مسلم آبادی بڑھنے کا سفید جھوٹ
شیئر کریں
(مہمان کالم)
معصوم مرادآبادی
ہندوستان میںمسلم آبادی بڑھنے کا جھوٹا پروپیگنڈہ نیا نہیں ہے۔ برادران وطن کو مسلمانوں سے برگشتہ کرنے اوران کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے یہ جھوٹ با ربار بولا جاتا ہے۔بار بار ٹھوس اعداد وشمار کے ساتھ اس کی تردید بھی کی ہوتی ہے ، لیکن آرایس ایس کے لوگ اس جھوٹ کو زیادہ طاقت کے ساتھ اس لیے بار بار بولتے ہیں کہ اگر کسی جھوٹ کو100مرتبہ بولا جائے تو اسے سچ مان لیا جاتا ہے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد گودی میڈیا بھی اس جھوٹ کو پھیلانے میں آرایس ایس کا معاون ومددگار بن گیا ہے۔
ناگپور میںآرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے دسہرے پر اپنی سالانہ تقریرمیںاس بار جہاں مسلم آبادی کو کنٹرول کرنے کی بات کہی ہے تو وہیںتبدیلی مذہب کوقومی اتحاد کے لیے سنگین خطرہ قرار دیاہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے کچھ ایسے مسلمانوںکے نام تجویز کیے ہیں جنھیں مسلمان اپنے’رول ماڈل‘(مثالی شخصیت) کے طورپرا پنائیں۔اس موضوع پر ہم آگے چل کر گفتگو کریں گے ، آئیے پہلے ہندوستان میںمسلم آبادی بڑھنے کی ان کی تشویش کا جائزہ لیتے ہیں۔
موہن بھاگوت نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو ایک سنگین صورتحال سے تشبیہ دیتے ہوئے اسے کنٹرول کرنے کی ضرورت اجاگر کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ1951 سے 2011کے درمیان جہاں ہندوئوں سمیت ملک میں پیدا ہونے والے مذاہب کے شہریوں کی آبادی 88 فیصد سے گھٹ کر83فیصدی رہ گئی ہے، وہیں مسلم آبادی کی شرح نواعشاریہ 8 فیصد سے بڑھ کر 14اعشاریہ 23فیصد ہوگئی ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کے نو صوبوں میں مسلم آبادی میں اضافہ کی شرح30 فیصد سے زیادہ ہے۔انھوں نے کہا کہ آبادی پر کنٹرول کے طریقوں سے آبادی بڑھنے کی شرح میں کمی آئی ہے ، لیکن الگ الگ مذہبی فرقوں کی آبادی میں عدم توازن کے پیش نظراس پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ کئی فرقوں کی آبادی کی شرح میں بڑا فرق ہے۔ غیرملکی دراندازی اور تبدیلی مذہب کے سبب سرحدی علاقوں کی آبادی کی شرح میں عدم توازن پیدا ہورہا ہے۔یہ ملک کی ایکتا، اتحاداور تہذیبی شناخت کے لیے ’گمبھیر سنکٹ ‘بن سکتا ہے۔اس کا ثبوت پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سرحدی صوبوں میں مسلم آبادی کی شرح قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔یہ واضح طورپر بنگلہ دیش سے دراندازی کا اشارہ دیتا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ شمال مشرق میں صرف ایک دہائی میں ہی اروناچل پردیش میں عیسائی ا?بادی میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
مسلم آبادی کی شرح میں اضافے سے متعلق موہن بھاگوت نے جو کچھ کہا ہے ، اس کی تردید کئی سروے کرچکے ہیں۔حال ہی میں معروف صحافی اور ماہر معاشیات سوامی ناتھن ایّر کا ایک مضمون ہندی روزنامہ ’ نوبھارت ٹائمز’(5اکتوبر 2021)میںشائع ہوا ہے۔ ’مسلمانوں کے بارے میں پھیلایا جاتا ہے جھوٹ ‘ کے عنوان سے انھوں نے لکھا ہے کہ’’ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آزادی کے بعد کی ہر مردم شماری میں آبادی میں مسلمانوں کا حصہ بڑھا ہے۔1951 میں مسلمان تقریباًدس فیصدی تھے جبکہ2011 میں14 فیصدی سے زیادہ ہوگئے۔ وہیں ہندوئوں کا حصہ لگ بھگ84 فیصد سے گھٹ کر80 فیصدی پر آگیا۔ چھ دہائیوں کے دوران آبادی میں مسلمانوں کا حصہ تقریباً چار فیصد بڑھا۔ ایسا اچانک نہیں ہوا۔ یہ اضافہ دھیرے دھیرے ہوا، لیکن اگر یہی رجحان قایم رہاتو بھی اس صدی کے آخر تک آبادی میں مسلمانوں کا حصہ20فیصدی سے زیادہ نہیں ہوگا،بلکہ اضافہ کی شرح کم ہی رہے گی۔ کیونکہ مسلمانوں اور ہندوئوں کی شرح پیدائش میں فرق تیزی سے گھٹ رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دونوں کی شرح ایک جیسی ہوجائے۔‘‘سوامی ناتھن ایّر نے اپنے مضمون میںطویل بحث کے بعد لکھا ہے کہ’’ مسلمانوں کی ا?بادی کے بارے میں بی جے پی چاہے جتناشور مچائے، اس کے الزامات میں کوئی دم نہیں ہے۔ فضول کا خطرہ دکھاکرہندوئوں کو ڈرانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ان کے ووٹ مل سکیں۔‘‘
اب آئیے موہن بھاگوت کے اس بیان کی طرف چلتے ہیں جس میںانھوں نے مسلمانوں کے’ رول ماڈل ‘کے نام تجویز کیے ہیں۔ انھوںنے اپنے پسندیدہ جن مسلمانوں کے نام تجویز کیے ہیں ،ان میں پہلا نام مغل شہزادے داراشکوہ کا ہے اور دوسرا نام سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کا ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ آج کل سنگھ پریوار کے لوگ داراشکوہ اور ڈاکٹر عبدالکلام پر خاص طور سے مہربان ہیں۔داراشکوہ کے بارے میں نئی نئی تحقیقات کی جارہی ہیں اور اس کی اصل قبر کا سراغ لگانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔اسی طرح ڈاکٹر عبدالکلام کومسلم نوجوانوں میں قبولیت عطا کرنے کے لیے نئے نئے جتن کیے جارہے ہیں۔
دارا شکوہ مغل حکمراں شاہجہاں کا بڑا بیٹا تھااور وہ اسے اپنا وارث بنانا چاہتا تھا ، لیکن اورنگزیب کو داراشکوہ اپنے مذہبی عقائدکی وجہ سے سخت ناپسند تھا اوروہ اسے کافر قرار دیتا تھا۔ داراشکوہ فارسی زبان کا ایک بڑاعالم تھا اور اس نے اس زبان میں کئی کتابیں بھی تصنیف کیں، لیکن اپنے مذہبی عقائد کے معاملے میں وہ خاصا لچکدار واقع ہوا تھا۔1657میں داراشکوہ نے بنارس کے چند اصحاب علم کی مدد سے اپنشدوں کا ترجمہ فارسی میں کیا۔اس نے کہا تھاکہ اس نے متعدد مذہبی عقائد کا مطالعہ اس لیے کیا تاکہ وہ دینی اور فلسفیانہ نظریات کو مکمل طورپر سمجھ سکے۔داراشکوہ نے مزید کہا کہ اس نے ویدوں میں توحید کا جوہر اصلی تلاش کرلیا ہے اور یہ بھی کہ وہ اپنشدوں کو الوہی رازہائے سربستہ کا امین سمجھتا ہے۔اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس نے اپنشدوں کا ترجمہ خوداپنے روحانی فائدے اور اپنی آل اولاد،احباب اور جویان حق کے فائدے کے لیے کیا ہے۔‘‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہی وہ ترجمہ تھا جسے فرینکوئس برنیئر یوروپ لے گیا، جہاں کم وبیش ایک صدی بعدان کا ترجمہ فرانسیسی اور لاطینی زبانوں میں ہوا۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ داراشکوہ کے فارسی ترجمے کی ہی معرفت یوروپ ہندومذہب کے افکار وخیالات اور فلسفے سے آشنا ہوااور اسی ترجمہ کی پاداش میں اورنگزیب نے داراشکوہ پر کفر والحاد کا الزام لگاتے ہوئے اس کے موجب قتل ہونے کا فتویٰ حاصل کیا تھا ،جس پر عمل کیا گیا۔اس موضوع پر زیادہ تفصیل سے روشنی کیرل کے گورنر عارف محمدخاں نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں ڈالی ہے اور یہ مضمون بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو داراشکوہ کا قد بلند کرنے کے لیے لکھے یا لکھوائے جارہے ہیں۔ پچھلے دنوں اسی قسم کا ایک مضمون علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے بھی ’ انڈین ایکسپریس ‘ میں لکھا تھا ، جس پرسوشل میڈیا میں کافی لے دے ہوئی تھی۔
اب آئیے سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کی طرف چلتے ہیں ،جن کا نام موہن بھاگوت نے مسلمانوں کو دوسرے رول ماڈل کے طورپر تجویزکیاہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں ڈاکٹر کلام ایک ذی علم اور لائق شخصیت تھے۔ انھوں نے دفاعی سائنس کے میدان میں ملک کو خودکفیل بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیاہے۔خاص طورپر میزائل سازی میں ان کا کو بدل نہیں ہے۔اسی لیے انھیں ’میزائل مین‘ بھی کہا جاتا ہے۔ان کی خدمات کا اعتراف بھی اعلیٰ پیمانے پر کیا گیا ہے۔وہ ایک غریب مسلمان ملاح کی اولاد تھے اور انھوں نے اپنی جفاکشی سے یہ مقام حاصل کیا ، لیکن جہاں تک بحیثیت مسلمان ان کے مذہبی عقائد کا تعلق ہے تو وہ اس میں صلح کل کے طرفدار تھے۔وہ عید، بقرعید کی نماز تو پڑھتے تھے ، لیکن جنوبی ہند کے مندروں اور شنکر اچاریوں سے بھی انھیں خاص عقیدت تھی۔جب کبھی وہ ان مندروں میں جاتے تو دنڈوت بھی ہوجایا کرتے تھے۔ان کی یہی ادا سنگھ پریوار کو پسند تھی اور اسی لیے سنگھ پریوار نے ان کی موت کا سوگ سب سے زیادہ منایا تھا۔
سنگھ پریوار کے لوگ کن مسلمانوں کو پسند یا ناپسند کرتے ہیں، یہ ان کی اپنی سوچ پر منحصر ہے ، لیکن وہ مسلمانوں کواس بات پر مجبور نہیں کرسکتے کہ جو مسلمان ا?رایس ایس کو پسندیدہے ، وہی مسلمانوں کے لیے’ رول ماڈل‘ بھی ہو۔جو مسلمان اپنے مذہب اور عقیدے کا پابندہے، وہ سنگھ پریوار کے لوگوں کی نظر میں ’ کٹّرمسلمان‘ ہے۔ظاہرہے مسلمان کسی ایسے شخص کو اپنا رول ماڈل تسلیم نہیں کرسکتے جس کے عقائد وحدانیت کے خلاف ہوں۔دنیا میں مسلمانوں کا کوئی رول ماڈل ہوسکتا ہے تو وہ صرف نبی کریم ، محسن انسانیت حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہے، جنھیں پوری دنیا کے مسلمان اتھاہ عقیدت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔