کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ ایک مرتبہ پھر کھٹائی میں پڑ گیا
شیئر کریں
(رپورٹ: شعیب مختار) سندھ اور وفاق کے بڑھتے تناؤ کے باعث کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ ایک مرتبہ پھر کھٹائی میں پڑ گیا اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کراچی کے میگا منصوبوں پر اثر انداز ہونے لگی منصوبے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں ریلوے ٹریک کی زمینوں پر قائم رہائشی عمارتوں سے آبادیوں کی منتقلی سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی تفصیلات کے مطابق ناظم آ باد کے قریب گرین لائن منصوبہ،غریب آباد اسٹیشن،گیلانی اسٹیشن،اردو یونیورسٹی،ریلوے کالونی اور دیگر ریلوے ٹریک پر تجاوزات پر پختہ عمارتوں کی تعمیرات سرکلر ریلوے کے دوسرے مرحلے کے مکمل ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ بتائی جاتی ہے مذکورہ عمارتوں میں رہائش پذیر آ بادیوں کی منتقلی کو تاحال کئی ماہ گزر جانے کے باوجود بھی یقینی نہیں بنایا جا سکا ہے۔ گذشتہ دنوں سرکلر ریلوے کی زمینوں پر قائم تجاوزات کیخلاف کیے جانے والے آپریشن بھی حالیہ دنوں ناکامی سے دو چار دکھائی دے رہیں جن سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک مرتبہ پھر قبضہ مافیا سرگرم دکھائی دیتا ہے ریلوے کی 580ایکڑ اراضی پر قبضہ مافیا کا راج بتایا جاتا ہے جنہیں واگزار کرانے میں دونوں حکومتیں ناکام ہو چکی ہیں ریلوے حکام کے مطابق کراچی سرکلر ریلوے کے پہلے مرحلے میں کراچی سٹی اسٹیشن سے منگھو پیر تک 12 کلو میٹر ٹریک بحال ہو چکا ہے جبکہ اورنگی اسٹیشن تک 14 کلومیٹر کا ٹریک آئندہ چند روز میں مکمل کیاجائیگا دوسرے مرحلے میں اورنگی اسٹیشن سے گیلانی اسٹیشن (گلشن اقبال) 7کلو میٹر جبکہ تیسرے مرحلے میں گیلانی اسٹیشن سے ڈرگ کالونی تک 9 کلومیٹرکا ٹریک بحال کیا جائیگا۔ 44کلومیٹرپر مشتمل کے سی آر ٹریک میں 20 اسٹیشنز اور 24 پھاٹک شامل ہیں۔ کراچی سرکلر ریلوے کے کوچز کی تیاری کاکام اسلام آباد کیرج فیکٹری میں جاری ہے جن میں سے 7 تیار ہو چکی ہیں جبکہ جنوری 2021 تک 40 مزیدکوچز تیار کرلی جائیں گی، ہرکوچ میں 96 مسافروں کے لیے 64 نشستیں اورکھڑے ہونے والے مسافروں کے لیے 32 ہینڈ ہولڈ بار لگائے گئے ہیں اس کے ساتھ ساتھ واش رومز، پنکھے، ٹی وی،وائی فائی اور موبائل چارج کرنے کی سہولیات بھی مہیا کی جائیں گی جبک منصوبے کو 3 مرحلوں میں بحال کیا جائیگا۔