سیپا میں ترقیاتی منصوبوں کی جعلی این او سیز جاری ہونے کی تحقیقات مکمل نہ ہو سکی
شیئر کریں
محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سیپا میں ترقیاتی منصوبوں کی جعلی این او سیز جاری ہونے کی تحقیقات مکمل نہ ہو سکی، کروڑوں روپے کی رشوت کے عوض جاری ہونے والے جعلی این او سیز کا پتا نہ لگایا جاسکا، جعلی اور صحیح این او سی میں فرق کرنا چیلینج بن گیا ہے ۔ جرأت کی رپورٹ کے مطابق محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کے نان کیڈر ڈی جی نعیم احمد مغل نے 8 نومبر کو ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے اپنے محکمے کی طرف سے ترقیاتی منصوبوں کی جعلی این او سیز جاری ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی، تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سیپا وقار حسین پھلپوٹو تھے، جبکہ ڈائریکٹر ٹیکنیکل ٹو ڈاکٹر عاشق حسین لانگاہ اور ڈپٹی ڈائریکٹر ٹیکنیکل ٹو عمران صابر ممبر کے طور پر شامل تھے، کمیٹی کو 15 دن کے دن کے اندر جعلی این او سی جاری ہونے میں ملوث سیپا افسران یا نجی شخصیات کے نام بتانے کی ہدایت کی گئی تھی، کمیٹی کو اختیار دیا گیا تھا کہ سیپا کی طرف سے جعلی طور پر جاری ہونیوالی این او سیز کی نشاندہی کرے۔ ذرائع کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر میں منصوبوں کی ایسی این او سیز سامنے آئی تھی جس پر کی گئی سگنیچر سے سیپا کے افسران نے لاتعلقی ظاہر کی تھی اورنان کیڈر افسر ڈی جی سیپا نعیم مغل نے اپنے چہیتے افسران کی فرمائش پر تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی ۔ جبکہ تحقیقات کے حوالے سے باخبر محکمہ ماحولیات کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں ترقیاتی منصوبوں کی جاری ہونیوالی جعلی این اوسیز کا ابھی تک کوئی پتا نہیں چلا جس کی وجہ سے صحیح این او سی والے ترقیاتی منصوبے بھی مشکوک ہوگئے ہیں، تحقیقاتی کمیٹی کو سیپا کی طرف سے جاری کی گئی این او سیز تک رسائی نہیں دی گئی کیونکہ سیپا کے بااثر و اعلیٰ افسران نے مبینہ طور کروڑوں روپے رشوت لے کر این او سی جاری کی ہیں اور سیپا کی طرف سے جاری کی گئی این او سی میں بھی کچھ خامیاں ہیں، افسر نے کہا کہ ڈی جی سیپا نعیم مغل کے نام پر محکمہ ماحولیات کے افسران این او سی جاری کرنے کی بھاری رشوت وصول کرتے تھے جس سے صنعتکاروں نے تنگ آکر سیپا کے افسران سے جعلی این اوسی بنوائے تھے، جعلی اور صحیح این او سی میں فرق کرنا ایک انتہائی مشکل مشق ہے کیونکہ سیپا کے کرپٹ افسران نے جعلی این او سی جاری کرنے کا کام انتہائی مہارت سے کیا ہے اور پرانے این اوسیز کا بغور جائزہ لینے اور وہ این او سیز سامنے رکھنے کے بعد جعلی این او سیز بنائی گئی ہیں۔