احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ
شیئر کریں
رفیق پٹیل
پی ٹی آئی نے حکومت کی جانب سے اپنی جماعت کے رہنمائو ں اور کارکنوں کے خلاف مسلسل اقدامات سے تنگ آکر ایک طویل مدّت احتجاجی تحریک شروع کردی ہے یہ احتجاج ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب عوام بھی مہنگائی،بے روزگاری اور صحت وصفائی کی سہولیات میں کمی سے شدید پریشان ہیںپی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں احتجاجی تحریک کئی ہفتوں تک جاری رہ سکتی ہے اور مذاکرات بھی جاری رہیںگے ۔
دنیا کا کوئی بھی ایسا زیادہ طاقتورملک یا کم طاقتور ملک جہاں بد عنوانی،لاقانونیت ،جھوٹ، بے ایمانی ،فراڈ کا دور دورہ ہو اور جہاں کے حکمران عومی حمایت سے محروم ہو ںوہ معاشی تباہی اور سیاسی انتشار سے نہیں بچ سکتا ۔پاکستان کے موجودہ بحران کی بنیادی وجہ بھی طویل عرصے سے جاری اخلاقی زوال اور اشرفیہ کی لوٹ کھسوٹ پر مشتمل بد ترین حکمرانی ہے جس کی وجہ سے عدلیہ ،مقنّنہ اور انتظامیہ مسلسل کمزور اور کھوکھلے ہوتے چلے گئے جو ریاست کے استحکام کے لیے بنیادی ادارے ہیں،اب اگر پاکستان کے ہر سو کلومیٹر پر سونے کی کانیں اور تیل کے کنویں بھی ہوں اس کے باوجود احتساب سے بالاتر بد عنوان انتظامیہ،نا قص عدالتی نظام،عوامی حمایت سے محروم مقنّنہ کے باعث موجودہ حکمران اس ملک کی معیشت کو تباہی کی جانب گامزن رکھیں گے۔ دنیا بھر کے سماجی ماہرین، سیاسی محقق عمومی طور پر اس بات پر اتّفاق کرتے ہیں کہ دولت سے ملک ترقی نہیں کرتے ۔اخلاقی اقدار کی پاسداری کرنے والے صاف ستھرے معاشرے اور عوامی حمایت پر مشتمل حکومت کے ذریعے ہی ترقّی ممکن ہے۔ ا قوم متّحدہ کی تحقیق میں بھی یہی بات سامنے آئی ہے اب پاکستان میں کوئی حکمران سیاسی جماعت کا شخص خو ب دوڑ بھاگ کر لے ،ادھر ادھر چھلانگ لگا لے، سر کے بل کھڑا ہوجائے، معیشت ٹھیک نہیں ہوسکتی ۔اس کے لیے سیاسی استحکام، آزاد ایماندار انصاف پسند عدلیہ، عوام کی حمایت یافتہ مقنّنہ،بد عنوانی سے پاک باصلاحیت غیر سیاسی انتظامیہ کی ضرورت ہے۔
ہمارے موجودہ حکمران اس آسان فارمولے کو اپنانے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور ایسے نظام کو خود کے لیے خطرہ سمجھنے لگے ہیں جس کی وجہ سے وہ ملک کو بحران سے نہیں نکا ل سکتے۔ گزشتہ 3 سال سے ان کی توجہ ملک کی مقبول ترین جماعت کو طاقت اور دیگر ہتھکنڈوں سے ختم کرنے کی طرف ہے وہ اس کو جتنا دباتے ہیں۔ اتنا ہی وہ عوام میں مقبول ہورہی ہے اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ 2022 میں پی ٹی آئی اتنی مقبول نہیں تھی جتنی آج ہے۔ یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ موجو دہ حکمران2022 میں اتنے غیر مقبول نہیں تھے جتنے آج ہیں ۔ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی احتجاجی دھرنے کے لیے میدان میں آگئی ہے۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی پر احتجاج کا سلسلہ ختم کردیا جائے ۔حکومت بھی پی ٹی آئی کا کوئی مطالبہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم ختم کی جائے ،پی ٹی آئی کے کارکنوں اورہنمائوں کو رہا کیا جائے ا ور فروری کے انتخابات کافیصلہ فارم 45کی بنیاد پر کیا جائے۔ پی ٹی آئی کے مطابق ان کا چرایا ہوا مینڈیٹ انہیں واپس کیا جائے۔ حکومت ان مطالبات کو تسلیم کرنے کی صورت میں اقتدار سے محروم ہوجائے گی اور اقتدار پی ٹی آئی کے حوالے کرنا ہوگا ۔اس لیے حکومت ان مطالبات کو شدید مجبوری کی صورت میں ہی تسلیم کرسکتی ہے۔ ایسی کوئی مجبوری فی الحال حکومت کے سامنے نہیں ہے ۔اس لیے وہ پی ٹی آئی کے احتجاج کو طاقت سے کچل دینا چاہتی ہے۔ طاقت کے استعمال کے نتیجے میں بین الاقوامی دبائو اس قدر بڑھ جائے گا کہ حکومت کوبیرون ملک اپنے معاملات کو سنبھالنا انتہائی مشکل ہوگا۔ پی ٹی آئی کسی بھی صورت میں مطالبات پورے ہونے تک احتجاج کو روک نہیں سکے گی۔ البتّہ حکومت کے اقدامات کی وجہ سے پی ٹی آئی کے جلوس اسلام آباد تک نہیں پہنچ سکیں گے اور رکاوٹوں کو عبور کرنے میں کئی دن کی تاخیر ہوگی۔ سرکاری سطح پر صرف پہلے روز حکمراں جماعت دعویٰ کرسکتی ہے کہ پی ٹی آئی کو اسلام آباد آنے سے روک دیا گیا ، روکنے کے دوسرے اور تیسرے روز جب یہ احتجا ج جاری رہے گا تو حکومت کی مشکلات بڑھتی چلی جائیں گی ایسی صورت میں وقتی کامیابی کے دعوے دم توڑ دیں گے۔ حکومت کے لیے طویل عرصے تک نیم کرفیو نما کیفیت کو برقرار رکھنا ممکن نہ ہوگا ۔اس کے علاوہ بھی ا س احتجاج کا دائرہ عالم گیر ہے ۔ممکنہ طور پر تقریباً بیس یا اس سے زائد ممالک میں یہ احتجاج ہوگا۔ ان ممالک میں نہ کوئی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں نہ گرفتاریاں، نہ آنسو گیس کا غیر ضروری ا ستعمال ہوتا ہے۔ پرامن احتجاج ہوتا ہے ۔اس کے اثرات بھی ہوتے ہیں لیکن جمہوری ممالک انسانی حقوق کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ بعض ترقی یافتہ مملک میں مختلف تنظیموں کے بہت بڑے مظاہرے ہوتے ہیں لیکن وہ ممالک سیاسی ااور معاشی طور پر مستحکم ہیں۔اس کی وجہ ان ممالک کی عوامی حمایت پر مشتمل حکومتیں ،غیر سیاسی اور میرٹ پرمنتخب پیشہ ورانہ صلاحیت پر مشتمل انتظامیہ اور غیر جانب دار آزاد عدلیہ ہے۔
اگر پاکستان کی سیاسی جما عتیں ماضی کو بھلا کر پاکستان کو ایک آئین پسند اور صاف ستھرے معاشرے میں تبدیل کرنے کے لیے نئے منصفانہ انتخابات پر راضی ہوں اور وقتی نقصان کی پرواہ نہ کریں تو ملک بحران سے بچ سکتا ہے۔ اگر یہی صورت حال جاری رہی، رائے عامہ کو مسترد کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا تو عوام کا جمہوریت پر مکمّل اعتماد ختم ہو جائے گا۔ انتہا پسند اور عسکریت پسند جماعتیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر لوگوں کو اپنی جانب راغب کرکے نوجوانوں کی بھرتی شروع کر دیں گی۔ انہیں غلط سمت میں لے جائیں گی جس سے ملک میں مزید تباہی ہوگی۔ اس کا ایک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ اداروں اور عوام کے درمیان دوریاں مزید بڑھ جائیں گی۔ اس دوری کے منفی اثرات سے مزیدخلفشار ہو گا۔ اہم عہدوں پر قابض حکمران اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ پاکستان کے انتظامی نظام میں خرابیاں اچانک پیدا نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ عمل پاکستان کے قیام کے کچھ عرصے بعد سے شروع ہوگیا تھا۔گذشتہ تین سال میں اس میں تیزی آئی ہے اگر پاکستان کا حکمران طبقہ یہ تصوّر کررہا ہے پی ٹی آئی کے خاتمے یاعمران خان کی موت سے تمام مسائل حل ہوجائیں گے ایسی کوئی صورت میں مزید انتشار پیدا ہوگا۔ موجودہ حکمران جماعت کی قیادت پر عوام کسی صورت اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہوں گے۔ پی ٹی آئی کو تقسیم کرنے کی صورت میں ملک میں انتشار کی کیفیت بڑھ جائے گی جبکہ ملک کی ترقّی ،خوشحالی اور مضبوط دفاع کے لیے انتشار اور تقسیم کے بجائے ایسے وسیع تر اتحاد کی ضرورت ہے جو حقیقی معنوں میں عوام کے مینڈیٹ کے ذریعے اختیارات حاصل کرے جو صرف آزادانہ منصفانہ انتخابات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اس خام خیا لی میں مبتلاہوکہ وہ پاکستان کو جمہوریت کے بجائے شمالی کوریا جیسے کسی ماڈل کو اپنا کر ملک کے نظا م کو ٹھیک کر لے گی ۔ایسا کوئی طریقہ کار مزید خربی کا باعث بنے گاموجودہ افراتفری سے نکلنے کا واحد طریقہ کار عوام کی ترجمانی کرنے والا حقیقی جمہوری اورمنصفانہ نظام ہے ۔دنیا بھر میں ترقی کرنے والے ممالک اسی طریقہ کار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔