محکمہ ماحولیات سندھ ، سیپا افسران کاشہر کی صنعتوں سے بھاری رشوت وصولی کا اعتراف
شیئر کریں
محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سیپا کے ڈی جی نعیم احمد مغل نے سیپا افسران، سیپا فیلڈ عملے اور نجی لوگوں کی جانب سے شہر کی صنعتوں سے بھاری رشوت وصول کرنے کا اعتراف کردیا، رشوت طلب کرنے والے سیپا افسران اور نجی عملے سے متعلق آگاہی دینے کی درخواست، پورٹ قاسم کے صنعتکاروں کو باضابطہ طور پر جاری لیٹر۔ جرأت کی خصوصی رپورٹ کے مطابق سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کے ڈائریکٹر جنرل نعیم احمد مغل نے پورٹ قاسم اتھارٹی کی حدود میں موجود بن قاسم ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے چیئرمین کو لیٹر ارسال کرکے اعتراف کیا ہے کہ سیپا کے افسران اور غیر سرکاری، نجی عملہ کراچی کے فیکٹریز، صنعتوں اور دیگر کاروباری مراکز کا دورہ کرکے رشوت طلب کرنے کے ساتھ غیر قانونی مطالبے کرتے ہیں، صنعتکاروں کی توجہ سیپا سے وابسطہ افسران کی جانب سے صنعتکاروں سے غیر قانونی مطالبات کرنے کی جانب سے مبذول کرواتے ہیں، کراچی میں صنعتکاروں سے سیپا کے نام پر اگر کوئی شخص رشو ت طلب کرے یا کوئی غیر قانونی مطالبہ کرے تو سیپا کے ڈائریکٹر جنرل نعیم احمد مغل، ڈائریکٹر ٹیکنیکل (ریجنل آفس سیپا) وارث علی گبول اور ڈائریکٹر ٹیکنیکل (ہیڈ آفس سیپا)عمران صابر سے رابطہ کرکے آگاہ کیا جائے تاکہ سیپا کے فیلڈ اسٹاف سے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔ سیپا کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیپا کے ڈی جی نعیم احمد مغل کے دو چہیتے ڈپٹی ڈائریکٹر کینیڈین شہری محمد کامران خان عرف کامران کیمسٹ، منیر عباسی اور سابق فرنٹ مین محمد حبیب اللہ عرف حبیب بہاری نے خود نجی لوگوں پر مشتمل ایسا عملہ تعینات کیا جو کہ شہر کی صنعتوں کے دورے کرکے روزانہ کی بنیاد پر صنعتکاروں سے بھاری رشوت وصول کرتا رہا، ماہانہ کروڑوں روپے رشوت وصولی کی نگرانی محمد کامران خان، منیر عباسی اور محمد حبیب اللہ کے ساتھ ساتھ سیپا کے فیلڈ افسران کرتے رہے، بعد میں جمع ہونے والے کروڑوں روپے سابق حکمران جماعت کے وزیر اور طاقتور ہاؤسز تک پہنچانے کا کام ڈی جی سیپا نعیم احمد مغل کے قریبی ساتھی کرتے رہے، کراچی کے صنعتکاروں سے کروڑوں روپے رشوت وصولی کی شکایات میں محمد کامران خان یا کامران کیمسٹ اور منیر عباسی کا نام آتا رہا اور دونوں افسران کے خلاف شکایتیں بھی کی گئیں جس پر منیر عباسی کا تبادلہ لاڑکانہ کیا گیا جبکہ محمد کامران خان کو تمام عہدوں سے فارغ کرکے لیبارٹری میں تعینات کیا گیا لیکن سیپا کے اعلیٰ افسران کی جیبیں خالی ہونے کے باعث دونوں افسران کو دوبارہ عہدوں سے نواز کر شہر سے وصولی شروع کی گئی۔