میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسلام،رمضان اور پاکستان

اسلام،رمضان اور پاکستان

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۵ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

جتنا گہرا تعلق اسلام اور رمضان کے درمیان ہے اتنا ہی گہرا تعلق پاکستان اور رمضان کے درمیان بھی ہے، نبی کریم ﷺ کی بعثت سے فتح مکہ تک سب کچھ رمضان میں ہی ملا ہے۔ قرآن کریم میں رب کائنات کا فرمان ہے ” کہ ہم نے اس کو (قرآن) رمضان میں نازل کیا” پھر فرمایا رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ایک طاق رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے فتح مکہ ہو یا پہلا معرکہ حق وباطل، سندھ کا بابل اسلام بننا ہو یا قیام پاکستان سب رمضان کی فیوض برکات کا نتیجہ ہے ۔
اگر ہم قرآن کریم پر تدبر کریں تو ایک واضح پیغام ملتا ہے کہ ہجرت سے قبل مسلمانوں کی ذہنی تربیت ہی ہدف تھی، قرآن کریم میں جو مکی دور کی سورۃ اورآیات ہیں ان کا موضوع عموماً ابنیا علیہ السلام کے واقعات پر مشتمل ہے جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مسلمان سابقہ قوموں کی کوتاہیوں ،نافرمانیوں اور دیگر اخلاقی برائیوں سے آگاہ بھی ہوں اور اس ضمن میں محتاط بھی رہیں کہ ماضی کی یہ غلطیاں امت مسلمہ نے دہرانی نہیں ہے ۔ا ن نافرمانیوں اور احکام الٰہی سے انحراف کا نتیجہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح سے قوموں پر عذاب نازل ہوئے کس طرح سے قومیں تباہ وبرباد کردی گئیں وہ طوفان نوح کا ذکر ہو یا فرعون کا غرقاب ہونا، بنی اسرائیل کا نافرمانیوں پر اصرار اور یہاں تک کے ابنیاء علیہ السلام کا قتل کیا جانا، یہ سب قصہ کہانیاں نہیں ہیں اگرچہ انہیں قصص الانبیاء کا نام دیا گیا ہے لیکن یہ اصل وہ ہدایت اور صراط مستقیم دکھانے کی اصلاح ہے جو قیامت تک قائم رہنا ہے ۔
قرآن کریم کے نزول کا آغاز رمضان المبارک میں ہوا ہے اور پہلی وحی کے الفاظ بھی بہت واضح ہیں کہ علم مومن کی میراث ہے، رب کائنات نے علم کو اپنے سے وابستہ کیا ہے پہلی آیت کے پہلے الفاظ ” پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تجھے تخلیق کیا خون کے لوتھڑے سے "ان الفاظ میں جہاں رب نے علم کے حصول کو مسلمان کے لیے عملاً لازم قرار دیدیا ہے ” پڑھ” ۔وہیں انسان کو اس کی تخلیق کا عمل بتایا دیا ہے کہ وہ کوئی نفیس اور کوئی اعلیٰ درجے کی چیز نہیں ہے بلکہ خون کا لوتھڑا ہے جو رب کائنات کے امر سے جیتے جاگتے انسان میں تبدیل ہو گیا ہے، خون کے لوتھڑے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے یہاں تک کے اس دور میں خواتین کے ایامِ مخصوصہ میں انہیںنفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا لیکن رب کائنات نے خواتین کی عزت بڑھانا چاہا تو فرمایا ” کہ ہم نے انسان کو بہترین خمیر سے پیدا کیا” یوں وہ خون کا لوتھڑا بہترین خمیر بھی قرار پایا اور ایامِ مخصوصہ میں خواتین کے ساتھ ہونے والے ناروا رویے کے خاتمے کا ذریعہ بھی بنا ۔
اسلام اور رمضان کا تعلق جہاں نزول قرآن سے ہے وہی اللہ کے نظام کے نفاذ کے لیے جدوجہد اور قربانی دینے سے بھی ہے۔ پہلا معرکہ حق وباطل رمضان المبارک میں برپا ہوا فتح مکہ،کہ جس کے بعد اسلام میں اللہ کے کلام کے مطابق لوگ جوق درجوق داخل ہونا شروع ہوئے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ایک رات کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ کلام ربانی کے مطابق اس رات میں فرشتے اللہ کے حکم سے کائنات میں پھیل جاتے ہیں اور مغفرت چاہنے والوں کی مغفرت کی دعا میں آمین کہتے ہیں، رحمت چاہنے والوں اور نارجہنم سے نجات چاہنے والوں کے لیے آمین کہتے ہیں۔ آخری عشرے کی طاق راتوں میںلیلۃ القدر کا پوشیدہ رکھا جانا رب کائنات کا مسلمانوں پر وہ انعام ہے کہ جس کا تصور بھی عام طور پر نہیں کیا جاتا ۔اللہ تعالیٰ نے اس ماہ میں نفل کے ثواب کو فرض کے برابر اور ایک فرض کی ادائیگی کو ستر فرض کی ادائیگی کے برابر قرار دیا ہے۔ اس طرح جب آخری عشرے کی طاق راتوں میں مسلمان اپنے رب کی پیدا کردہ اس عظیم رات کو تلاش کرتا ہے تو وہ اس تلاش میں پانچ راتوں کے دوران اپنے رب سے رجوع کرتا ہے اور یوں رب کی رحمت ،مغفرت اور نار جہنم سے نجات کا حقدار بن جاتا ہے۔ رب کائنات اپنے کلام میں فرماتے ہیں ” کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دونگا” اب کیا اجر ہو گا یہ کوئی نہیں جانتا۔
جب ہم خطہ عرب سے باہر نکلتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اسلام سب سے پہلے سندھ میں داخل ہوتا ہے، یہ 92 ہجری کا واقعہ ہے جب دولشکروں کی ناکامی کے بعد محمد بن قاسم کی سربراہی میں آنے والے لشکر نے راجا داہر کو شکست دی تھی۔ یہ معرکہ بھی رمضان المبارک میں برپا ہوا تھا اور اہلیان سندھ 10 رمضان المبارک کومحسن سندھ محمد بن قاسم کی فتح کا جشن مناتے ہیں ۔
اب ہم ذرا برصغیر کی جانب آتے ہیں برصغیر پر ایک طویل عرصہ مسلمانوں نے اقلیت میں ہونے کے باوجود بھرپور انداز میں حکمرانی کی۔ 1680 کی دھائی میں برصغیر میں داخل ہونے والے انگریزوں نے 1857 میں برصغیر پر مکمل غلبہ حاصل کر لیا اور تخت دہلی ان کے زیرنگیں ہو گیا ۔مسلمانوں نے اسی وقت سے ایک جدوجہد شروع کر دی تھی جس کا مقصد برصغیر سے انگریزوں کو نکال باہر کھڑا کرنا تھا۔ لیکن ایک طویل عرصہ تک یہ جدوجہد جاری رہی ۔1940 تک یہ جدوجہد دھیمے انداز میں جاری رہی اور جب لاہور میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے جلسہ میں طویل عرصہ سے جاری بحث ایک قرارداد کی صورت میںسامنے آئی جس پر برصغیر کے مسلمانوں کا اجماع موجود تھا جس کے نتیجہ میں اس تحریک میں شدت پیدا ہوئی اور 1946 کے اواخر میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ کے موقف پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ دوسری جنگ عظیم میں کامیابی کے باوجود تاج برطانیہ شدید مشکلات کا شکار تھا اور ان مشکلات سے نکلنے کے لیے نوآبادیاتی نظام کو خیرباد کہنا ضروری ہوگیا تھا ۔اگرچہ تاج برطانیہ اپنے زیرتسلط علاقوں سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا تھا اور اس وقت کی ملکہ برطانیہ کی خواہش تھی کہ حسب روایت ہندوستان پر اپنا قبضہ برقرار رکھا جائے لیکن صورتحال اس طرف جا چکی تھی کہ یہ قبضہ برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا تھا۔ ان حالات میں فروری1947 میں ملکہ برطانیہ نے سرلارڈ ماؤنٹ بیٹن کو واسرائے ہند بنا کر دہلی بھیجا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو تاج برطانیہ نے ہدف دیا تھا کہ برصغیر سے قابض انگریز وں کا انخلاء اس طرح سے عمل میں لایا جائے کہ ہندوستان کو تقسیم کرتے ہوئے مارچ1948 تک یہ تسلط ختم کر دیا جائے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن یہودی النسل تھا اور جب یہودی اور ہندو مل جائیں تو شیطانی قوتیں یکجاجمع ہو جاتی ہیں اور پھر مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا آغاز ہوتا ہے۔ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہوا اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مارچ 1948 کے بجائے اچانک فیصلہ سنا دیا کہ برصغیر کو اچانک تقسیم کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے بنائے جانے والے ملک کو عملاً معذور کر دیا جائے۔ یوں مہاتما گاندھی ،سردار ولبھ بھائی پٹیل،پنڈت جواہر لال نہرواور دیگر کانگریسی رہنماؤں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملکر سازش تیار کی کہ14 اگست 1947 کو برصغیر کی تقسیم عمل میں لائی جائے اور ہندوستان کو آزاد کرتے ہوئے 15 اگست کو قیام پاکستان عمل میں لایا جائے۔ لیکن ہندو جو توہمات کا شکار ہیں توانہوں نے 14 اگست 1947 کو نحس قرار دیتے ہوئے 15 اگست کو ہندوستان کی آزادی اور 14 اگست کو قیام پاکستان کا منصوبہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو دیا، انہیں امید تھی کہ دو ماہ کے مختصر وقت کے باعث محمد علی جناح قیام پاکستان سے دستبردار ہو جائینگے، یوں ان کے اکھنڈ بھارت کا خواب پورا ہو جائے گا۔ لیکن نحیف جسم اور بلند حوصلہ جناح نے اس چیلنج کو قبول کر لیا، 3 جون1947 کو یہ تو معلوم تھا کہ اگست 47 میں رمضان المبارک ہونگے لیکن کس کو معلوم تھا کہ 13 اور 14 اگست کی درمیانی رات جب قیام پاکستان کا اعلان ہو گا تو وہ وقت رمضان المبارک کی27 ویں شب میں آئے گا۔ 13 اور14 اگست کی درمیانی رات پہلے ریڈیو ڈھاکا اوراس کے ایک گھنٹہ بعد لاہور سے اعلان ہوا کہ یہ ریڈیو پاکستان ہے۔ اُس وقت یقینابرصغیر کے کروڑوں فرزند توحید27 ویں شب (جس پر اجماع امت ہے کہ یہی لیلۃ القدر ہے) میں اپنے رب کے روبرو سجدہ ریز ہو کر پاکستان کے استحکام کی دعائیں کر رہے ہونگے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور اس کے ہم نوالہ و ہم پیالہ پنڈت جواہر لال نہرو ،مہاتما گاندھی اور دیگر نے کہا تھا کہ پاکستان کی زندگی چھ ماہ سے زائد نہیں اور اس کے لیے انہوں نے منصوبہ بندی بھی کی تھی۔ پاکستان کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی برصغیر میں تناؤ کی فضاء میں اضافہ ہو گیا اور چانکیہ سیاست کے پیروکاروں نے سکھوں کو اتنا ورغلایا کہ وہ پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والوں کے لیے موت کے ہر کارے بن گئے۔ یوں پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی مصائب کا شکار ہو گیا لیکن قیادت کی ہمت اور حوصلے نے پنڈت جواہر لال نہرو اور اس کے بدزبان اور بدخیال دوستوں کا خواب پورا نہیں ہونے دیا ۔بھارت قیام کے ساتھ ہی قرضہ لینے والا ملک بن گیا تھا لیکن پاکستان نامساعد حالات کے باوجود 1964 تک ناصرف خود قرضہ کے عذاب سے محفوظ تھا بلکہ اکثر ممالک کو قرضہ دیا کرتا تھا ،یہ سب کچھ کیا تھا اور کیوں تھا؟؟ یہ وہ رمضان کا فیضان تھا کہ جس کی27 ویں شب میں ہمیں رب کائنات نے پاکستان کا تحفہ دیا تھا اور پاکستان کو مملکت خداداد اسی وجہ سے کہا جاتا ہے ۔اب تاریخ کے طالب علم مزید غور کریں تو رمضان اور اسلام کے تعلق کی مزید گہرائیوں کا سراغ لگایا جا سکتا ہے ۔میری ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ یوم آزادی 14 اگست نہیں 27 رمضان المبارک کو منایا جائے یوں رمضان المبارک کے فیوض وبرکات سے مزید استفادہ کیا جا سکتا ہے امید ہے ارباب اختیار اس پر غور کرینگے۔
٭٭……٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں