ٹرمپ کا پنگا اور پاکستانی قیادت
شیئر کریں
امریکی دانشور نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ امریکا ان عالمی قوتوں کا سرغنہ ہے جو چھوٹی اقوام پر دہشت گردی مسلط کر رہی ہیں ۔ امریکا دنیاکا واحد ایسا ملک ہے جسے نکاراگوا میں دہشت گردی پھیلانے کے الزام میں عالمی عدالت انصاف نے مجرم ٹھہرایاتھا ۔‘‘ آگے چل کر نوم چومسکی نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکاکا طرزعمل مافیا کے سربراہ جیسا ہے ۔ امریکا نے مکمل طور پر اقوام متحدہ کا احترام ترک کر دیا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنی دہشت گردانہ پالیسی دنیا بھر میں چلانا چاہتا ہے ۔۔ ‘‘
امریکی اسکالر نے یہ سب کچھ برسوں پہلے اُس وقت کہا تھا جب امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ بر سرِ اقتدار نہیں تھے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے پہلے بھی امریکی حکمران تقریباً ایسا ہی امتیاز رکھتے تھے ۔ عالمی سیاست میں پاکستان اپنی جغرافیائی اور سیاسی پوزیشن اور اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ عالمی سازشوں کا شکار چلا آر ہا ہے ۔ ہم ان تمام چیلنجوں کا بآسانی مقابلہ کرسکتے تھے بشرطیکہ ہماری قیادت اہل اور جرات مند ہوتی ۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم کے بعد پاکستان میں کوئی ایسا حکمران نہیں آیا جو امریکا سے معاملات کو برابری کی سطح پر طے کر سکے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دو روز قبل جس غیر مہذب انداز میں دنیا کی آٹھویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت پر وار کیا ہے اُس کے جواب میں پاکستانی حکومت کی جانب سے جس بزدلانہ طرز عمل کا اظہار سامنے آیا ہے اُس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے ہاں قائدین کی بہتات کے باوجود قیادت کا شدید ترین بحران ہے ۔ رہنماؤں کی صورت میں یہ قوم جو بوجھ اُٹھائے ہوئے ہے وہ ہم پر قدرت کے عذاب کے سوا کچھ نہیں ۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر خارجہ خواجہ آصف چوبیس گھنٹے سے زائد وقت سکتے کے عالم میں نظر آئے ۔ مولانا فضل الرحمن یہود و نصاریٰ کی اس دھمکی پر دم بخود رہے ۔ ایک دیوانہ عمران خان تھا جو بغیر کسی توقف کے امریکی دھمکی کے خلاف میدان ِعمل میں آیا ۔امریکی خوف سے لڑ کھڑاتے لیڈروں کی کھیپ میں سے خود الگ کرتے ہوئے اُس نے جو کچھ کہا اُس کی چمک پاکستان کروڑوں لوگوں کے روشن چہروں پردیکھی جا سکتی ہے ۔
امریکا کے معاملے میں عمران خان نے ہمیشہ جرات مندانہ موقف اختیا ر کیا ۔یہی وجہ ہے کہ امریکی انتظامیہ پاکستانی سیاست میں اس کے مخالفین کو اپنی توجہ کا مرکز ٹہراتی ہے ۔اسلام آباد کے ڈی چوک کے دھرنے کے دنوں میں جہاں آصف علی زردار ی میاں نواز شریف کی حمایت میں نکلے تھے وہاں امریکیو ں نے اُس وقت نواز شریف کوجائز وزیر اعظم قرار دیا تھا ۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی ہرزہ سرائیوں اور دھمکیوں کے جواب میں بہت کچھ لکھااور کہا جا رہا ہے ،یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔ اس کے پس منظر میں پاکستانی قوم کو اپنی اصلاح اور احتساب پر توجہ بھی دینا ہوگی اور اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ہم نے کس قماش کے طبقے اور جتھے کو اپنی قیادت کی دستار پہنائی ہوئی ہے ۔ یہ سب بر صغیر کے اُس طبقے کا تسلسل اور عکس ہیں جنہوں نے اس خطے کے لوگوں کو انگریز کی غلامی میں دھکیلا تھا اور جب انگریز کی غلامی مقدر بنی تو یہ اُس سے نکلنے کی بجائے تاج برطانیا کے سائبان کو خوش بختی قرار دیتے نظر آتے تھے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کے موقع پر اپنے حکمرانوں ، سیاسی قیادت اور ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے بعض سر خیلوں کے چہروں میں مجھے تاریخ کا وہ عکس بار بار نظر آ رہا تھا جسے کم سے کم سخت الفاظ میں بے حمیتی کہا جا سکتا ہے ۔ ماضی کے جھرونکوں میں جھانکا جائے تو مولانا ظفر علی خان کے اخبار ’’ زمیندار ‘‘ کا یہ سرنامہ سامنے آجاتا ہے ۔
روزانہ
زمیندار لاہور
تاج برطانیا کا نشان خنجر
تُم خیر خواہ ِ دولتِ برطانیہ رہو
سمجھیں جناب قیصرِ ہند اپنا جانثار
تیغوں کے سایہ میں ہم پل کر جوان ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
ایڈیٹر ظفر علی خان بی اے علی گڑھ
23 جون 1911 ء کو یاد کیا جائے تو بادشاہی مسجد لاہور سامنے آجاتی ہے ۔ انجمن اسلامیہ لاہورکے جنرل سیکرٹری خان محمد بشیر خان کے ان الفاظ کی بازگشت سماعتوں کو بوجھل کرتی محسوس ہوتی ہے کہ ’’ یہی شاہی مسجد جس میں اس وقت یہ جلسہ ہو رہا ہے بطور اصطبل استعمال ہوتی تھی مگر اب انگریزی حکومت میں مسلمانوں کو عبادت کے لیے واپس مل گئی ہے ‘‘ ۔۔ یہ جلسہ کیسا تھا ؟ یہ انگریز بادشاہ جارج کے جشن تاج پوشی کے سلسلہ میں تھاجسے لاہور کے مسلمان شاہی مسجد میں منارہے تھے ۔ اس جشن کو منانے کے لیے جو اشتہار شائع ہوا تھا ۔ اس کا عنوان تھا۔’’ لاہور میں کارونیشن ڈے ( یوم تاجپوشی ) کی اسلامی رسوم ‘‘ اس جلسہ کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اسی جلسہ میں علامہ اقبال ؒ اپنی یہ نظم بھی سناتے نظر آئے کہ
ہمائے اوجِ سعادت ہے آشکار اپنا
تاج پوش ہوا آج تاجدار اپنا
اسی سے عہد ِ وفا ہندیوں نے باندھا ہے
اسی کی خاک قدم پر ہے دل نثار اپنا
یہ سب سچی اور بے آمیز تاریخ کا حصہ ہے لیکن یہ تاریخ ہمارے ہاں طالب علموں سے دور رکھی جاتی ہے ۔ بات بڑھے تو پھر یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تاریخ مسلمانوں کے مخالفوں کی کارستانی ہے ۔ لیکن یہ سب حقائق ہیں آج بھی ہم ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں ۔ ہمارے ہاں آج بھی جو علمائے اسلام اور مصلحان ملت اور قائدین سیاست ہیں وہ یہ قرانی حکم بھول چُکے ہیں کہ ’’ اے اہل ایمان یہود و نصاریٰ سے دوستی نہ کرو‘‘۔۔( سورہ المائدہ 51 ) ۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو موجودہ لہجہ اور انداز تخاطب اختیار کرنے کا حوصلہ ہمارے موجودہ حکمرانوں نے دیا ہے ۔ ایک خاندان کے اقتدار کو دوام بخشنے اور انہیں ان کی مالیاتی لغزشوں سے محفوظ کرنے پر تمام توجہ اور وسائل صرف کیے جا رہے ہوں تو ریاست کا خارجہ اُمور میں مات کھا جانا فطری امر ہوتا ہے ۔ہسپانیہ کے مسلمانوں کی تاریخ اس کی گواہی کے لیے کافی ہے۔افسوس صد افسوس کہ پاکستان کو خارجہ محاذوں پر اس وقت پے در پے جن مشکلات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے اس کی ذمہ دار وہ قیادت ہے جو اپنی کوتاہ نظری اورقیادت کی صفات سے محرومی کی بدولت اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش میں امریکی استعمار اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا پرچم اپنے سروں پر لہراتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔
عالمی سطح پر بدلتی صورتحال میں پاکستانی عوام اور قیادت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جرات اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ پر یہ واضح کریں کہ ماضی میں ہم ولیم کلنٹن ، جنرل ویسلے کلارک ، جارج بُش، جنرل کولن پاول ، جنرل نارمن شیوارزجوف ، رونالڈ ریگن ، ایلیٹ ابرامز، کیسپروین برگر ، لیفٹیننٹ کرنل آلیورنارتھ ، ہنری کسنجر ، جیرالڈفورڈ ، رابرٹ میک نمارا، جنرل ولیم ویسٹ مور لینڈ جیسے امریکیوں کا دور گزار چکے ہیں ایک ایسا شخص جسے خود اپنے ملک امریکا میں متنازع حیثیت حاصل ہے اور منتخب ہونے کے بعد سے مواخذے کی تلوار اُس کے سر پر لٹک رہی ہے وہ پاکستان کو دھمکا نہیں سکتا ۔
پاکستانی افواج اور قوم جرات اور جسارت کے جذبے کی امین ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن ا سٹیٹ کے طور پر سب سے زیادہ قربانیا ں دینے والے پاکستانی ہی ہیں ۔ اس قوم کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔ امریکیوں کو یہ باور کرانا بھی ضروری ہے کہ جنرل کولن پاول کی ایک کال پر ڈھیر ہونے والے جنرل پرویز مشرف اور امریکا کے سابق صدر بارک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے فدویانہ طرز عمل اختیار کرنے والے نواز شریف اس قوم کا حقیقی عکس نہیں ہیں ۔ یہ دھرتی غازیوں ، شہیدوں اور جواں مردوں کی سرزمین ہے جس کی تاریخ قربانیوں سے لہورنگ بھی ہے اور جانفزا بھی ۔۔