میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سائنس بھی بھارتی سیاست کی بھینٹ چڑھنے لگی

سائنس بھی بھارتی سیاست کی بھینٹ چڑھنے لگی

ویب ڈیسک
هفته, ۲۵ ستمبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

(مہمان کالم)

کرن دیپ سنگھ

بھارتی حکومت کی تسلیم شدہ اور حساب کتاب پر مبنی پیشگوئی بری طرح غلط ثابت ہوگئی۔ ستمبر 2020ء میں کووڈ کی دوسری مہلک لہر آنے سے 8 مہینے قبل‘ حکومت کے مقرر کردہ سائنسدانوں نے کہا تھاکہ کورونا وائرس کے دوبارہ پھیلنے کا زیادہ امکان نہیں ہے۔ سائنس دانوں نے ایک سٹڈی میں لکھا تھا کہ فوری لاک ڈائون کی وجہ سے پہلی لہر کا انفیکشن اور وائرس کا پھیلائو بہت کم ہو گیا ہے۔ گزشتہ سال جب یہ سٹڈی جاری کی گئی تو بھارتی نیوز میڈیا نے اس کی بھرپور کوریج کی تھی۔ ان نتائج کو بڑی مہارت سے وزیراعظم نریندر مودی کے دو اہم اہداف کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ اول: بھارت کی تباہ حال معیشت کا از سر نو آغازکرنا، دوم: موسم بہار میں ریاستی الیکشن میں ان کی جماعت کی انتخابی مہم کا آغاز کرنا۔ مگر انوپ اگروال‘ جو پیشے کے لحاظ سے ایک فزیشن ہیں اور بھارت کی اعلیٰ ترین سائنسی ایجنسی میں کام کر رہے ہیں، کی ایجنسی نے ہی اس ا سٹڈی کا ریویو اور اسے شائع کیا تھا مگر انہیں یہ تشویش لاحق تھی کہ اس سٹڈی کے نتائج بھارت کو ایک جھوٹ پر مبنی تحفظ اورسلامتی کے احساس میں مبتلا کر دیں گے۔
ڈاکٹر اگروال اکتوبر میں اپنی تشویش کو ایجنسی کے اعلیٰ ترین حکام کے نوٹس میں لے کر بھی آئے۔ اس پر یہ رد عمل آیا کہ ان سمیت ایک اور سائنسدان کی سخت سرزنش کی گئی۔ کووڈ کی دوسری تباہ کن لہر جس کے دوران ہزاروں (بعض ذرائع کے مطابق لاکھوں) بھارتی شہری لقمہ اجل بن گئے تھے‘ کے بعد بہت سے بھارتی لوگوں نے استفسار کیا کہ مودی حکومت نے کس طرح ایک سخت وارننگ کو نظر انداز کر دیا تھا؟ موجودہ اور سابق حکومت کے ریسرچرز اور ان دستاویزات‘ جن کا نیویارک ٹائمز نے بھی ریویو کیا تھا‘ کے مطابق سینئر حکام نے اہم اداروں کے سائنسدانوں کو مجبور کیا تھا کہ وہ کووڈ کی ہلاکت ا?فرینی کو گھٹا کر بتائیں تاکہ مودی حکومت کے سیاسی اہداف کو ترجیحی بنیاد پر حاصل کیا جا سکے۔ ڈاکٹر اگروال کا کہنا ہے کہ سائنس کو عوام کی مدد کرنے کے بجائے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ریسرچرز اور دستاویزا ت کے مطابق‘ ڈاکٹر اگروال کی ایجنسی ’’انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ‘‘ نے خطرات کی نشاندہی کرنے والے ڈیٹا کو ہی دبا دیا تھا۔ حکام نے سائنسدانوں پر ایک اور سٹڈی کو بھی واپس لینے کے لیے دبائو ڈالا تھا جس میں حکومتی اقدامات پر سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے تھے۔ ریسرچرز کے مطابق‘ اس کے ساتھ ہی ایجنسی کو اس تیسری سٹڈی سے بھی الگ کر دیا گیا تھا جس کا مقصد کووڈ کی دوسری لہر کا جائزہ لینا تھا۔
نیویارک ٹائمز کے ساتھ انٹرویو میں سائنس دانوں نے خا موش رہنے کے کلچر کا بھی ذکر کیا تھا۔ ریسرچرز کو خدشہ تھا کہ ا گر انہوں نے اپنے اعلیٰ حکام سے سوالات پوچھے تو انہیں پروموشنز کے چانس سے محروم کر دیا جائے گا۔ بھارت کے اعلیٰ ترین ماہر وبائی امراض اور سابق حکومت کے ایک مشیر شاہد جمیل‘ جو اس ایجنسی کے ناقدین میں شامل ہیں‘ کا کہنا تھا ’’سائنس ایسے ماحول میں نشو و نما پاتی ہے جہاں ا?پ ثبوت کے بارے میں کھل کر سوال کر سکیں اور غیر جذباتی اور بامقصد انداز میں اس پر بحث کر سکیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس وقت یہی بات ہر سطح پر نظر انداز کی جا رہی ہے‘‘۔ سرکاری ایجنسی نے ان تفصیلی سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ اپنے بیان میں اس نے کہا ’’وہ ایک اہم ریسرچ آرگنائزیشن ہے جس نے بھارت کی ٹیسٹنگ کی استعداد میں قابل قدر اضافہ کیا ہے‘‘۔ ایجنسی کی نگرانی کرنے والی بھارتی وزارتِ صحت نے بھی کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
بھارت شاید پہلا ملک ہے جہاں وائرس کی سائنس کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ اگرچہ امریکا میں بھی سیاست دانوں اور ویکسین کے مخالفین نے ڈس انفارمیشن اور میڈیا کی مدد سے کووڈ کی شدت کو گھٹا کر پیش کرنے کی کوشش کی تھی جہاں ویکسین لگوانے اور ماسک پہننے کی افادیت پر سائنٹفک اتفاقِ رائے کو چیلنج کیا گیا مگر بھارت اس پر بھی بازی لے گیا۔ چینی حکومت نے بھی کووڈ سے متعلق معلومات پر ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ ویکسین کے ناقدین کو سپین سے لے کر تنزانیہ تک‘ اپنے حامی مل گئے۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے جہاں صحت عامہ کے شعبے کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے اور اسے کووڈ کی دوسری لہر کو روکنے میں کافی مالی مشکلات پیش آتیں۔ ایک تیزی سے پھیلنے والے نئے ویری اینٹ نے اس کے وار تیز کر دیے۔ لوگوں نے ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ رکھنے کی وارننگ کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھا۔ بھارتی جنتا پارٹی کے ایک رکن وجے چوتھائی والا کے الفاظ میں ’’وزیراعظم نریند مودی نے تو کبھی حفاظتی اقدامات کم کرنے کے لیے نہیں کہا‘‘۔ پھر بھی حکومت نے صورتِ حال کو تسلی بخش رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کووڈ کی دوسری لہر شروع ہونے سے چند مہینے قبل جنوری میں نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ بھارت نے انسانیت کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔ اس وقت کے وزیر صحت ہرش وردھان نے مارچ میں کہا تھا کہ ملک میں کووڈ کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ آئی سی ایم آر نے‘ جو حکومت کی طرف سے ریسرچ منعقد کرتی اور اس کا ریویو کراتی ہے‘ ایسا تاثر پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ بھارت نے کورونا وائرس کے پھیلائو سے متعلق اپنا ڈیٹا جاری نہیں کیا جس کی وجہ سے سائنسدانوں کو ا سٹڈی کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اسی دوران ایجنسی ایسی ممکنہ قیاس آرائیاں بھی کرتی رہی جس سے ملک میں بحث میں تیز ی آ جاتی۔
اس ساری صورت حال سے آگاہ سائنسدانوں کے مطابق‘ بھارتی سیاست نے گزشتہ سال ہی ایجنسی کی اپروچ کو متاثر کرنا شروع کر دیا تھا۔ نریندر مودی کے قومی سطح کے لاک ڈائون کے نفاذ کے عین وسط یعنی اپریل 2020ء میں حکومت نے ایک تبلیغی اجتماع پر یہ الزام لگا دیا کہ اس کی وجہ سے کورونا پھیلنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی ہندو قوم پرستوں نے‘ جو نریندر مودی کے کٹر حامی سمجھے جاتے ہیں‘ مسلمانوں پر شدید حملے شروع کر دیے تھے۔ بھارتی میڈیا میں بھی مسلمانوں کو ہی معطون ٹھہرایا جا رہا تھا۔ غصے اور اشتعال کی اسی فضا میں سائنس ایجنسی نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا کہ مسلمانوں کے اس اجتماع نے کووڈ کی روک تھام کی کوششوں کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ ایک نیوز آئوٹ لیٹ نے ایجنسی کے سورس کی وساطت سے یہ کہنا شرو ع کر دیا کہ اس اجتماع نے لاک ڈائون سے ملنے والے تمام فوائد کو زیرو کر دیا ہے۔ اس وقت کے چیف سائنٹسٹ رامن گنگا کھیڈکر نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ تبلیغی اجتماع پر الزام تراشی میرے لیے غیر متوقع اور حیرانی کا باعث ہے
دی ٹائمز کو اپنے انٹرویو میں ڈاکٹر گنگا کھیڈیکر نے کہا کہ میں نے تو ان سرکاری بیانات کے خلاف اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا جس میں حکومت مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی تھی مگر ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل بلرام بھرگاوا نے مجھے کہا کہ اس مسئلے پر آپ کو زیادہ تشویش نہیں ہونی چاہئے۔ ڈاکٹر بھرگاوا سے جب اس بابت پوچھا گیا تو انہوں نے اس الزام پر اپنا ردعمل دینے سے انکار کر دیا۔ لاک ڈائون سے بھارتی معیشت کو سنگین نقصان اٹھانا پڑا۔ جب اس میں کمی ہوئی تو نریندر مودی نے معیشت کی بحالی کے ساتھ ساتھ اپنی انتخابی مہم کے لیے اقدامات شروع کر دیے۔ ایجنسی کے ریسرچرز کے مطابق حکومتی سائنسدانوں نے اس کی راہ ہموار کرنے میں ہر طرح کی مدد کی۔
جون 2020ء میں ایجنسی کی منعقد کردہ سٹڈی میں یہ بتایا گیا کہ مودی حکومت کے لاک ڈائون نے کووڈ کے پھیلائو کی رفتار ضرور کم کر دی تھی مگر اسے مکمل ختم نہیں کیا تھا۔ چند دنوں کے اندر اندر ریسرچرز کو اپنی سٹڈی واپس لینا پڑی۔ ا سٹڈی کے ایک لکھاری نے بتایا کہ اس سٹڈی کے لکھاریوں کو اپنی رپورٹ ایجنسی کے ان لیڈرز کے دبائو پر واپس لینا پڑی تھی جنہوں نے اس کے نتائج پر سوالات اٹھائے تھے اور شکایت کی تھی کہ ان کے ریویو کرنے سے پہلے ہی اس سٹڈی کو شائع کر دیا گیا تھا۔ سائنسدانوں کے خیال میں یہ ایک غیر معمولی اقدام تھا۔ ان کی رائے تھی کہ سٹڈی کو واپس لینے کے بجائے ایجنسی اس کی ناقص زبان کی مزید تراش خراش کر سکتی تھی۔
جولائی 2020ء میں ڈاکٹر بھرگاوا نے ایجنسی کے سائنسدانوں کے لیے دو ڈائریکٹوز جاری کیے جو ان کے ناقدین کے خیال میں سیاسی پس منظر رکھتے تھے۔ پہلے ڈائریکٹو میں کئی اداروں سے کہا گیا تھا کہ وہ کورونا وائرس کے لیے بھارتی سائنسدانوں کی تیار کردہ ویکسین کی 6 ہفتے کے اندر اندر منظوری دیں۔ 2 جولائی کے میمو میں‘ جسے دی ٹائمز نے ریویو بھی کیا تھا‘ ڈاکٹر بھرگاوا کا کہنا تھا کہ ایجنسی کا ہدف تھا کہ 15 اگست تک ویکسین کی منظوری دے دی جائے۔ یہ بھارت کا یومِ آزادی تھا اور نریندر مودی اکثر خود کفالت کی طرف جانے کی بات کرتے تھے۔ میمو کے آخر میں لکھا تھا ’’یاد رکھیں! ہدایات پر عمل نہ کرنے پر سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘‘۔ ان ہدایات پر ایجنسی کے سائنسدان پریشان ہو گئے۔ دیگر ممالک کی ریگولیٹر ایجنسیاں اپنے ملک میں تیار کردہ ویکسین کی منظوری دینے سے ابھی مہینوں دور تھیں۔ جب ویکسین کا ٹائم ٹیبل عام کر دیا گیا تو ایجنسی کے اعلیٰ حکام ساری باتوں سے مکر گئے۔
ڈاکٹر بھرگاوا کے دوسرے ڈائریکٹو میں سائنسدانوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ سارا ڈیٹا روک لیں جس میں یہ کہا گیا تھا کہ 10 شہروں میں ابھی تک کورونا وائرس پھیل رہا ہے۔ یہ ڈیٹا ایجنسی کے سیرولوجیکل سٹڈی (بلڈ سیرم کا مطالعہ) سے لیا گیا تھا جس میں خون کے سیمپلز میں موجود اینٹی باڈیز کی بنیاد پر بیماری پر تحقیق کی گئی تھی۔ وائرس کو روکنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ڈیٹا سے پتا چل رہا تھا کہ دہلی اور ممبئی سمیت کئی شہروں میں انفیکشن کی شرح بہت زیادہ تھی۔ 25 جولائی کی اپنی ای میل میں ڈاکٹر بھرگاوا نے سائنس دانوں کو بتایا تھا ’’میں ابھی تک اس ڈیٹا کو شائع کرنے کی منظوری نہیں لے سکا۔ آپ سب ایک آئیوری ٹاور میں بیٹھے ہیں اور معاملے کی حساسیت کو نہیں سمجھ رہے، میں حقیقت میں بہت مایوس ہوا ہوں‘‘۔
اس ا سٹڈی پر کام کرنے والے ایک فزیشن نعمان شاہ نے کہا کہ ڈیٹا کو واپس لینا سائنس اور جمہوریت کے خلاف کام کرنے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’یہ وہ حکومت ہے جس کی اپنی ایک تاریخ اور نظریہ ہے کہ وہ ہر ادارے پر قبضہ کرکے اور اسے سیاسی جنگ کا اکھاڑہ بنا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے‘‘۔ ایجنسی کے جاری کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر حکام اپنے ملک اور پوری دنیا کے سامنے یہ غلط موقف پیش کرتے رہے کہ بھارت میں کورونا وائرس اس شدت سے نہیں پھیل رہا جیسے یہ امریکا، برازیل، اٹلی، برطانیا اور فرانس میں پھیل رہا ہے۔
پھر گزشتہ موسم خزاں میں ایجنسی نے ایک ناقص سٹڈی کی منظوری دی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کووڈ کی بدترین لہر گزر چکی ہے۔ اس سٹڈی‘ جو بھارت میں سپر ماڈل کے طور پر شہرت رکھتی ہے‘ کے مطابق فروری کے وسط تک بھارت میں کووڈ کا زور ٹوٹ جائے گا۔ اس نے نریندر مودی کے 2020ء کے پہلے لاک ڈائون کا حوالہ دیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ امید ہے بھارت ہرڈ امیونٹی کے لیول تک پہنچ جائے گا کیونکہ 350 ملین شہریوں میں پہلے ہی انفیکشن ہونے کی وجہ سے اینٹی باڈیز بن چکے ہیں۔ ڈاکٹر اگروال اور دیگر افراد‘ جو اس پروگریس سے آگا ہ تھے‘ کا کہنا تھا ’’سائنس ایجنسی نے اس ا سٹڈی کی منظوری دینے میں بہت جلدبازی کا مظاہرہ کیا‘‘۔ ایجنسی کے اندر اور باہرکے سائنسدانوں نے اس ا سٹڈی کا الگ الگ جائزہ لیا۔ دیگرممالک میں سے ابھی تک کوئی بھی ہرڈ امیونٹی کے قریب نہیں پہنچا تھا۔ ابھی تک بھارتی شہریوں کی اکثریت کو انفیکشن نہیں ہوا تھا۔ اس سٹڈی کے ریسرچرز میں سے کوئی بھی ماہر وبائی امراض نہیں تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس سٹڈی کے ماڈل کو مخصوص مطلوبہ نتائج کو مدنظر رکھ کر ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ایک ریٹائرڈ سائنسدان سوم دِتّا سنہا کے مطابق ’’ان کے پیرا میٹرز ہی ایسے تھے جن کی پیمائش ممکن نہیں تھی اور جب ان کی کرو (Curve) میچ نہیں کرتی تھی تو وہ پیرا میٹر ہی تبدیل کر دیتے تھے۔ ہم کبھی اس طرح کی ماڈلنگ نہیں کرتے۔ یہ تو لوگوں کو گمراہ کرنے والی بات ہے‘‘۔
ڈاکٹر اگروال کہتے ہیں کہ میں نے اکتوبر میں ڈاکٹر بھرگاوا سے اپنی تشویش کا اظہار کیا تو اس نے مجھے کہا ’’یہ تمہاری سر دردی نہیں ہے‘‘۔ بعد میں ڈاکٹر بھرگاوا نے ایک اور سائنسدان کو بلا لیا جس نے اس ا سٹڈی کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ہم دونوں کی سخت سرزنش کی گئی۔ جنوری 2020ء میں شائع ہونے والی ایک سٹڈی میں بھی کووڈ کی دوسری لہر کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ ایک جرنل ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی اس سٹڈی میں بھی کہا گیا تھا کہ اگر بلا سوچے سمجھے پابندیاں اٹھائی گئیں تو کووڈ کی ایک شدید لہر آ سکتی ہے۔ دوسری لہر اپریل میں آئی تھی جس کے بعد ہسپتال مریضوں سے بھر گئے تھے۔ بھارتی ہیلتھ حکام نے ایسا طریقہ علاج تجویز کر دیا جو حکومت کے اپنے سائنسدانوں کے مطابق غیر موثر تھا۔
ان میں ایک بلڈ پلازما تھا۔ ڈاکٹر اگروال اور ان کے رفقا نے کئی مہینے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ بلڈ پلازما کووڈ کے مریضوں کے لیے نہیں ہے۔ ایجنسی نے مئی میں ہی ان سفارشات کو مسترد کر دیا تھا۔ بھارتی حکومت ابھی تک ایک دوسرے علاج کے لیے کہہ رہی ہے یعنی بھارت کی بنی ہوئی ملیریا کی دوائی ڈی ہائیڈرو کلورو کوئین استعمال کی جائے حالانکہ سائنسی ثبوتوں کے مطابق‘ یہ بھی کووڈ کے لیے غیر موثر ہے۔ متاثرہ فیملیز ان دونوں ادویات کے حصول کے لیے ماری ماری پھر رہی تھیں جس کے نتیجے میں بلیک مارکیٹ میں ان کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگیں۔ ڈاکٹر اگروال نے اکتوبر میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور ا?ج کل بالٹی مور میں بطور فزیشن کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ایجنسی کے ساتھ اپنے تجربات کی وجہ سے مستعفی ہوکر بھارت چھوڑنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا ’’ا?پ جس کام کو جانتے ہیں‘ جب اس کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں تو آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں