این آر او کی گردان آخر کب تک .
.درپیش (قاضی سمیع اللہ )
شیئر کریں
اب کپتان بھی کرسی بچانے کے حوالے سے بیان دینے لگے ہیں کہ وہ کرسی بچانے کے لیے نہیں بلکہ تبدیلی لانے کے لیے آئے ہیں ۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تبدیلی سرکار تبدیل ہونے جارہی ہے یا پھر تبدیلی کی جگالی اس قدر ہوگئی ہے کہ زبان سے تبدیلی کے سوا کچھ اور نکلتا ہی نہیں ہے ۔بہر کیف کچھ تو ایسا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو کرسی بچانے جیسے جملے کی ادائیگی پر مجبور ہونا پڑا ہے جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے آزادی مارچ سے پہلے تک ایسے جملے باہر نہیں آئے تھے ۔جہاں تک این آر او دینے یا نہ دینے کا معاملہ ہے تو یہ پی ٹی آئی کے انتخابی منشور پر عملدرآمد سے مشروط ہے اگر تبدیلی سرکار کو اپنے انتخابی نعرے کی لاج رکھنی ہے تو اسے کسی صورت این آر او نہیں دینا ہوگا بلکہ یوں ہے کہ کسی بھی قسم کے این آر او کے آگے ڈھال بن کر کھڑا ہونا پڑے گا ۔
بلا شبہ بعض سیاست دانوں کی کرپشن اور مجرمانہ کوتاہیوں کی وجہ سے ہی آج ملکی معیشت تباہ حال ہوچکی ہے لیکن یہاں اس امر کو بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت سازی کے اہل سیاست دانوں کو ایسے مضبوط کاندھے کہاں سے میسر ہوتے آئے ہیں کہ وہ دھڑلے سے کرپشن بھی کرتے رہے ہیںاور قومی مفادات کے ساتھ کھلواڑ بھی کرتے رہے ہیں ۔ملکی سیاست میں غیر سیاسی مداخلت کی ایک طویل تاریخ ہے جو اسکندر مرزا سے شروع ہوتی ہے اور جنرل (ر) پرویز مشرف تک جاتی ہے لیکن’’ اسٹیبلشمنٹ‘‘ نام کی حقیقت اب بھی موجود ہے۔بہر کیف ملک میں سیاست اور سیاسی عمل کا انحصار’’خصوصی کرم و عنایت ‘‘ پر ہے جس پر ہوجائے وہ ’’سیاسی مالک و مختار‘‘ ہوجاتے ہیں اور یہی مالک و مختار آج احتساب کی چکی میں پس رہے ہیں اور نئے مالک و مختار گرج چمک کے ساتھ سابقہ مالک و مختار پر برس رہے ہیں اور آئندہ آنے والے ان پر برسیں گے۔
اب ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے آخر کیا کرنا ہوگا ،کیا سارے کا سارا بوجھ معزز عدالتوں اور قومی احتساب بیورو پر ڈالنے سے کرپشن ختم ہوجائے گی ۔۔؟یقینا ایسا کرنے سے کرپشن تو ختم نہیں ہوسکتی جبکہ اتنا ضرور ہے کہ اس سے کرپشن کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے بھی مروجہ قوانین میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے کرپٹ عناصر کو لگام ڈال سکے ۔اس امر میں کوئی مبالغہ نہیں کہ تبدیلی سرکا ر اپنے اقتدار کے پہلے ڈیڑھ برس کے دوران اپنے انتخابی بلند بانگ نعروں اور دعووں کو عملی شکل دینے سے ا بھی کوسوں دور ہے اور جہاں تک عوام کو ریلیف دینے کی بات ہے تو اس معاملہ میں تبدیلی سرکار کو مسلسل ناکامی کا سامنا ہے ۔ عوام کو ریلیف چاہئے ،مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات چاہئے ، بجلی اور گیس کی سستی سہولت چاہئے ، ابتدائی تعلیم اور صحت کی معیاری سہولت مفت اور بر وقت چاہئے ،کاروبار اور کاروباری طبقہ کو تحفظ چاہئے ،جینے کے لیے پُرامن اور ساز گار ماحول چاہئے ،آزادی اظہار خیال سے لیکر عدل و انصاف پر مبنی سماج چاہئے ۔کیا تبدیلی سرکار نے عوام کے ان بنیادی مسائل کی جانب توجہ دی ہے یا پھر محض تنقیدی اور الزام تراشی کی سیاست کرکے سستی شہرت کے لبادے میں خود کو چھپانے کی تدبیریں کررہی ہے لیکن یہ لبادے اس وقت تک ہی اوڑھے جاسکتے ہیں جب تک ’’ خصوصی کرم و عنایت‘‘مقدر میں ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تبدیلی سرکار سارے سیاسی محاذ چھوڑ کر عوام کو ریلیف دینے کی جانب غیر معمولی توجہ دے ۔
جہاں تک کرپٹ سیاست دانوں کے احتساب کا معاملہ ہے تو اسے قومی احتساب بیورو(نیب) جیسے ریاستی اداروں پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ انتخابات میں ووٹ عوامی خدمات کے صلے میں پڑتے ہیں نہ کہ تنقیدی اور الزام تراشی کی بنیاد پر پڑیں گے ۔ایک بار پھروزیر اعظم عمران خان کی کابینہ میں تبدیلی کی ہوا چلی ہے کہ نتائج نہ دینے والے وزراء اور مشیران و معاون خصوصی کی چھٹی کردی جائے گی ،اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر کیا ہوگا نئے وزراء لائے جائینگے جو یقینا پی ٹی آئی سے ہی ہونگے کیا اس سے پہلے والے وزراء پی ٹی آئی سے نہیں تھے ۔اس معاملے میں وزیر اعظم عمران خان کو بنیادی نکتہ کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ محض چہرے بدلنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اپنے انتخابی ایجنڈے پر عملدرآمد کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی پڑے گی جو کہ اصولاً حکومت میں آنے سے پہلے ہی کرلینی چاہئے تھی۔ بہر کیف اب بھی اتنا وقت نہیں گزرا ہے کہ اس پر عملدرآمد نہ کیا جاسکے لیکن بہت کچھ کرنے کے لیے اب کچھ نہ کرنے کی گردان بند ہونی چاہئے اور رہی بات این آر او کی تو کیا سیاسی مالک و مختار کسی کو این آر او دینے یا نہ دینے کے اہل ہوچکے ہیں ۔۔؟ تو پھر این آر او کی گردان آخر کب تک ۔