بیاں،میوی؟
شیئر کریں
دوستو، آپ کو آج ہمارے کالم کا عنوان سمجھ نہیں آیا ہوگا، یہ ہم نے ’’میاں بیوی‘‘ لکھا ہے، لیکن یہ وہ میاں بیوی ہیں جن کی شادی کو تیس سال سے زائد عرصہ گزرچکا ہوتا ہے اور دونوں میں اتنی ذہنی ہم آہنگی ہوجاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے آنکھوں کے اشارے، چہرے کے تاثرات تو ایک طرف، سوچ تک پڑھ لیتے ہیں۔۔
ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ شادی کو ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد میاں بیوی کی شکلیں ایک دوسرے سے ملنے لگتی ہیں، جیسے وہ آپس میں حقیقی بہن بھائی ہوں۔اس بارے میں 1987 کی ایک نفسیاتی تحقیق بھی سائنسی ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہے جس میں مشہور نفسیات داں رابرٹ زاہونک نے دریافت کیا تھا کہ وہ جوڑے جن کی شادی کو 25 سال یا اس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہوتا ہے، ان میں شوہر اور بیوی کی شکلیں واقعتاً ایک دوسرے سے ملنے لگتی ہیں۔ان کا خیال تھا کہ شاید اتنے طویل عرصے تک ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے میاں بیوی لاشعوری طور پر ایک دوسرے کی عادتیں اختیار کرلیتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے چہرے کے تاثرات، اور بالآخر نقوش بھی ایک دوسرے سے ملنے لگتے ہیں۔تاہم یہ تحقیق بھی اطمینان بخش نہیں تھی کیونکہ اس میں صرف 12 جوڑوں کا مطالعہ کیا گیا تھا، جس میں ان کی شادی کے وقت اور شادی کے 25 سال بعد والی تصاویر استعمال کی گئی تھیں۔اب اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں تھائی لینڈ سے آئے ہوئے پی ایچ ڈی اسکالر ’’پن پن ٹی میکورن‘‘ اور ان کے ساتھیوں نے یہی تحقیق ایک بار پھر کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ البتہ نئے مطالعے میں انہوں نے آن لائن پبلک ڈیٹابیسز سے 517 شادی شدہ جوڑوں کی تصویریں حاصل کیں جو اُن کی شادی کے فوراً بعد سے لے کر 20 تا 69 سال بعد تک کھینچی گئی تھیں۔تصویروں میں میاں بیوی کے چہروں میں شباہت کا تجزیہ کرنے کیلیے انہوں نے 153 رضاکاروں کی آن لائن خدمات حاصل کیں جبکہ ساتھ ہی ساتھ انسانی چہرے شناخت کرنے والا جدید الگورتھم ’’وی جی جی فیس ٹو‘‘ (VGGFace2) بھی استعمال کیا۔تحقیق کے اختتام پر معلوم ہوا کہ نہ صرف چہرہ شناس الگورتھم، بلکہ انسانوں نے بھی ان تمام تصویروں کو دیکھ کر یہی بتایا کہ میاں بیوی کے چہرے شادی کے وقت ایک دوسرے سے جتنے مختلف تھے، لمبا عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہ آپس میں اس قدر ہی مختلف رہے۔اس کے برعکس، بعض رضاکاروں نے تصویریں دیکھ کر یہ خیال ظاہر کیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میاں بیوی کی شکلیں ایک دوسرے سے ملنے کے بجائے مختلف ہوگئیں۔قصہ مختصر یہ کہ ’’پن پن ٹی‘‘ اور ان کی ریسرچ ٹیم نے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پرانے شادی شدہ جوڑوں کی شکلیں ایک جیسی نظر آنے میں یا تو ہماری اپنی نظر اور سوچ کا قصور ہوتا ہے، یا پھر میاں بیوی آپس میں قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں۔یہ دلچسپ تحقیق اوپن ایکسیس ریسرچ جرنل ’’سائنٹفک رپورٹس‘‘ کے تازہ ترین شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
خواتین کے چہرے کا ذکر ہو اور میک اپ کی یاد نہ آئے ، ایسا ممکن نہیں، کہتے ہیں کہ خواتین کا میک اپ ایک ہونہار طالب علم کے سالانہ پیپرکی طرح ہوتا ہے ، تین گھنٹے بعد بھی پوچھو تو ایک ہی جواب ملتا ہے پانچ منٹ اور دے دیں بس۔۔ بھری عدالت میں جب وکیل نے جرح کرتے ہوئے کٹہرے میں کھڑی خاتون سے سوال کیا۔۔ قتل کے وقت آپ کے شوہر کے آخری الفاظ کیا تھے ؟۔۔کٹہرے میں کھڑی خاتون نے جواب دیا۔۔ انہوں نے کہا کہ میری عینک کہاں ہے شہناز ؟۔۔وکیل نے حیرانی سے پوچھا، تو اس میں قتل کردینے والی کون سی بات تھی ؟۔۔خاتون نے اطمینان سے جواب دیا۔۔کیوں کہ میرا نام رضیہ ہے۔۔وہ مثل بھی آپ نے سنی ہوگی کہ رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی، اسی پر پڑوسی ملک نے گانا بھی بناڈالا۔۔لیکن کبھی کبھی انسان خود بھی پھنس جاتا ہے۔۔جیسے خاتون خانہ کو نصف شب جب پیاس لگی تو پانی پینے کے لیے اْٹھی ،اچانک ایک چڑیل کو دیکھ کر ڈر گئی ،اتنا ڈری کہ پورے ایک ہفتے تک بخار میں مبتلا رہیں۔۔ڈاکٹر چیک اپ کرنے آیا،میڈیسن دی۔۔اور جاتے ہوئے شوہر کو وارننگ بھی دیتے ہوئے کہا۔۔کچن میں لگا شیشہ اْتار لیں، اگر یہ پھر سے ڈر گئی تو اس کا بچنا نا ممکن ہے۔۔۔ایک ماں نے رخصتی کے وقت بیٹی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا۔۔ دیکھو بیٹی شوہر کا خیال رکھنا اسے ناراض نہیں کرنا،اگر شوہر روٹھے تو رب روٹھے،اگر دوسری بار روٹھے تو دل ٹوٹے۔اگر تیسری بار روٹھے تو جگ چھوٹے،اور اگر بابار روٹھے تو نکال ڈنڈا اور شروع ہو جا جب تک ڈنڈا نہ ٹوٹے۔۔۔ایک عورت نے ایک دن اپنے شوہر کا موبائیل چیک کیا،جس میں نام کچھ اس طرح ’’محفوظ‘‘ کیے گئے تھے۔۔آنکھوں کا علاج۔۔ہونٹوں کا علاج۔۔دل کا علاج۔۔بیوی نے نہایت غصے میں اپنا نمبر ڈائل کیا تاکہ اسے پتہ چلے کہ اس کا نمبر کس نام سے ’’سیو‘‘ کیاگیا ہے۔۔موبائل اسکرین پر ایک دم سے آیا۔۔لاعلاج۔۔
شادی سے پہلے بیویاں چاہیں بے انتہا خوب صورت ہوں یا’’خوف صورت‘‘ لیکن ہمارا یہ دعوی ہے کہ ساری بیویاں شادی کے بعد ایک ہی طرح کی ہوجاتی ہیں اور ان کے وجود میں چھپے کئی کردار کود کود کر باہر آتے جاتے ہیں ، کبھی لیکچرر تو کبھی دھوبن تو کبھی باورچن،لیکن ان سب سے زیادہ کرارا کردار یہ کہ بیحد شکی، اور نکتہ چینی کی ماہر اور اس حوالے سے انکے پاس موضوعات کی کبھی کوئی کمی بھی نہیں ہوتی۔۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہر شوہر کو بچے اپنے اور بیوی دوسرے کی ہی اچھی لگتی ہے۔ایک خاتون خانہ روزانہ اپنے بچوں کو اسکول لاتی لے جاتی تھیں، ایک دن بیمارپڑیں تو یہ ذمہ داری باپ کے نازک کاندھوں پر آگئی۔شام کو بیگم نے بچوں سے پوچھا۔۔آج ابو کیساتھ ڈرائیو کیسی رہی؟بچوں نے کہا۔۔بہت اعلیٰ، آج تو ایک بھی ایڈیٹ نہیں ملا،نہ کوئی اندھا، بہرہ، گدھا۔نہ کوئی نان سینس، نہ کوئی الو کا پٹھا۔۔بلکہ ہر کوئی واؤ، بیوٹی فل، آہا، اوئے ہوئے، مرجاواں ، صدقے جاواں جیسا ماحول تھا۔۔بیگمات کی اکثریت عقل میں کچھ ’’مارجن ‘‘ لگتی ہیں، ایسی ایک خاتون اپنے شوہر پر غصہ سے برستے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔۔ میں کب سے پوچھ رہی ہوں تمہاری زندگی میں سب سے بڑی پرابلم کیا ہے، بس مجھے ہی دیکھے جا رہے ہو بتاتے کیوں نہیں؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ کیمسٹ کی دکان پر ٹینشن کی دوائی کے لیے ڈاکٹر کا نسخہ دکھانا ضروری ہوتا ہے، بیوی کی تصویر نہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔