آئی پی پیز معاہدے اور پاکستان
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
اگر کوئی یہ پوچھے کہ ترقی اور قرضوں سے نجات کے لیے پاکستان کو فوری طورپر کیا کرنا چاہیے تواکثر معاشی ماہرین کا جواب ہوتا ہے، پاکستان نے اگر ترقی کرنی ہے اور اندرونی و بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرنی ہے تو آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی کرناہوگی ،وگرنہ کوئی اور ایسا طریقہ نہیں جس سے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر لایا جا سکے کیونکہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرزکے ساتھ اِتنے مہنگے معاہدے کیے گئے ہیں کہ پاکستان میں بجلی خطے کے تمام ممالک سے زیادہ مہنگی ہوگئی ہے حالانکہ صنعتوں کوفروغ دینا ہے تاکہ برآمدی پیداوار میں اضافہ ہو تو سستی بجلی ناگزیر ہے مگر پاکستان میں صنعتی شعبے کوسترہ سینٹ(ڈالر)کے حساب سے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ نرخ خطے میں تمام ممالک سے زیادہ ہیں اِس وقت زیادہ ترسرمایہ کاروں کارجحان بھارت اور بنگلہ دیش کی طرف ہے کیونکہ وہاں نہ صرف بجلی بغیر کسی وقفے کے چوبیس گھنٹے میسر ہے بلکہ سستی بھی ہے۔ صنعتی شعبے کے لیے بجلی کی قیمت بھارت میں چھ سینٹ اوربنگلہ دیش میں 8.6ہے اسی لیے مذکورہ دونوں ممالک پاکستان کو صنعتی شعبے میں مات دے چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی 1991تک ساٹھ فیصد بجلی پانی سے پیداکی جاتی تھی جو نہ صرف سستی تھی بلکہ یہ طریقہ ماحول دوست بھی تھا لیکن اب پانی سے بجلی کی پیدوار محض 26فیصد رہ گئی ہے کیونکہ ملک کاانحصار مہنگے اور درآمدی فیول سے بجلی پیداکرنے والے آئی پی پیز پر بڑھ گیا ہے۔ مزید ستم یہ کہ آئی پی پیز کے کئی ایسے منصوبے ہیں جو ایک یونٹ بجلی پیدا کیے بغیر ہی ماہانہ اربوں روپیہ وصول کر رہے ہیں۔ ایسی ہی حماقتوں سے گردشی قرضہ تین ہزار ارب کے قریب جا پہنچا ہے مگر حکمران چُپ ہیں ظاہر ہے اِس واردات میں حکومت کے بااختیارلوگ شامل ہوں گے وگرنہ ایسے حالات میں جب صنعتیں بند اور کاروبارتباہی کے دہانے پر پہنچ چکے گھریلو صارفین بل اداکرنے کی سکت نہ ہونے پر بلبلا رہے ہیں مگر کسی کوپرواہ ہی نہیں کہ تباہی دستک دینے لگی ہے اب تو ثابت ہو چکا کہ پاکستان اور آئی پی پیز معاہدے ایک ساتھ نہیں چل سکتے اگر ملک کو بچانا ہے تو آئی پی پیز معاہدوں پر فوری نظر ثانی کرنا ہوگی ۔
عوامی حلقوں میں ایک عام خیال یہ پایاجاتا ہے کہ آئی پی پیز کے زیادہ ترمالکان کا تعلق بیرونِ ملک سے ہے اسی لیے اُنھیں عوام اور ملکی مفاد سے کوئی سروکار نہیں لیکن اِس خیال میں جزوی صداقت ہے بجلی کے معاہدے چالیس خاندانوں سے کیے گئے جن میں سے اسی فیصد پاکستانی اور صرف بیس فیصد غیر ملکی ہیں یہ جو بیس فیصد غیر ملکی ہیں اُن کے بارے میں بھی ایسی اطلاعات ہیں کہ اُن کی آڑ میں بھی پاکستانی ہی ہیں جنھوں نے بیرونِ ممالک کمپنیاں بناکرپاکستان سے معاہدے کیے اورمہنگی بجلی دے کر ملک لوٹ مارکا ایسا بازارگرم کر رکھاہے کہ صنعت وزراعت بھی تباہ ہوچکی ہیں انفرادی مفاد کے لیے اپنے ہی ملک کو تباہ کرنے کی دنیامیں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی ایک اورحیران کُن بات یہ ہے کہ ملک میںخواہ کوئی بھی جماعت اقتدارمیں آجائے سب آئی پی پیز معاہدوں کا تحفظ کرتی ہیں کوئی بھی مہنگے معاہدوں پرنظرثانی میں دلچسپی نہیں لیتی۔ ظاہرہے جب تمام جماعتوں میں شامل بڑے بڑے سرمایہ دار بجلی معاہدوں کی آڑ میں لوٹ مارکرتے اور اہم لوگوں کو مناسب حصہ دیتے ہیں توکوئی نظرثانی کیوں چاہے گا؟ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر جماعت اور نئی آنے والی حکومت آئی پی پیز کے مفادات کی نگہبانی کرے؟ایک اور اہم ترین بات جو اپنے قارئین کے علم میں لانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ 130آئی پی پیز معاہدے مسلم لیگ ن کی 2013سے 2018کی حکومت نے کیے اور اکثریہ جو دعویٰ کیا جاتا ہے کہ شریف خاندان نے توانائی کی قلت ختم کی اور ملک سے اندھیر ے دورکیے غیرحقیقی ہے۔ اِس آڑ میں کھربوں روپیہ کیسے ملکی خزانے سے سرمایہ کاروں کی جیب میں چلا گیا۔ اِس واردات کاکبھی اعتراف نہیں کیاگیا ،دوسرے نمبر پر راجہ پرویز اشرف رہے جنھوں نے 48کمپنیوں کواجازت دے کر کیا کچھ حاصل کیا۔یہ بھی ہنوز صیغہ راز میں ہے ۔پیپلز پارٹی بھی اِس ظلم ِ عظیم میں کسی سے پیچھے نہیں رہی جس نے35کمپنیوں کواجازت نامے دیکرمالی مفاد حاصل کیاجبکہ ایسی نوازشات میں تحریکِ انصاف بھی پیچھے نہیں رہی، اُس کی دیانتدارحکومت نے 30کمپنیوں کو مال بنانے کا موقع فراہم کیااسی لیے جس بھی جماعت کی ملک میںحکومت آجائے آئی پی پیز پر کوئی ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کرتا بلکہ سبھی تحفظ دیتے ہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ بجلی نرخ بڑھا کر لٹیروں کو مال بنانے کے مواقع فراہم کرنے کی بجائے حکومت مہنگے معاہدوں پر نظرثانی کرے اور دوبارہ پانی سے سستی بجلی بنانے پرتوجہ دے جو کمپنیاں بجلی پیداکیے بغیرماہانہ اربوں وصول کررہی ہیں، نہ صرف اُن سے وصول کی گئی رقم واپس خزانے میں جمع کرائی جائے بلکہ بلیک لسٹ بھی کیا جائے ۔
دنیاکی تمام حکومتیں سرمایہ داروں کو سرمایہ کاری کی دعوت دیتی ہیں لیکن پاکستان میں جس قسم کی سرمایہ کاری کرائی جارہی ہے ایسی سرمایہ کاری کی کوئی ملک اجازت نہیں دیتا یہ تو ایسا ہی ہے کہ اپنی جیب کاٹنے کے لیے پیش کرتے ہوئے سہولتیں بھی دی جائیں سابق نگران صوبائی وزیر صنعت پنجاب ایس ایم تنویر اپنے دونوں پاور پلانٹس کی بجلی کے نرخوں پر نظرثانی کرنے پر آمادہ ہیں مگر حکومت اِس پیشکش سے فائدہ نہیں اُٹھا رہی ظاہرہے اِس طرح تو دیگر کمپنیوں کو بھی ایسا کرنے پر آمادہ کرناپڑے گا۔ ایس ایم تنویر نے تو یہ بھی کہا ہے کہ پچاس ارب سرمایہ کاری سے چارسوارب کمائے ہیں یہ اعتراف ایک سرمایہ دار ہے اندازہ لگائیں دیگر نے کیا واردات ڈالی ہوگی؟ بے نظیر بھٹو سے لیکر نواز شریف تک سب نے آئی پی پیز کے مفاد کا تحفظ کیالیکن اب جبکہ کچھ کمپنیاں بجلی نرخوں میں کمی کرنے پر تیار ہیں تو حکومت اِس پیشکش کو قبول کرنے سے کیوںہچکچارہی ہے ۔ اِس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ ملک یا عوامی مفاد کے تحفظ کی باتیں محض ڈھونگ ہیں اور سب کوحصہ وصول کرنے میں دلچسپی ہے اگر موجودہ حکمران دیانتدار ہیں اور عوام سے حقیقی اخلاص رکھتے ہیں تو آئی پی پیز معاہدوں پر اولین فرصت میں نظرثانی کرائیں وگرنہ عوام کویہی پیغام ملے گا کہ انفرادی مفادپر ملک اور عوام کے مفاد کی قربانی ہی اِن کابھی منشور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔