چین اور امریکا کے درمیان ہائپر سونک جنگ کی کتھا
شیئر کریں
بعض اوقات ہمارے وہ کام جو ہماری نگاہ میں انتہائی حقیر اور معمولی ہوتے ہیں ، لیکن انہیں ہمارا دشمن اتنی زیادہ اہمیت دینا شروع کردیتا ہے کہ بالآخر ہمیں بھی دشمن کی تقلید کرتے ہوئے اپنے معمولی سے کام کو غیر معمولی ’’کارنامہ ‘‘تسلیم کرنا پڑ ہی جاتاہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال اِن دنوں چین کے ساتھ درپیش ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ چند ماہ قبل چین نے ایک ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کیا تھا، جسے چینی میڈیا نے معمول کی کوریج دیتے ہوئے ،اُسے اپنی افواج کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کے لیے ایک اہم سنگِ میل قرار دیا تھا۔ چونکہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس نت نئے میزئل کے تجربات اکثر و بیشتر چین کی جانب سے ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ اس لیے اُس وقت عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی چینی افواج کی جانب سے کیے گئے ہائپر سونگ میزائل تجربہ کو چینی میزائل پروگرام میں فقط ایک معمول کی پیش قدمی ہی قرار دیا گیا ۔ لیکن گزشتہ دنوں معروف جریدے فنانشل ٹائمز نے ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ’’ چند ماہ قبل چین نے جس ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کیا تھا ،وہ کوئی عام سا میزائل تجربہ نہیں تھا کہ بلکہ حقیقت میں چین نے خفیہ طور پر جوہری صلاحیت کے حامل ہائپر سونک (آواز کی رفتار سے کئی گنا تیز) میزائل کا تجربہ کیا تھا اور اُس میزائل نے کامیابی کے ساتھ فائر ہونے کے بعد زمین کے مدار میں چکر لگایا اور تیزی سے زمین پر موجود اپنے ہدف کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بھی بنایا۔ میزائل ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی یہ چھلانگ ایسی ہے جو عن قریب امریکا کے اینٹی بیلسٹک میزائل کے دفاعی نظام کو مکمل طور پر ناکارہ بنا دے گی۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں پانچ نامعلوم انٹیلی جنس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’چینی فوج نے جولائی کے اواخر میں یہ لانگ رینج راکٹ فائر کیا تھا جو ہائپر سونک گلائیڈ وہیکل لے کر زمین کے مدار کی جانب روانہ ہوا تھا اور اس میزائل نے مدار کے گرد مکمل چکر لگایا اور واپس زمین پر اپنے طے شدہ ہدف کو صرف 24 میل کے فاصلے سے نشانہ بنایا۔ چونکہ چین کا تیار کردہ یہ ہائپر سونک میزائل خلا سے زمین پر صرف چند منٹوں میں اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔لہٰذا، چین کے پاس ایسی جدید اور منفرد ٹیکنالوجی آنے کے نتیجے میں امریکا کا اینٹی بیلسٹک ڈیفنس سسٹم مکمل طور پر ناکام ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ا مریکا نے اپنا یہ دفاعی نظام الاسکا میں نصب کر رکھا ہے جو شمالی قطب سے آنے والے کسی بھی خطرے کو نشانہ بنا سکتا ہے لیکن چائنیز ٹیکنالوجی سے تیار ہونے والا نیا ہائپر سونک میزائل جنوب سے امریکا کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘ماہرین کے مطابق اس واقعے نے امریکی انٹیلی جنس حکام کو سخت صدمے کی کیفیت میں ہی نہیں بلکہ ورطہ حیرت میں بھی مبتلا کر دیا ہے کیونکہ چین نے ہائپر سونک ہتھیاروں کی تیاری میں مختصر ترین مدت میں زبردست اور حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔نیز چین اور تائیوان کے درمیان جاری کشیدگی کے تناظر میں بھی دیکھا جائے تو چین کی یہ ایک بہت بڑی عسکری چھلانگ ہے، جو پورے ایشیا میں چین کو ایک ناقابل تسخیر قوت میں بدل سکتی ہے۔
دوسری جانب چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاو لیجان نے فنانشل ٹائمز میں چھپنے والی اس رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ چین نے رواں برس جولائی میں جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے، آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز میزائل کا تجربہ ضرور کیا ہے، لیکن یہ خلائی جہاز کا ایک معمول کا تجربہ تھا۔جس میں مختلف قسم کی دوبارہ قابل استعمال خلائی ٹیکنالوجی کو جانچا گیا تھا۔انھوں نے کہا کہ درحقیقت یہ میزائل نہیں تھا بلکہ ایک خلائی جہاز کی جانچ کا تجربہ تھا۔جس کے متعلق دنیا کے کسی ملک کو تشویش میں مبتلا ہونے کے قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔خاص طور پر اُس وقت جب کہ بہت سے دوسرے ممالک میں بھی اس نوعیت کے تجربات ماضی میں تواتر کے ساتھ ہوچکے ہوں۔ ‘‘حیران کن بات یہ ہے کہ چین کی جانب سے واضح طور پر ہونے والی تردید کے باوجود بھی عالمی ذرائع ابلاغ ، عسکری ماہرین اور چین کے دیرینہ حریف ممالک ابھی تک فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں بیان کردہ چشم کشا حقائق کو ہی درست تسلیم کررہے ہیں اور چینی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ تردید بیان کوایک ’’عاجزانہ مذاق‘‘ قرار دے رہے ہیں ۔ دراصل امریکا اور چین کے دیگر حریف ممالک سمجھتے ہیں کہ چین تسلیم کرے نہ کرے لیکن چینی سائنس دان ہائپر سونک میزائل کی تیاری میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ اَب اُن کا مقابلہ کرنا دنیا کے کسی بھی ملک کے لیے ممکن نہیں رہا ہے۔
شاید یہ ہی وجہ ہے کہ مائیک گیلگر، جو رپبلکن جماعت کی طرف سے ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کے رکن ہیں انھوں نے اپنے ایک خصوصی بیان میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ’’ واشنگٹن اگر اپنی موجودہ روش پر برقرار رہا تو، چین سے جاری سرد جنگ میں وہ،صرف ایک عشرے میں شکست کھا جائے گا۔‘‘جبکہ آسٹریلیا کے دفاع، قومی سلامتی اور حکمت عملی سے متعلق پالیسی ادارے کے ڈائریکٹر مائیکل شوبرج کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ’’ اگر چین نے واقعی ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کیا ہے تو یہ چین کے حریف ممالک کے لیے جوہری ہتھیار چلانے سے بھی زیادہ خطرناک یا بڑی بات ہے۔‘‘واضح رہے کہ چین کے ساتھ امریکا، روس اور کم از کم پانچ دوسرے ملک ہائپرسونک میزائل ٹیکنالوجی پر کئی دہائیوں سے کام کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ شمالی کوریا نے بھی ایک ہائپرسونک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔نیز رواں برس جولائی کے ہی مہینے میں روس نے بھی ایک ہائپر سونک میزائل کے کامیاب تجربہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
لیکن اکثر ماہرین اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ چین کی جانب جس ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کیا گیا ہے ، وہ یقینا دیگر ممالک کے تیارکردہ ہائپر سونک میزائل سے زیادہ طاقت ور صلاحیت کا حامل ہوگا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ فنانشل ٹائمز نے کئی ماہ کی تحقیق کے بعد چینی ہائپر سونک میزائل کے بارے میں تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔یعنی بات صرف ہائپر سونک میزائل کے تجربہ کی نہیں ہے بلکہ مغربی ممالک کے لیے اصل تشویش ناک معاملہ ایک جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ایسا چینی ہائپر سونک میزائل کی تیاری کا ہے۔ جس کا فی الحال امریکا سمیت کسی بھی مغربی ملک کے پاس کوئی توڑ موجود نہیں ہے۔ جب کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ چینی ساختہ یہ ہائپر سونک میزائل کتنے ماخ کا تھا۔ یاد رہے کہ آواز ایک گھنٹے میں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے، اسے ایک’’ماخ‘‘کہا جاتا ہے۔لہٰذا ،کوئی سپر سونک ہوائی جہاز یا میزائل آواز کی رفتار سے جتنے گنا زیادہ تیز رفتاری سے سفر کرتا ہے، اس کے لیے ماخ کے آگے وہی عدد لکھ دیا جاتا ہے۔ مثلاً آواز کی رفتار سے چار گنا زیادہ کا مطلب ہوا ، ماخ 4 ۔علاوہ ازیں کوئی بھی ہائپر سونک ہوائی جہاز یا میزائل صرف اس وقت ہائپر سونک کہلاتا ہے، جب اس کی رفتار ’’ماخ پانچ‘‘سے زیادہ ہو۔ایسے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل تو روس اور امریکا کے پاس پہلے سے موجود ہیں، جو ہائپر سونک ہیں اور 20 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے سفر کر سکتے ہیں۔
لیکن غالب امکان یہ ہی ہے کہ چین کی جانب سے تجربہ کیے گئے ہائپر سونک میزائل میں کچھ ایسی ،خاص، منفرد اور خطرناک بات ضرور موجود ہوگی ، جس کی وجہ سے امریکا اور اس کے حلیف ممالک اچانک ہی اپنے اپنے ہائپرسونک میزائلوں کو بھول بھال کر چینی ساختہ سپرسونک میزائل کے بارے میں رطب اللسان نظر آ رہے ہیں ۔ بظاہر ہائپر سونک میزائل کی ٹیکنالوجی بہت پرانی ایجاد ہے اور کئی دہائیوں سے دنیا کے کئی ممالک میں اس ٹیکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ کارآمد اور مہلک بنانے کی کوششیںمیں بھی مصروف ہیں ۔ اس لیے کم ازکم چین کو اس بات کا تو الزام نہیں دیا جاسکتاہے کہ اُس نے ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کر کے پہلی بار دنیا کا مستقبل خطرہ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ چونکہ ہائپر سونک میزائل کے تجربات دنیا کے کئی ممالک جانب سے تواتر کے ساتھ ہوتے رہے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ کئی ماہ قبل جب چین نے ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کیا تو عالمی ذرائع نے اس جانب زیادہ توجہ اور دھیان ہی نہ دیا ۔ مگر جب دنیا کے انٹیلی جنس اداروں نے اس تجربہ کی بابت معلومات اکھٹی کرنا شروع کی ہوں گی تو ان پر منکشف ہوا ہوگا کہ چین نے جس ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کرلیا ہے ، اُس کا توڑ تو دنیا کے کسی ملک کے پاس سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
جس طرح سپیرا ،ایک زہریلے سانپ کے کاٹنے سے اس لیے نہیں ڈرتا کہ اُس کی پٹاری میں ہمہ وقت سانپ کے زہر کا تیر بہدف تریاق موجود ہوتاہے۔ بعینہ امریکا بھی اپنے مضبوط دفاعی نظام کی بدولت دنیا کے کسی بھی مہلک ہتھیار سے ذرہ برابر خوف نہ کھانے ایک قابل فخر تاریخ رکھتا ہے۔ لیکن اگر واقعی چینی ساختہ ہائپر سونک میزائل کے حملے سے بچنے کے لیے امریکی افواج کے پاس کوئی دفاعی نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو پھر یقینا امریکی قیادت اور اس کے حلیفوں کا چینی ہائپر سونک میزائل سے ڈرنا تو بنتاہے۔ خاص طور پر افغانستان سے امریکی افواج کے شرم ناک انخلاء کے بعد بیجنگ سے آئے روز مہلک اور جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری کی خبریں عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بننا، جہاں امریکا کی عالمی بالادستی کی ساکھ کے لیے کسی بھی صورت نیک شگون نہیں قرار دیا جاسکتاہے وہیں یہ سپر سونک قسم کی خبریں امریکا کے اسٹریٹیجک پارٹنر بھارت کی نیندیں اُڑانے کے لیے بھی کافی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔