میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آئی ایم ایف کا حکومت پر 600 ارب کے نئے ٹیکسز لگانے کیلئے دباؤ

آئی ایم ایف کا حکومت پر 600 ارب کے نئے ٹیکسز لگانے کیلئے دباؤ

ویب ڈیسک
منگل, ۲۵ اکتوبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

محصولات کی پیداوار میں صحت مند رفتار کے باوجود آئی ایم ایف نے پاکستان سے تقریباً 600 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے اور انسداد بدعنوانی ٹاسک فورس قائم کرنے پر پھر زور دیا ہے۔حکومتی ذرائع کے مطابق یہ مطالبات پاکستان میں فنڈ کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے واشنگٹن میں حالیہ بات چیت کے دوران نصف درجن دیگر شرائط کے ساتھ پاکستانی حکام کے سامنے رکھے تھے۔ اس معاملے پر پروگرام کے جائزہ مذاکرات کے اگلے دور میں بات کی جائے گی جو نومبر میں متوقع ہے۔آئی ایم ایف کا خیال ہے رواں مالی سال میں افراط زر کی وجہ سے معیشت کی قریباً 25 فیصد برائے نام نمو کے باعث ٹیکس سے مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی ) کا تناسب طے شدہ سطح سے نیچے آجائے گا چاہے ایف بی آر اپنا سالانہ ہدف 7.470 کھرب روپے حاصل کر لے۔حکومت نے بجٹ کے وقت 11.5 فیصد کی اوسط افراط زر کی شرح اور 5 فیصد کی اقتصادی ترقی کی شرح کی بنیاد پر جی ڈی پی کے حجم کا تخمینہ 78 کھرب روپے لگایا تھا۔7.470 کھرب روپے کا سالانہ ٹیکس ہدف جی ڈی پی کے قریباً 9.6 فیصد کے برابر ہے تاہم مختلف انتظامی اقدامات، روپے کی قدر میں کمی، سیلاب اور خوراک کی فراہمی کے جھٹکوں کی وجہ سے اوسطا مہنگائی کا تخمینہ اب 23 فیصد اور جی ڈی پی کی شرح نمو قریباً 2 فیصد ہے۔مہنگائی میں اضافے کے بعد، رواں مالی سال کیلئے جی ڈی پی کا تخمینہ 83 کھرب روپے لگایا گیا ہے۔ یہ ایف بی آر کے 7.470 کھرب روپے کے سالانہ ہدف کو پہنچنے کے باوجود ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب قریباً 8.9 فیصد تک لے آئے گا۔آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا ہے میکرو اکنامک فریم ورک کے اہداف پر قائم رہنے کیلئے پاکستان کو جی ڈی پی کے 0.75 فیصد کے برابر اضافی مالی اقدامات کرنا پڑ سکتے ہیں جو 600 ارب روپے سے زیادہ بنتا ہے۔ایف بی آر کا ٹیکس وصولی کا ہدف 7.470 کھرب روپے ہے جس کیلئے گزشتہ سال کی وصولی کے مقابلے میں 22 فیصد شرح نمو درکار ہے۔ ایف بی آر نے پہلی سہ ماہی کے دوران 1.61 کھرب روپے سے زائد اکٹھے کئے ہیں جو ہدف سے 26 ارب روپے زیادہ ہے۔ وصولی میں اضافے کی شرح 17 فیصد رہی جو موجودہ افراط زر کی شرح سے نمایاں طور پر کم ہے۔ذرائع کا کہنا ہے آئی ایم ایف نے جو آپشنز دیئے ان میں سے ایک پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس لگانا تھا لیکن وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ٹیکس سے متعلق کوئی مطالبہ قبول نہیں کیا،حکومت اس وقت پٹرول پر 47 روپے 50 پیسے فی لٹر لیوی اور ڈیزل پر 7.58 روپے فی لٹر لیوی وصول کر رہی ہے۔آئی ایم ایف نے حکومت سے یہ بھی کہا ہے وہ پٹرولیم لیوی لگانے کیلئے طے شدہ منصوبے پر عمل پیرا رہے، جس میں جنوری 2023 ء میں پٹرول پر 50 روپے اور مارچ 2023ء تک 50 روپے فی لٹر لیوی کی ضمانت دی گئی ہے۔ حکومت پہلے ہی پٹرول پر زیادہ سے زیادہ حد کے قریب ہے لیکن اب اسے ٹریک پر رہنے کیلیے اگلے ماہ سے ڈیزل پر ٹیکس بڑھانا شروع کرنے کی ضرورت ہے۔معاہدے کے مطابق پاکستان جنوری 2023 ء تک انسداد بدعنوانی کے ادارہ جاتی فریم ورک کا جامع جائزہ شائع کرے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں