میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستانی سیاست سمعی ، بصری فیتوں کے نرغے میں، طاقت کے اہم مراکز گتھم گتھا

پاکستانی سیاست سمعی ، بصری فیتوں کے نرغے میں، طاقت کے اہم مراکز گتھم گتھا

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۵ نومبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

نجم انوار
۔۔۔۔۔

٭سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی گفتگو پر مبنی سمعی فیتے کی باقاعدہ جانچ ایک امریکی فرانزک معمل گاہ گیرٹ ڈسکوری سے کرائی گئی، جس کی رپورٹ بھی جاری کردی گئی

٭ تین سال تک یہ سمعی فیتہ کہاں تھا؟ اسے صرف دوماہ قبل امریکا میں مقیم صحافی تک کیوں پہنچایا گیا؟ کیایہ وقت ، کسی مقصد کے تحت منتخب کیا گیا؟ان سوالوں کے جواب تلاش نہیں کیے گئے

٭شواہد عدالت میںپیش کیے جانے کے قابل ہیں،یہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف ،مریم نواز کی ایون فیلڈریفرنس میں سزاؤں کے خلاف زیرسماعت اپیلوں پر اثرانداز ہوسکتے ہیں(قانونی حلقے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پاکستانی سیاست اِن دنوں سمعی اور بصری فیتوں کے نرغے میں ہے۔ طاقت کے اہم مراکزایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ پاکستان کے ایک معتوب صحافی نے 21؍ نومبر کو امریکا سے ایک سمعی فیتہ جاری کیا۔ جس میںواضح طور پر سابق وزیراعظم اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز کو سزائیں سنانے کے لیے دباؤ آنے کی بابت گفتگو کی جارہی ہے۔ مذکورہ سمعی فیتے کے متعلق دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ اس میں سے ایک آواز سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ہے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو سزا دینے کے لیے کہا گیا ہے۔تب کے چیف جسٹس سے اس موقع پر یہ بھی سنا جاسکتا ہے کہ’’ میں لگی لپٹی رکھے بغیر کہوں گا ہمارے ہاں فیصلے ادارے دیتے ہیں۔۔۔اس میں میاں صاحب کو سزا دینی ہے اور کہا گیا ہے کہ جی ہم نے خان صاحب کو لانا ہے‘‘۔اسی تسلسل میں ایک موقع پر یہ بھی سنائی دیتا ہے کہ ’’ کہا ہے جی، اب کرنا پڑے گا‘‘۔ ایک موقع پر گفتگو کی دوسری جانب سے مریم نواز کی سزا پر یہ کہا جاتا ہے کہ ’’میرے خیال میں بیٹی کو سزا دینی بنتی نہیں ہے‘ تو اس پر سابق چیف جسٹس یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’’آپ بالکل جائز ہیں۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ اس پر کچھ کیا جائے، دوستوں نے اتفاق نہیں کیا‘‘۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس سمعی فیتے کو جعلی قرار دیا، اور خیال ظاہر کیا کہ ہوسکتا ہے کہ اُن کے مختلف سمعی فیتوں(آڈیو کلپس) کو جوڑ کر یہ تیار کیا گیا ہو۔ دوسری طرف سمعی فیتہ جاری کرنے والے امریکا میںمقیم پاکستانی صحافی نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ مذکورہ سمعی فیتہ جاری کرنے سے قبل ہی اس کی فرانزک تصدیق کرچکے ہیں۔ اس حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس کی آواز کا نمونہ ریڈیو پاکستان میں محفوظ ایک تقریر سے حاصل کیا گیا تاکہ اس کا زیر بحث آواز کے ساتھ موازنہ کرکے پہلے یہ تعین کیا جائے کہ آواز تو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ہی ہے۔ پھر اس امر کا تعین کیا گیا کہ جو گفتگو کی جارہی ہے وہ کہیں سے کانٹ چھانٹ یا توڑ مروڑ کے ساتھ یکجا تو نہیںکی گئی۔ اس حوالے سے کوئی ترمیم واضافہ (ایڈیٹنگ) تو نہیں ہوا؟ مذکورہ صحافی کے اختیار کیے گئے موقف کے مطابق اس سمعی فیتے کی باقاعدہ جانچ ایک امریکی فرانزک معمل گاہ گیرٹ ڈسکوری سے کرائی گئی ہے۔ جس کی رپورٹ بھی جاری کردی گئی ہے۔
دلچسپ طور پر امریکی فرانزک معمل گاہ گیرٹ ڈسکوری کی رپورٹ ایک ڈرامائی انداز سے جاری ہوئی۔ اس حوالے سے پاکستانی صحافت کے تمام بزر جمہر تنازع کے جانبین کی جانب اپنے اپنے سیاسی جھکاؤ کے ساتھ بے نقاب ہوتے گئے۔ سابق چیف جسٹس کا سمعی فیتہ سامنے آتے ہی ایک طرف نوازشریف کا قریبی حلقہ اپنے موقف کی اصابت ثابت کرنے میں جُت گیا تو دوسری طرف سے اِسے جعلی ، خود ساختہ اور من گھڑت قرار دینے کا شور اُٹھا۔اس دوران میں حال ہی میں پی ٹی آئی کے نظر انداز ہونے والے رہنما علیم خان کوفروخت ہونے والے ٹی وی چینل سماء نے اپنے تئیں ایک’’زبردست کارنامہ‘‘ سرانجام دینے کی کوشش کی اور سابق چیف جسٹس کی ایک تقریر سے چند فقرے لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس نوع کے فقرے لے کر مذکورہ سمعی فیتے کو من گھڑت طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے سمعی فیتہ جاری کرنے والے حکومت اور اس کے متعلقین کے اسی ردِ عمل کا انتظار کررہے تھے، تاکہ اُنہیں مزید شرمندہ کیا جاسکے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو سماء کے اس کام کو اُن حلقوں کی جانب سے بھی سراہا گیا،جو امریکا میں مقیم صحافی کی رپورٹ یا جاری کردہ سمعی فیتہ کے درست ہونے کی پہلے سے حمایت کررہے تھے، اور اُن سے اس پر ردِ عمل مانگا گیا۔ یوں سابق چیف جسٹس کی آواز کے اصلی ہونے پر گیرٹ ڈسکوری سے حاصل کی گئی جائزہ رپورٹ کو جاری کردیا گیا۔اس دوران میں سماء کی جانب سے سابق چیف جسٹس کے الفاظ سے مغالطہ پیدا کیے جانے والے سمعی فیتے کو لے کر حکومتی وزراء اور مخصوص صحافتی حلقوں نے سماجی ابلاغ کے منچ پر خوب خوب شراکتیں کیں اور ایک ہنگامہ مچائے رکھا۔ پاکستان میں حکومتی وزراء سمیت مقتدر حلقوں کے حامی ذرائع ابلاغ کے مختلف حصے یا گوشے یہ تجزیہ کرنے میں ناکام رہے کہ یہ پورا کھیل ایک منظم حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں خود اُن کا ردِ عمل بھی پہلے سے دھیان میں رکھ کر چالیں چلی جارہی ہیں۔ چنانچہ سماء کے جاری کردہ سمعی فیتے سے سابق چیف جسٹس کے سمعی فیتے کو خود ساختہ یا جعلی قرار دینے کی مہم تو اپنا کوئی تاثر نہ بٹھا سکی مگر اسے جعلی قرار دینے والی اس آڈیو کے ذریعے سرکاری حلقوں کی بدنیتی کو بھی عیاں کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ کام مختلف حلقوں سے منظم طور پر ہوا۔ اس میں ذرائع ابلاغ کے مرکزی دھارے سے لے کر سماجی ابلاغ کے پلیٹ فارم تک سب نے حصہ لیا۔ اس حوالے سے تمام حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مخالف صحافی، تجزیہ کار، وی لاگرزنے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔
درحقیقت اس ہڑبونگ میں بعض اہم سوالات ابھی تک نظرانداز ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں سامنے آنے والے سمعی ، بصری فیتوں کے پیچھے کون سے ذہن اور ہاتھ کام کررہے ہیں؟اس ضمن میں دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ اس مہم سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ سامنے کی حقیقت تو یہ ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز کو سزا سنائے جانے کے بعد اب تک جو ’’شواہد‘‘ سامنے لائے جارہے ہیں۔ وہ سب صرف ایک’’ مقصد‘‘ کو واضح کرتے ہیں جس کے تین پہلو ہیں:۔
٭نوازشریف اور مریم نواز کے خلاف عدالتی فیصلے آزادی سے نہیں کیے گئے اور یہ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے
٭نوازشریف کو اقتدار سے بے دخل ایک منظم منصوبہ بندی سے کیا گیا
٭ عمران خان کو اقتدار میں لانے کا عمل بھی ایک منظم کھیل تھاجو ایک دوسرے سے جڑا ہوا عمل ہے
اگر ان تینوں نکات پر غور کیا جائے تو کہیںبھی اس کا ہدف براہ راست موجودہ وزیراعظم عمران خان نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ، اسٹیبلشمنٹ اور صرف اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ان تینوں نکات میں عدلیہ پر اثرانداز ہونے ، نوازشریف کو اقتدار سے نکال باہر کرنے اور عمران خان کو اقتدار دلانے میں اصل کردار کے طور پر اسٹیبلشمنٹ ہی پر زد پڑتی ہے۔ اب ذرا اس آڈیو کھیل سے لے کر دیگر فضیتوں میں شریک صحافیوں، تجزیہ کاروںکو بھی اپنے ذہن میں تازہ کرلیں، تو ایک نتیجہ یہ بھی اُبھر کر سامنے آتا ہے کہ اس میں حصہ لینے والے تمام عناصر وہ ہیں جو اسٹیبلشمنٹ سے شاکی ہیں یا ماضی میں اُن کے ہاتھوں کسی مشکل وقت سے گزرنے کاالزام لگاتے ہیں۔ اس طرح نوازلیگ اور ان میں ایک فطری تعلق تشکیل پاچکا ہے۔ جو پاکستان سے باہر نکل کر دنیا کے مختلف ممالک میں مربوط طریقے سے ردِ عمل کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے۔ اس بنیادی نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے سابق چیف جسٹس کے سمعی فیتے کی ولادت پر غور کرتے ہیں۔ مذکورہ سمعی فیتے کو جاری کرنے والے امریکا میںمقیم صحافی کے مطابق یہ اُن کے پاس دو مہینے سے موجود تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ صحافی کے پاس یہ یہ سمعی فیتہ نہ اڑ کر پہنچا ہے اور نہ چل کر گیا ہے۔ پھر یہ سمعی فیتہ کوئی دوماہ پہلے کی واردات کا بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ سزا دسمبر 2018ء میںہوئی۔ یقینا سابق چیف جسٹس اور سمعی فیتے میں موجوددسری جانب گفتگو کرنے والے ’’صاحب‘‘ کے درمیان ہونے والی یہ بات چیت بھی 2018 ء کی ہی ہے۔ تین سال تک یہ سمعی فیتہ کہاں تھا؟ اسے صرف دوماہ قبل امریکا میں مقیم صحافی تک کیوں پہنچایا گیا؟ کیایہ وقت ، کسی مقصد کے تحت منتخب کیا گیا؟ان سوالوں کے جواب تب زیادہ بہتر طور پر مل سکتے ہیں، جب اس سوال پر غور کر لیا جائے کہ مذکورہ سمعی فیتہ کہاں سے آیا؟

سمعی فیتہ کس دماغ اور ہاتھ کی کارستانی ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زیربحث سمعی فیتے کے حوالے سے یہ بحث تو ہر جگہ ہوئی کہ یہ اصلی ہے یاجعلی، مگر اس سوال پر کہیں غور نہیں ہوا کہ یہ سمعی فیتہ کہاں سے آیا؟ تکلف برطرف! یہ سمعی فیتہ تین جگہوں سے باہر نکل سکتا ہے۔سمعی فیتے پر گفتگو کرنے والے جانبین سے، یا پھر اس گفتگو کو ریکارڈ کرنے والے کسی ادارے سے۔اب جو ادارے اس فیتے کو محفوظ رکھ سکتے ہیں، یہ تو خود نوازلیگ کی زد پر ہیں۔ وہ اپنے ہی خلاف صف آرا جماعت کو اپنے ہی خلاف کھڑے ہونے کے لیے کوئی ثبوت کیوں دیں گے؟ ضمناً یہاں سوچ کی ایک زیریں لہر میں یہ سوال موجود رہے گا کہ کیا اداروں کے اندرموجود کوئی ناراض عناصر اپنے ہاتھ کی صفائی دکھاسکتے ہیں؟ اب دیگر دو فریقوں پر غور کرلیتے ہیں۔گفتگو میں ایک جانب خود سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ہیں، وہ جس فون سے بھی بات کررہے ہوں گے، اگر اُس میں آواز کو محفوظ رکھنے کی سہولت ہو بھی تو وہ اپنے ہی خلا ف اس سمعی فیتے کے افشاء ہونے کے ذمہ دار نہیں ہوسکتے۔ اب سوال یہ ہے کہ ثاقب نثار جن صاحب(؟) سے گفتگو کررہے ہیں، جن کا نام کسی نے بھی نہیںلیا، کیا وہ اس سمعی فیتے کو افشاء کرنے کے ذمہ دار ہیں؟وہ جو کوئی بھی ہیں، اُن پر بھی سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کی طرح تاخیر کی وجوہات سامنے لانے کا بار ہے۔

پاکستان میں حکومتی وزراء سمیت مقتدر حلقوں کے حامی ذرائع ابلاغ کے مختلف حصے یا گوشے یہ تجزیہ کرنے میں ناکام رہے کہ یہ پورا کھیل ایک منظم حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں خود اُن کا ردِ عمل بھی پہلے سے دھیان میں رکھ کر چالیں چلی جارہی ہیں۔ چنانچہ سماء کے جاری کردہ سمعی فیتے سے سابق چیف جسٹس کے سمعی فیتے کو خود ساختہ یا جعلی قرار دینے کی مہم تو اپنا کوئی تاثر نہ بٹھا سکی مگر اسے جعلی قرار دینے والی اس آڈیو کے ذریعے سرکاری حلقوں کی بدنیتی کو بھی عیاں کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ کام مختلف حلقوں سے منظم طور پر ہوا۔

سمعی فیتے کو سامنے لانے کا وقت بہت اہم ہے

!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیاست میں واقعات کی ترتیب اور وقت نہایت معنی خیز ہوتا ہے۔ یہ سارا کھیل ایک جادوئی تاریخ کے آس پاس شروع ہوا ہے۔ 19؍نومبر کو ڈی جی آئی ایس آئی کے اہم ترین منصب کی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے ذمہ داریاں سنبھالیں۔ جبکہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کورکمانڈر پشاور تعینات ہوگئے۔مسلم لیگ ن کے سیاسی طاقت کے قلعے لاہور میں اگلے روز عاصمہ جہانگیر ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس ریفرنس کے انعقاد کا سبب ناقابل فہم تھا۔ عاصمہ جہانگیر 27 جنوری1952 کو پیدا ہوئی اور اُن کا انتقال 11؍ فروری 2018 کو ہوا۔ تاریخی واقعہ یہ ہے کہ انتقال سے قبل عاصمہ جہانگیر کی آخری گفتگو سابق وزیراعظم نوازشریف سے ہوئی تھی۔ جو اُن کی وکیل بھی تھیں۔ اب عاصمہ جہانگیرریفرنس کے لیے جنوری اور فروری کے بجائے نومبر کا انتخاب انتہائی غیر متعلق تھا۔ اس ریفرنس سے کچھ تنازعات نے بھی جنم لیا۔ سب سے بڑا تنازع 20؍ نومبر کو علی احمد کرد کے خطاب سے پیدا ہوا۔ جس کی وضاحت خود چیف جسٹس گلزار احمد کو کرنا پڑی۔ علی احمد کرد نے انتہائی جذباتی لہجے میں جو وکلاء تحریک میں اُن کا خاصا رہا تھا، عدالتی فیصلوں پر اسٹیبلشمنٹ کے اثرانداز ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک تحریک چلانے کا واضح اشارہ دیا۔ اس کے جواب میں چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ انتشار نہ پھیلائیں۔ آج تک کسی کی جرأت نہیں ہوئی کہ مجھ پر کوئی دباؤ ڈالے، سارے ججز آزادانہ فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ موقف کورونا کے باعث انتقال کرنے والے جج ارشدملک کی ویڈیو سے پیدا کیے گئے تاثر کے خلاف تھا۔ مسلم لیگ ن نے العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کو سزا سنائے جانے کے بعد سے اب تک یہ موقف مسلسل پیش کیا ہے کہ عدالتی فیصلے کسی دباؤ کا نتیجہ رہے ہیں۔ اس حوالے سے مریم نواز نے 6؍ جولائی 2019ء کو ایک پریس کانفرنس میں ایک بصری فیتہ پیش کیا تھا۔جس میں جج ارشد ملک مسلم لیگ نون کے ایک اہم کارکن ناصر بٹ سے بات چیت کررہے ہیں اور نوازشریف کے متعلق فیصلہ لکھنے سے قبل ’’نامعلوم‘‘ افراد کے دباؤ کا تذکرہ کررہے ہیں۔ اگرچہ تب جج ارشد ملک نے اس بصری فیتے کی تردید کی تھی۔ مگر مریم نواز نے 10جولائی 2019ء کو مزید دو ویڈیوز اپنے ٹوئٹر کھاتے کے ذریعے منکشف کیں۔ جو ارشد ملک کی تردید کے جواب میں تھیں ۔ جس میںایک سرکاری گاڑی ناصر بٹ کو لینے آتی ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ جج کی گاڑی تھی۔ اس طرح مسلم لیگ نون نے مذکورہ عدالتی فیصلے کو دباؤ کا نتیجہ قرار دینے کی مہم کابصری فیتوں سے باقاعدہ کھاتہ جولائی 2019 میں ہی کھولا تھا۔
حالیہ دنوں میں یہ مہم نئے سرے سے چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیانِ حلفی سے شروع کی گئی۔ اس حوالے سے انصار عباسی کی جانب سے رواں ماہ 15؍ نومبرکو ایک خبر کے ذریعے یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ رانا شمیم نے اپنے بیان حلفی میں کہا ہے کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو ہدایت دی تھی کہ سال 2018 کے انتخابات سے قبل کسی قیمت پر نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہیں ہونی چاہیے‘‘۔اس بیان حلفی پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے فوری توہین عدالت کی کارروائی کرتے ہوئے چار لوگوں کو اظہارِ وجوہ کے نوٹس جاری کردیے۔جن میںصحافی انصار عباسی، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور خود رانا شمیم شامل تھے۔ ابھی اس بیان حلفی کی گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ اسی بہاؤ میں مسلم لیگ نون اور اُن کے قریبی صحافتی حلقوں سے یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ کسی بھی وقت بصری یا سمعی فیتے سامنے آنے والے ہیں۔ بہر حال اس مرتبہ سمعی فیتہ سامنے لانے کے لیے دائیں بائیں کچھ واقعات بھی تخلیق ہورہے تھے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کے عاصمہ جہانگیر ریفرنس میں علی احمد کرد کو جواب دیے جانے کے بعد اگلے روز ایک نیا سرپرائز دیا گیا۔ جس میںسابق وزیراعظم نوازشریف کی تقریر ریفرنس کے اختتام پر رکھی گئی ۔ جس کا وزیراطلاعات فواد چودھری نے سخت بُرا منایا اور ایک سزایافتہ شخص کی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے ججزکی موجودگی میں تقریر کو قابل اعتراض قرار دیتے ہوئے منتظمین پر شکوک ظاہر کیے۔
نوازشریف جب عاصمہ جہانگیر ریفرنس میں تقریر کررہے تھے، تو انٹرنیٹ کی تاریں کاٹنے کے الزامات سامنے آئے۔ نوازشریف نے اس تقریر میں وکلاء پر اگلے لائحہ عمل کی تیاری کا زور دیا اور کہا کہ ہم مزید تاخیر کے متحمل نہیں ہوسکتے، سب سرجوڑ کرآج ہی بیٹھیں۔ نوازشریف کا یہ خطاب 21؍ نومبر کو ہوا۔ ٹھیک اسی دن امریکا میں مقیم صحافی نے اپنی ویب سائٹ پر وہ سمعی فیتہ بھی جاری کردیا جس پر ان دنوںپاکستانی سیاست میں ہنگامہ برپا ہے۔

سیاست میں واقعات کی ترتیب اور وقت نہایت معنی خیز ہوتا ہے۔ یہ سارا کھیل ایک جادوئی تاریخ کے آس پاس شروع ہوا ہے۔ 19؍نومبر کو ڈی جی آئی ایس آئی کے اہم ترین منصب کی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے ذمہ داریاں سنبھالیں۔ جبکہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کورکمانڈر پشاور تعینات ہوگئے۔مسلم لیگ ن کے سیاسی طاقت کے قلعے لاہور میں اگلے روز عاصمہ جہانگیر ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس ریفرنس کے انعقاد کا سبب ناقابل فہم تھا۔

سمعی فیتہ جاری، کیا خبریں گردش میں ہیں

!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مذکورہ سمعی فیتہ (آڈیو ٹیپ) جاری کرنے سے قبل درحقیقت نوازلیگ کے حامی حلقوں میں ایک بصری فیتہ (ویڈیو ٹیپ) جاری ہونے کی خبریں گردش کررہی تھیں۔ سوال یہ پید اہوتا ہے کہ آخری وقت میں ایسا کیا ہوا کہ بصری فیتہ جاری کرنے کے بجائے سمعی فیتہ جاری ہوا۔ اس حوالے سے جب ا س نمائندے نے نوازلیگ کے لندن ذرائع کو ٹٹولا تو یہ انکشاف ہوا کہ مسلم لیگ نون کے پا س مختلف سمعی و بصری فیتے موجود ہیں۔ جس میں عدالتی فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے شواہد جمع کیے گئے ہیں۔ اس منظم مہم کو لندن میں موجود وہی ناصر بٹ منظم طور پر چلا رہے ہیں جو قبل ازیں جولائی 2019ء میں جج ارشد ملک کے بصری فیتے کے منصوبہ ساز بھی سمجھے جاتے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ ابھی عدالتی فیصلوں کی غیر جانب داری مشکوک بنانے والے مزید اقدامات نون لیگی حلقوں میں غور ہیں۔ جن میںبصری فیتوں کے علاوہ دیگر ’’شواہد‘‘ بھی ہیں۔ باخبر ذرائع یہ بھی تصدیق کرتے ہیں کہ نواز لیگ کے پاس کچھ اہم لوگوں کے ایسے بصری فیتے ہیں جو اُن پر اخلاقی نوعیت کے سوالات اُٹھاتے ہیں ، مگر ان بصری فیتوں کو اس جنگ کے آخری لمحوں میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق نوازلیگ کے پاس موجود ان مزید سمعی بصری شواہد کواگلے مرحلوں میں استعمال کرنے کے علاوہ اب حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کو فعال کرنے اور ایک حکومت مخالف تحریک کو فیصلہ کن مرحلے میں لے جانے کے سنجیدہ اقدامات پر بھی بات چیت جاری ہے۔

ثاقب نثارسمعی فیتہ، مسلم لیگ نون کیسے اور کہاں کہاں استعمال کرسکتی ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوازلیگ کا ردِ عمل اُن کے ہدف کو ظاہر کرتا ہے۔ مذکورہ سمعی فیتے کے منظر عام پر آنے کے بعد لندن میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستانی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ سمعی فیتے اور بیان حلفی کسی بھی دوسرے ملک میںسامنے آتے تو اب تک نوازشریف اور مریم نواز کی سزائیں ختم ہوچکی ہوتیں۔ شہبازشریف نے بھی اسی مقصد میں لپٹا اپنا ردِ عمل دیا۔ نوازلیگی رہنما گزشتہ روز جن ٹی وی پردوں پر جگمگائے، اُنہوں نے اسی پہلو کو اجاگر کیا کہ نوازشریف اور مریم نواز کو ملنے والی سزائیں غلط تھیںاور یہ واپس ہونی چاہئے۔ دلچسپ طور پر نوازلیگ اس معاملے میں خود کو تاریخ میںشرمندہ رکھنے والی مثال بھی فراہم کرنے میں نہیں ہچکچا رہی۔ اس حوالے سے وہ جسٹس قیوم کی مثال بھی دیتی ہے۔

جسٹس قیوم کی مثال کیا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو ایس جی ایس کوٹیکنا کیس میں پانچ پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہ سزا لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج ملک محمد قیوم کی قیادت میں بینچ کی طرف سے سنائی گئی تھی۔ان ہی دنوں ایسا ہی ایک سمعی فیتہ بھی منظر عام پر آیا تھا جس میں ملک قیوم کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اور اس وقت کے احتساب کمیشن کے سربراہ سینیٹر سیف الرحمن کی بات چیت محفوظ ہے۔ اس سمعی فیتے میں وہ ملزمان کو سزائیں سنانے کے حوالے سے نہ صرف گفتگو کررہے تھے، بلکہ اس میں سزاؤں کی مدت کا تعین بھی کررہے ہوتے ہیں۔تب لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج ملک قیوم کے سمعی فیتے کو اس فیصلے کے خلاف اپیل میں نہ صرف بطور شہادت پیش کیا گیا بلکہ اس سمعی فیتے کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس جہانگیری کی سربراہی میں قام ہونے والے پانچ رکنی لارجر بینچ کے سامنے بھی سنایا گیا تھا۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بھی اس پانچ رکنی بینچ کا حصہ تھے۔جب سپریم کورٹ میں اس اپیل کی سماعت کے وقت سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو بیرون ملک تھیں۔ پانچ رکنی لارجر بینچ نے اس معاملے کو دوبارہ سماعت کے لیے راولپنڈی کی احتساب عدالت میں بھیج دیا تھا جس نے ایس جی ایس اور کوٹیکنا کیس میں آصف علی زرداری کو بری کردیا تھا۔اسی سمعی فیتے کے باعث ملک قیوم کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس راشد عزیز بھی اسی فضیتے کا شکار ہوئے تھے۔

مسلم لیگ نون کے پا س مختلف سمعی و بصری فیتے موجود ہیں۔ جس میں عدالتی فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے شواہد جمع کیے گئے ہیں۔ اس منظم مہم کو لندن میں موجود وہی ناصر بٹ منظم طور پر چلا رہے ہیں، اطلاعات ہیں کہ ابھی عدالتی فیصلوں کی غیر جانب داری مشکوک بنانے والے مزید اقدامات نون لیگی حلقوں میں غور ہیں۔ جن میںبصری فیتوں کے علاوہ دیگر ’’شواہد‘‘ بھی ہیں۔ باخبر ذرائع یہ بھی تصدیق کرتے ہیں کہ نواز لیگ کے پاس کچھ اہم لوگوں کے ایسے بصری فیتے ہیں جو اُن پر اخلاقی نوعیت کے سوالات اُٹھاتے ہیں ۔

ثاقب نثار سمعی فیتہ: کیا ایون فیلڈ اپیل میں استعمال ہوسکے گا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مذکورہ سمعی فیتے کے سامنے آنے کے بعد یہ سوال گردش کررہا ہے کہ کیا نوازلیگ ان شواہد کو ایون فیلڈ اپیل کیس میںاستعمال کرے گی؟ واضح رہے کہ اسلام آباد میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کرنے والی احتساب عدالت نے جولائی 2018 میں نواز شریف کو کل 11 برس قید بامشقت، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو آٹھ برس قید جبکہ داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی جبکہ نواز شریف کو 80 لاکھ جبکہ مریم نواز کو 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی کیا گیا تھا۔نواز شریف پسِ پردہ سیاست کے اسرار میں طبی وجوہات پر لندن چلے گئے تھے اور حسب وعدہ پاکستان تشریف نہیں لائے۔ جس کے بعد وہ عدالتی کارروائی میں اب مفرور ہیںجبکہ مریم نواز کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔اس دوران میں مختلف شواہد کے ذریعے اس عدالتی فیصلے کو دباؤ کا نتیجہ باور کرایا جارہا ہے۔قانونی حلقوں کے مطابق سامنے آنے والے شواہد اس نوعیت کے ہیں جو عدالت میںپیش کیے جاسکتے ہیںاور یہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف اور مریم نواز کی ایون فیلڈریفرنس میں سزاؤں کے خلاف زیرسماعت اپیلوں پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ مسلم لیگ نون نے بھی واضح طور پر یہ اشارے دیے ہیں کہ وہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے منسوب سمعی فیتہ اور گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی کو بطور ثبوت اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے حق میں استعمال کریں گے۔ قانونی ماہرین کے مطابق ان حالات میں ملزمان کو ریلیف ملنے کے امکانات موجود ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں