آصف زرداری کی ممکنہ گرفتاری ،پیپلزپارٹی نے حکمت عملی مرتب کرلی
شیئر کریں
پاکستان پیپلز پارٹی نے منی لانڈرنگ کیس میں شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ممکنہ گرفتاری کی صورت میں حکمت عملی مرتب کرنا شروع کر دی ہے ۔ تین نکاتی حکمت عملی کے تحت پیپلزپارٹی پارلیمنٹ ،انفرادی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر ملک گیر سطح پر احتجاج کرے گی ۔ذرائع کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری کی ممکنہ گرفتاری کے حوالے سے حکمت عملی مرتب کرنا شروع کردی ہے ۔اس حوالے سے مختلف آپشنز پر غور کیا جارہا ہے۔
اگر منی لانڈرنگ کیس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے آصف زرداری کو گرفتار کرتے ہیں تو پارٹی کی جانب سے پہلے مرحلے میں قومی اسمبلی ، سینیٹ اور سندھ اسمبلی میں بھرپور انداز میں احتجاج ریکارڈ کرایا جائے گا ۔ دوسرے آپشن میں پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں احتجاج ریلیوں اور دھرنوں کا سلسلہ شرو ع کر سکتی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے تمام صوبائی اور ضلعی تنظیمی عہدیداران کو تیار رہنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے ۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ممکنہ گرفتاری پر پیپلز پارٹی احتجاجی مظاہروں کو ملک بھر میں وسیع کرنے کے لیے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے رابطے کرے گی۔
اس ضمن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں کو خصوصی ٹاسک دیا گیا ہے ۔ یہ رہنما پاکستان مسلم لیگ (ن) ، جمعیت علمائے (ف) ، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتوں سے رابطہ کرکے انہیں اس بات پر قائل کریں گے کہ آصف علی زرداری کی گرفتاری ملک میں جمہوری قوتوں کو کمزور کرنے کی سازش ہے اور ان کی گرفتاری کا کرپشن سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس حوالے 31 اکتوبر کو اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں بھی بات چیت کی جائے گی ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت مکمل ہونے کے بعد تیسرے مرحلے میں پاکستان پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی ممکنہ گرفتاری کی صورت میں ملک گیر احتجاجی مظاہرے کرے گی اور اسلام آباد میں دھرنے کے آپشن پر بھی غور کیا جا رہا ہے ۔ انتہائی معتبر ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ اہم رہنما پارٹی قیادت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو دانستہ دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور پارٹی کی قیادت کو سوچی سمجھی سازش کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اس صورت حال میں اسمبلیوں میں احتجاج ریکارڈ کرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔ اس لیے احتجاجا قومی اسمبلی سے استعفوں کا آپشن بھی سامنے رکھا جائے گا ۔ تاہم پارٹی کے اکثریتی رہنما اس تجویز کے مخالف ہیں ۔