ملک میں ہجومی تشدد کی نئی لہر
شیئر کریں
معصوم مرادآبادی
عام انتخابات میں مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہونے کے بعد سنگھ پریوار میں بو کھلاہٹ پیدا ہوگئی ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف ماحول گرم کرکے ہندو ووٹ حاصل کرنے کی حکمت عملی بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی ہے ۔ ایسا محسو س ہوتا ہے کہ اب نفرت کی سیاست کے ناکام ہونے کا انتقام مسلمانوں سے لیا جارہا ہے ۔ملک کے مختلف حصوں میں گزشتہ دوہفتوں کے دوران ہجومی تشدد کی پے درپے وارداتیں ہوئی ہیں جن میں مسلم نوجوانوں کو انتہائی سفاکی سے ہلاک کردیا گیا ہے ۔ سب سے تازہ واردات اترپردیش کے علی گڑھ شہر میں ہوئی ہے جہاں اورنگ زیب نامی نوجوان کو چور قرار دے کر اس بری طرح پیٹا گیا کہ اس کے جسم کے چتھڑے اڑگئے ہیں۔اس کے علاوہ ملک کے کئی حصوں میں عیدالاضحی کے موقع پر گؤ رکشکوں نے قہربرپا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ واضح رہے کہ ملک میں عام انتخابات اور مرکزمیں تیسری بار مودی سرکار بننے کے بعد یہ پہلی عیدقرباں تھی، جس میں گؤرکشکوں نے کھل قتل وغارتگری کا مظاہرہ کیا ہے ۔ یہاں تک کہ بعض علاقو ں میں تشدد کی وارداتوں کے بعد کرفیو نافذکیا گیا ہے ۔چھتیس گڑھ میں گؤکشی کا جھوٹا الزام عائد کرکے گؤ رکشکوں نے تین مسلم نوجوانوں کی جانیں لے لی ہیں اور کئی جگہ بے قصور مسلمانوں کو جارحیت کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اڑیسہ کے بالاسور ضلع میں قربانی کے خون پرایسا وبال مچاکہ وہاں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔اڑیسہ میں بی جے پی نے پہلی بار اقتدار حاصل کیا ہے اور یہ اقتدار وہاں کی پرامن آبادی میں جارحانہ ہندوتوا کی جوت جگاکر حاصل کیا گیا ہے ، اس لیے وہاں صورتحال بے قابو ہوگئی ہے۔ نوین پٹنائک پچیس برس سے اڑیسہ میں برسر اقتدارتھے ، لیکن کبھی کوئی فرقہ وارانہ جھڑپ نہیں ہوئی۔ بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی وہاں کا ماحول اس حد تک گرم ہوگیا ہے کہ ہندتو وادیوں نے نالیوں میں بہتے ہوئے قربانی کے خون کو دیکھ کر پتہ لگالیا کہ یہ گائے کا خون ہے ۔ظاہر ہے جب نفرتوں نے ذہنوں میں ڈیرے جمالیے ہوں تو اس کا نتیجہ یہی برآمد ہوتا ہے ۔
اڑیسہ کے علاوہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاست مدھیہ پردیش میں بھی گؤرکشکوں نے دہشت مچائی ہے ۔ مدھیہ پردیش کے ایک گاؤں میں گؤکشی کا الزام لگاکر ایک درجن مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلادیا گیا ہے اور انھیں اس شدید گرمی کے موسم میں بے گھر کردیا گیا ہے ۔یہ کام وہاں کی انتظامیہ نے انجام دیا ہے ۔ گویا گؤرکشکوں اور سر کار دونوں کی سوچ یکساں ہے ۔ اس واقعہ نے 2015 میں اترپردیش کے دادری میں اخلاق کے وحشیانہ قتل کی یاد دلادی ہے ۔یہاں بھی عیدلاضحی کے موقع پر محمداخلاق کو اس بنیاد پر وحشیانہ انداز میں قتل کردیا گیا تھا کہ اس کے گھرکے فریج میں گائے کا گوشت ہونے کی افواہ اڑادی گئی تھی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حالیہ پارلیمانی چناؤ میں اپنی کمزور کارکردگی کا انتقام بی جے پی مسلمانوں سے لے رہی ہے ۔ مرکز میں تیسری بار وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت میں بی جے پی کی سرکار تو بن گئی ہے ، لیکن پچھلی دوبار کی طرح بی جے پی کو اپنے بل پر اکثریت حاصل نہیں ہوسکی ہے ۔ اس کا قصور ان مسلمانوں کے سر ڈالا جارہا ہے جنھوں نے متحد ہوکر انڈیا اتحاد کو ووٹ دیاہے اور بی جے پی کو اتحادیوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔حالانکہ یہ خود وزیراعظم کی انتخابی تقریروں کا ہی اثر تھا جو مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنارہے تھے ۔اس کا مقصد ہندو ووٹ کو متحد کرنا تھا، لیکن وزیراعظم کی تقریروں کا الٹا اثر ہوا۔ ہندو ووٹ تو ذات پات میں بٹ گیا لیکن مسلمانوں نے متحد ہوکر اپنا ووٹ انڈیا اتحاد کے امیدواروں کو دے کر اس کی کامیابی کی راہ ہموار کردی۔
بی جے پی اپنی ناکامیوں کا ٹھیکراہمیشہ دوسروں کے سرپھوڑتی ہے لہٰذا اس بار بھی یہی ہوا کہ اپنی خراب کارکردگی کا قصور مسلمانوں کے سر ڈال دیا گیا اور ان سے انتقام لینے کا عمل شروع ہوگیا۔سب سے پہلے مدھیہ پردیش کے منڈلا ضلع میں پولیس نے گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں غریب مسلمانوں کے مکانوں پر بلڈوزر چلا ئے ۔ منڈلا کے ایس پی نے بتایا کہ یہاں کے گیارہ مسلمانوں کے مکانوں سے گائے کی باقیات برآمد ہوئیں، جس کے بعد محکمہ مالیات نے ملزمین کے مکانات مسمار کردئیے ۔بلڈوزر چلاتے وقت بتایا گیا کہ یہ عمارتیں سرکاری زمین پر بنائی گئی تھیں۔ جبکہ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ پچیس سال سے یہاں پرامن طریقے سے رہتے چلے آئے ہیں۔ پولیس اب ان لوگوں کے خلاف قومی سلامتی قانون کے تحت کارروائی کررہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگرپولیس کو گائے کے ذبیحہ کی اطلاع ملی تھی تو اس نے گوشت کی جانچ کیوں نہیں کروائی اور اس معاملہ میں قانون کے مطابق کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔سب کچھ اپنی مرضی اور منشا سے ہی کرناہے توملک میں قانون اور دستور کی ضرورت ہی باقی نہیں ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پہلے برآمد شدہ گوشت کو لیبارٹری میں بھیجا جاتا اور اگر اس کی تصدیق ہوجاتی تو قصورواروں کے خلاف دستیاب قانون کے تحت کارروائی ہوتی،لیکن پولیس نے ضابطہ کی کارروائی کرنے کی بجائے من مانی کارروائی کی اور مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت اور تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے شدید گرمی کے اس موسم میں ان کے گھروں پر بلڈوزرچلاکر انھیں بے گھر اور بے در کردیا۔
گؤرکشکوں کی دہشت کی سب سے دردناک خبر مدھیہ پردیش کی پڑوسی ریاست چھتیس گڑھ سے موصول ہوئی ہے ، جہاں کے رائے پور میں گؤ رکشکوں کے حملے میں تین مسلم نوجوان کی جانیں چلی گئی ہیں۔ مویشی لے جانے کے الزام میں گزشتہ سات جون کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنائے گئے 23سالہ صدام قریشی نے گزشتہ روز دم توڑ دیا۔ صدام ان تین مسلم نوجوانوں میں شامل تھا جنھیں رائے پور میں جانوروں کی اسمگلنگ کے الزام میں ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان میں سے دونوجوانوں کی موقع پر ہی موت ہوگئی تھی جبکہ صدام کوشدید زخمی حالت میں اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ اس کے دماغ میں کافی چوٹیں آئی تھیں۔ اس کے علاوہ اس کے جسم کی بیشتر ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔صدام کوما میں تھا اور اس نے اسی حالت میں جان گنوادی۔ اس ہجومی تشدد کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے دودیگر مسلمانوں کے نام گڈوخاں اور چاند میاں ہیں۔ چاند میاں کا تعلق اترپردیش کے سہارنپور اور گڈو خاں کا شاملی سے تھا۔
مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور اڑیسہ کے علاوہ تلنگانہ کے بعد میدک ضلع میں قربانی کے جانور کے نام پر دودینی مدرسوں پر حملہ کیا گیا اور کئی لوگوں کو زخمی کردیا گیا۔ مقامی مسلمانوں کی دکانوں اور تجارتی اداروں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔شرمناک بات یہ ہے کہ زخمیوں کو جب اسپتالوں میں داخل کرایا گیا تو وہاں بھی شرپسندوں نے ان پر حملہ کیا۔ اس معاملہ میں تلنگانہ پولیس نے بی جے پی کے کئی کارکنوں کو گرفتار کیا
ہے ۔ اس کے ساتھ ہی اقلیتی طبقے کے بھی کئی لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے ۔عیدالاضحی کے موقع پر مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے جو کچھ کیا گیا ہے ،وہ انتقامی کارروائی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔مختصر خاموشی کے بعد گؤ رکشک ایک بار پھر میدان میں آگئے ہیں۔ان کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں ہجومی تشدد کی نئی لہر شروع ہوگئی ہے ۔ حالانکہ مرکزی حکومت ہجومی تشدد کے خلاف سخت قانون بناچکی ہے ، لیکن اس کا اطلاق نہیں کیا جارہا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔