خزانہ کی فوری توجہ کی متقاضی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت آمدنی اور خرچ میں توازن پیدا کرنے کے ساتھ ہی برآمدات کی راہیں تلاش کرے تاکہ ملک کے زرمبادلے کے ذخائر پر بڑھتاہوادباﺅ کم کیا جاسکے کیونکہ اس وقت ہماری برآمدات کی صورتحال نہ صرف یہ کہ اطمینان بخش نہیں ہے بلکہ برآمدات میںمسلسل کمی تشویشناک صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔