میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حکومت اپنی توجہ عوامی ریلیف اور معیشت کی بحالی پر مرکوز کرے!

حکومت اپنی توجہ عوامی ریلیف اور معیشت کی بحالی پر مرکوز کرے!

جرات ڈیسک
بدھ, ۲۵ ستمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

16گھنٹے کے مختصر نوٹس پرلاہور شہر سے 28 میل دور مویشی منڈی میں لوگوں کا جم غفیرجمع کرنے کا کارنامہ انجام دینے کی وجہ سے جلسہ ختم ہونے کے کئی دن بعد بھی اس جلسے کی بازگشت ابھی سنائی دے رہی ہے،اس جلسے نے حکومت کو مبہوت کردیاہے یہی وجہ ہے کہ اب حکمراں طبقے میں شامل ہر ایک صرف اس جلسے کی ناکامی کی گردان کرکے عوام کو یہ یقین دلانے کی ناکام کوشش کررہاہے کہ یہ ایک فلاپ جلسہ تھا اور تحریک انصاف چند سو افراد کو ہی بمشکل جمع کرنے میں کامیاب ہوئی،لیکن یہ پروپگنڈا کرتے ہوئے وہ یہ بتانے سے کتراتے ہیں کہ اتنے فلاپ جلسے کی لائٹیں اور ساؤنڈ سسٹم بند کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی جب جلسہ گاہ میں لوگ موجود ہی نہیں تھے تو ساؤنڈ سسٹم اور لائٹ بند نہ کرنے سے بھی کیا فرق پڑ سکتاتھا۔دراصل حقیقت یہ ہے کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں سچ کو چھپانا بہت مشکل ہے۔ پوری دنیا حکومت کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کے باوجود جلسہ گاہ میں لوگوں کا جم غفیر دیکھ چکی ہے جس کی وجہ سیاست کا بیانیہ جلسہ بڑا تھا،جلسہ چھوٹا تھا، تک رہ گیا ہے۔ حکومت یہ دعوے کرتی ہے کہ تمام، راستے کھلے تھے اور اس کے ساتھ ہی راستہ روکنے کیلئے کھڑے ٹرک کا شیشہ توڑتے ہوئے علی امین گنڈا پور کی تصاویر بھی خاص اہتمام کے ساتھ چینلز پر دکھانے کی فرمائش کی گئی اور چینل مالکان نے بلاچوں وچرا اس فرمائش کی تکمیل کی۔ ایک زمانے میں کارکردگی کسی حکومت کا پیمانہ ہوتی تھی، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ شہباز شریف کی حکومت نے جلسے کو چھوٹا ظاہر کرنے کو اپنی کامیابی کاپیمانہ بنالیا ہے۔ غالباً حکومت سمجھتی ہے کہ جلسہ چھوٹا ظاہر کیا جائے تو حکومت کی بلے بلے ہو جائے گی۔ ایسا کرتے ہوئے ارباب حکومت یہ سوچنے کو بھی تیار نہیں ہیں کہ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ دنیا کی ہزاروں میل دور موجود حقیقتیں بھی پلک جھپکنے میں ظاہر ہو جاتی ہیں، مگر حکمراں کاہنہ کے مقام پر ہونے والے جلسے کو جلسی ظاہر کر کے ا سے چھوٹا ثابت کرنے کی لایعنی بحث میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال سے ظاہرہوتاہے کہ یا تو ہماری اشرافیہ حالات سے نابلد ہے یا پھر وہ عوام کو اب بھی بیوقوف سمجھتی ہے جبکہ ہر شخص کے موبائل پر ہر چیز وڈیوز کی صورت گردش کر رہی ہوتی ہے۔یہ بان تو مان لینی چاہئے کہ ملک میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے ایک جماعت کو جلسے کرنے کیلئے کبھی ویرانے اور کبھی مویشی منڈی میں جگہ دی جا رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب حکومتیں جلسہ گاہ میں پانی چھوڑ دیتی تھیں،اب پابندی لگا کر کسی ایسی دور افتادہ جگہ کو تلاش کیا جاتاہے،جہاں تک رسائی بہت مشکل ہو۔لیکن اس کے باوجود مختصر نوٹس پر جلسے کا اہتمام کرکے جلسہ گاہ اور اردگرد کی سڑکوں کو انسانوں سے بھر دینا کمال کی بات ہے۔ حکومت کو جلسے کو ناکام بتانے کی کوشش میں وقت ضائع کرنے کے بجائے زمینی حقیقت کو خوشدلی کے ساتھ قبول کرتے ہوئے اگلے جلسوں کیلئے اس طرح کے حربے اختیار کرنے سے گریز کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔حکومت کو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ مرکزی شہر سے پندرہ بیس کلو میٹر دور گویا جنگل بیا بان میں بھی بھرپور جلسہ کوئی انتہائی مقبول پارٹی ہی کرسکتی ہے، خود ن لیگ حکومت میں ہوتے ہوئے ہفتوں کی محنت کے باوجود ایسا جلسہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی،حکومت پہلے سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس جگہ پر کوئی سیاسی جلسہ بھی ہو سکتا ہے؟ ارباب حکومت نے جلسے کیلئے کاہنہ کا انتخاب کرتے ہوئے سوچا ہوگا کہ لوگ تو اپنے قریب ہونے والے جلسے میں نہیں جاتے، اتنی دور اور وہ بھی حد درجہ رکاوٹیں عبور کر کے کیوں جائیں گے، کیا انہیں کسی پاگل جانور نے کاٹا ہے،مگر اِس کے باوجود ہزاروں لوگ پہنچ گئے اور جلسہ کامیاب ہو گیا،اب اسی پر وزرائے کرام کی جانب سے یہ کہنا کہ دیکھو جلسہ ناکام ہوگیا کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق نہیں تو اور کیاہے؟
پی ٹی آئی کے جلسے والے دن کاہنہ میں جلسے کے باوجود جس طرح پورے شہر کو کنٹینرز لگا کر بند کیا گیا وہ بجائے خود حیرت کو جنم دیتا ہے، جب ہائیکورٹ کے حکم سے جلسے کی اجازت دینا ہی پڑ رہی تھی تو دِل کو ذرابڑا کرکے اگر لوگوں کو آزادانہ طور پر اِس میں شرکت کرنے دی جاتی تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑتی،پھر پورے ڈویژن کی پولیس لاہور بُلا کر جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔حکومت یہ کیوں نہیں سوچتی کہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ خشک وتر تو بہہ جاتے ہیں لیکن جن کی جڑیں زمین میں گہری، تنے مضبوط اور قد بلند وبالا ہوتا ہے وہ سیلابوں میں بھی اپنے مقام پر کھڑے رہتے ہیں اور زمانہ انہیں سرخرو دیکھتا ہے۔ ایسے سربلند ہی آنے والی بہاروں کا نظارہ کرتے ہیں۔ یہ تو فطرت کا اصول ہے کہ آگ بھی لگے تو جنگلوں میں بہت کچھ راکھ ہو جاتا ہے، نام ونشان مٹ جاتا ہے، مگر تناور درخت بھسم ہونے کے باوجود اپنی شناخت اور مقام کبھی نہیں کھوتے۔ بارش کے پہلے قطرے کے ساتھ پھر تروتازہ ہو جاتے ہیں اور ان پر برگ وبار پھوٹنے لگتے ہیں۔ انسانوں اور معاشروں کی کیفیت اس سے کچھ مختلف نہیں۔ کچھ افراد ہوتے ہیں جو اس اجتماعی گروہ بندی کی تشکیل کرتے ہیں،ایک دوسرے کی پہچان، سہارے اور اشتراک کار میں رنگے بے شمار سلسلے موتیوں کے ہار کی طرح ایک ہی لڑی میں پروئے رکھتے ہیں اور اس نظم ہستی کو بکھرنے سے بچاتے ہیں۔ معاشروں پر جو مکمل طور پر دورِ جدید میں سیاسی نوعیت کے ہیں‘ بلکہ بنیاد اور ان کا تانا بانا سب سیاست کے عناصر سے متشکل ہوئے ہیں۔آئین‘ قانون اور انصاف جدید ریاست کے بنیادی عناصر اس لیے ہیں کہ ایک پُرامن معاشرہ تشکیل پا سکے، جہاں ہم آزاد اور بے خوف اپنی زندگیوں میں اپنے خیالات اور نظریات کے مطابق رنگ بھرتے رہیں،اور چاہے اختلاف ہو‘ لیکن کوئی بگاڑ پیدا نہ ہو۔ ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک توازن اور طاقت کا نظام طاقتور‘ ظالم اور حریفوں کو افراد اور معاشرے کی آزادیوں‘ حقوق اور خوشیوں پر ڈاکا ڈالنے سے نہ روک سکے۔جابروں‘ ظالموں اور بے انصاف حکمرانوں کے سامنے کامیاب معاشروں نے جدوجہد کی ہے۔ آزادی‘ سکون اور اطمینان اور خوشحالی کے خواب میں ہر سال ہزاروں لوگ سمندروں اور صحراؤں کو عبور کرنے کی کوشش میں اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ انہیں خوشحالی طشتری میں رکھ کر کوئی پیش نہیں کرتا۔ مقام شکر ہے کہ ہمارے ملک میں بھی آزادیوں‘ انصاف‘ نمائندہ حکومت اور آئین کی بالادستی کے لیے جدوجہد کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوا۔ نہ جانے‘ کتنے ہیں جنہوں نے اپنی پیٹھ پر کوڑے کھائے اور کتنے پسِ زنداں اپنی عمروں کا ایک حصہ ہمارے اجتماعی خوابوں کی تعمیر کے لیے قربان کر گئے۔ شاعروں‘ ادیبوں‘ صحافیوں‘ دانشوروں اور سیاستدانوں میں سے بھی کچھ نے آئین‘ قانون اور جمہوریت کی سربلندی کے لیے مصائب اور مشکلات کا سامنا کیا۔اس طرح اس ملک میں آزادی اور انصاف کی چنگاری کہیں نہ کہیں موجود رہی اور وقت آنے پر دل گداز شعلوں میں بھی تبدیل ہوئی۔ایسے زندہ دلوں کے معاشرے میں حکومت کو ایسے کاموں کے مشورے کون دیتا ہے۔اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے اور عوام میں کیا تاثر جاتا ہے،شہریوں میں سب کسی جماعت کے حامی نہیں ہوتے، مگر جب آپ شاہراہوں کو کنٹینرز لگا کر بند کرتے ہیں تو سبھی شہری متاثر ہوتے ہیں اور حکومت کو بُرا بھلا کہتے ہیں اس سے فائدہ کسے ہوتا ہے،اُس جماعت کو جو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ حکومت میں اعتماد نہیں اور وہ ہم سے ڈری ہوئی ہے۔ تحریک انصاف بجا طور پر خوش ہے کہ بالآخر پونے 2سال بعد اُسے لاہور میں پاور شو کرنے کا موقع مل گیا، 9مئی کے بعد لاہور میں جو خوف وہراس کی فضا پیدا ہوئی تھی وہ ختم ہو گئی۔کل تک اسی شہر میں پولیس کسی گھر میں ہونے والی سیاسی میٹنگ کو رکوانے کیلئے بھی پہنچ جاتی تھی، گرفتاریاں ہوتی تھیں اور تحریک انصاف کیلئے گویا زمین تنگ کر دی گئی تھی، مگر ایسی پالیسیاں زیادہ عرصے تک کارگر ثابت نہیں ہوتیں،کاہنہ کے جلسے سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ زور زبردستی سے کسی سیاسی جماعت کو ختم نہیں کیا جا سکتا نہ ہی اُس کی مقبولیت میں کمی ہوتی ہے،جو لوگ حکومت میں بیٹھ کر یہ احمقانہ فیصلے کر رہے ہیں جلسے کی اجازت آخر وقت پر دی جائے تاکہ تیاری کا وقت نہ ملے یا جلسے کے وقت کو محدود کر دیا جائے وہ درحقیقت حکومت کے خیر خواہ نہیں،بلکہ اصل مخالف ہیں اس قسم کے ہتھکنڈوں سے عوام کو جبر کا احساس ہوتا ہے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی جلسے میں شرکت کیلئے گھروں سے نکل پڑتے ہیں۔ ایک جلسے سے خوفزدہ ہونے کا تاثر دینا حکومت کیلئے کسی نیک نامی کا باعث نہیں بنتا،جلسے کے وقت کو کم کرنے کے سے کیا حاصل ہو سکتا ہے،سوائے اِس کے کہ حکومت عوامی پریشر نہیں دیکھنا چاہتی۔ تحریک انصاف کا مقصد لاہور میں جلسہ کرنا تھا وہ اس نے کر لیا۔یہ جلسہ 2گھنٹے کی بجائے 20گھنٹے بھی جاری رہتا تو اس کا اثر اتنا ہی ہونا تھا جتنا اب ہوا ہے،بلکہ اُس صورت میں شاید حکومت کی ساکھ بھی بچ جاتی۔یہ سلسلہ تو اب چلتا رہے گا، تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اڈیالہ جیل میں بیٹھے سیاست کے تار اسی طرح چھیڑتے رہیں گے پھر کسی دوسرے شہر میں جلسے کا حکم جاری کر دیں گے،پھر وہی تماشا لگے گا جو اب لگا ہے۔ تحریک انصاف کو تو اب زیادہ تردد بھی نہیں کرنا پڑتا۔عوام خود جلسے میں پہنچ جاتے ہیں اصل مسئلہ تو حکومت کیلئے ہے،جو اس الجھاوے میں پڑ جاتی ہے اجازت دی جائے یا نہ دی جائے،اجازت دی جائے تو کون سی مویشی منڈی تلاش کی جائے اور کتنے گھنٹے کی چٹھی جاری کر کے جلسے کو سکیڑ دیا جائے،حکومت کے اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت ایک نفسیاتی خوف میں مبتلا ہو چکی ہے، وہ سمجھتی ہے کہ تحریک انصاف نے جلسہ کر لیا تو شاید کرسی کو خطرہ لاحق ہو جائے۔جمہوری ماحول میں اگر جلسے ہوتے رہیں تو عوام کا کتھارسس ہوتا رہتا ہے،گھٹن بڑھے تو وہ زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔بحران کا حل ڈانگ سوٹے سے نہیں نکلتا،اس کے لئے سیاسی بصیرت اور سیاسی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔اس حقیقت کو جتنی جلد تسلیم کر لیا جائے اتنا ہی بہتر ہے،کیونکہ ملک مسلسل ایک بے یقینی میں مبتلا ہے،جس کے نقصانات معیشت کی بدحالی، امن و امان کی مخدوش صورتحال اور عوامی بے چینی کی شکل میں ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی آئینی تاریخ ہمیشہ سے سیاسی کھینچاتانی، عدالتی فیصلوں اور طاقتور حلقوں کی مداخلت سے متاثر رہی ہے۔ آئین جو کہ ملک کا بنیادی قانون ہے، اس کے ساتھ کھلواڑ ملک کے جمہوری اور قانونی ڈھانچے کو مسلسل نقصان پہنچاتا رہا ہے۔جس کے باعث نہ صرف جمہوری عمل کو زک پہنچی بلکہ عوام کے حقوق کو غصب کیا گیا اور ملکی ترقی کو بھی روکا گیااس قسم کی سیاسی چال بازیاں نہ صرف جمہوری اصولوں کی نفی ہیں بلکہ یہ ملک کو مزید انتشار اور غیر یقینی صورتِ حال کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔ آئینی ترامیم کے ذریعے سیاسی جماعتیں اپنے مفاداتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہی ہیں، جس سے قومی رہنماؤں اور سیاست کے پسِ پردہ اور سامنے کے کھلاڑیوں پر سے عوام کا اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے۔ حکمرانوں اور طاقت ور طبقے سے ٹکراؤ اور ملک میں بے یقینی کی فضا مزید نہ صرف گہری ہورہی، بلکہ معاملہ خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔عوام مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بدحالی سے نبرد آزما ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ حکمران اپنی توانائیاں آئینی کھیل تماشے کے بجائے عوامی ریلیف اور معیشت کی بحالی پر مرکوز کریں۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ آئینی کھلواڑ کے بجائے عوام کو ریلیف فراہم کرنے اور ملک کی معاشی بہتری سے گزرتا ہے۔ جب تک حکمران عوام کے مسائل حل کرنے اور معیشت کو بہتر کرنے پر توجہ نہیں دیں گے، اْس وقت تک نہ تو آئینی استحکام ممکن ہو سکے گا اور نہ ہی جمہوریت مضبوط ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں