اسرائیل فلسطین امن معاہدے کی توقعات
شیئر کریں
مختلف ممالک کے دورے پر مشرق وسطیٰ پہنچے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خطے میں امن کے قیام کے لیے اسرائیل اور فلسطین کی جانب سے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ فریقین کے درمیان جلد ایک تاریخی معاہدہ ہوجائے گا تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ اس معاہدے تک پہنچنے کے لیے امریکا کے پاس ٹھوس تجاویز نہیں ہیں۔برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیاہے کہ بیت الِلحم میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ایک گھنٹہ طویل بات چیت کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے مانچسٹر میں ہونے والے بم دھماکے میں 22 افراد کی ہلاکت کی مذمت کی۔مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے حوالے سے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ’میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن معاہدے کی کوششوں کے لیے پُرعزم ہوں اور میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں، میں اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مدد کروں گا‘۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی اور فلسطینی، دونوں ہی امن معاہدے کے لیے تیار ہیں۔فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کے حوالے سے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا یہ اتنازیادہ مشکل ہوگا جتنا کہ لوگ تصور کرتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہے، جسے لوگ کئی سال سے مشکل تصور کرتے آئے ہیں‘۔ ہمیںصرف ایسے دونوں فریق چاہئیں جو تیار ہوں، ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیل تیار ہے، اور آپ بھی اس کے لیے تیار ہوں گے، اگر دونوں فریق تیار ہیں تو ہم معاہدہ کرنے جارہے ہیں’۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے ساتھ ہی فلسطینی صدر محمود عباس کو یقین دہانی کرائی کہ ہم فلسطینیوں کی معاشی طور پر مدد کریں گے اور ساتھ ہی ان کے درمیان امن بحال کرائیں گے۔اس موقع پر فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا تھا کہ عرب ممالک مشرق وسطیٰ تنازع کا حل دے چکے ہیں، اسرائیل کو ایک آزاد فلسطینی ریاست تسلیم کرنا ہوگی۔انہوں نے ایک مرتبہ یہ مطالبہ دہرایا کہ عالمی قوانین کے تحت فلسطینی پناہ گزین اور قیدیوں کے تنازع کو حل کیا جائے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں اسرائیل سے تاریخی امن معاہدہ ہوگا۔محمود عباس نے دعویٰ کیا کہ ہم فلسطین کی نئی نسل کو امن اور بھائی چارے کا درس دے رہے ہیں۔ ادھر سینئرفلسطینی آفیشل نے منگل کوبتایا کہ فلسطین اسرائیل کے ساتھ غزہ میں مستقل جنگ بندی کے معاہدے پر رضا مند ہے۔ تاہم اسرائیل نے معاہدے کی فوری تصدیق نہیں کی۔ اے ایف پی کے مطابق فلسطینی حکام نے جنگ بندی کا کوئی حتمی وقت نہیں دیا تاہم خیال ہے کہ فلسطین کے صدر محمود عباس راملہ میں اپنی تقریر میں اس کی تفصیلات پر روشنی ڈالیں گے ۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مختصر مدت کے لیے جنگ بندی کے معاہدے کئی بار ہوتے رہے ہیںجس سے لاکھوں شہریوں کو ریلیف ملا، تاہم طویل مدتی جنگ بندی کے معاہدے کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ ٹوٹتے رہے ہیں۔رواں سال کے آغاز میں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن کی جانب سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری تنازع کے اختتام کے لیے دو ریاستی حل کے بین الاقوامی وعدے سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کسی ایک ریاست کا ساتھ دے سکتے ہیں اگر یہ امن کے لیے ہو۔نئے امریکی صدر نے فروری 2017 ءکو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا وائٹ ہاو¿س میں پرتپاک استقبال کیا اور دونوں ممالک کے درمیان نہ ٹوٹنے والے تعلق کی تعریف کی تھی۔اس سے قبل 29 دسمبر 2016 ءکو امریکا کے اس وقت کے وزیرخارجہ جان کیری نے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل اور مستقبل کے فلسطین کو 1967ءکی 6 روزہ جنگ سے قبل کی سرزمین پر مبنی 2 ریاستوں کے مطابق رہنا چاہیے۔واضح رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد مرتبہ اس طرح کے معاہدے کا ذکر کیا ہے تاہم یہ کبھی نہیں بتایا کہ اس حوالے سے کیا حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان آخری مذاکرات اپریل 2014ءمیں اس وقت کے وزیرخارجہ جان کیری کی موجودگی میں ہوئے تھے،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب کے بعد فلسطین کے 82 سالہ صدر محمود عباس نے کہا کہ وہ تمام فلسطینیوں کے لیے ایک معاہدے کے حوالے سے مطمئن ہیں، اس کے باوجود کہ انہیں اس معاہدے کے لیے کوئی طریقہ کار نہیں بتایا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’میں آپ کے ساتھ تعاون کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتا ہوں جس کا مقصد اسرائیل کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کرنا ہے‘۔محمود عباس نے مزید کہا کہ ’ہم دنیا اور خاص طور پر اس خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنے دوستوں کے ساتھ کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں‘۔
ایک ایسے وقت جبکہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان پر امن بقائے باہمی کی بنیاد پر معاہدہ قریب تصورکیا جارہاہے، ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ ایک اسرائیلی عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر کی درخواست پر اسرائیل نے فلسطینیوں پر اپنی گرفت کو کم کرنے کے لیے رضامندی کا اظہار کردیا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد سے کچھ گھنٹے قبل اسرائیلی وزیر نے فلسطین کے معاشی اور سرحد پار کرنے کی سہولتوں کو بہتر بنانے کے اقدامات منظور کردیے۔ان اقدامات کے حوالے سے دعویٰ کیا جارہا ہے یہ امریکی صدر کی درخواست پر منظور کیے گئے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ایک اسرائیلی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فلسطینی صدر محمود عباس سے مذاکرات سے قبل ’اعتماد سازی کے اقدامات‘ کے طور پر اسرائیلی وزیر نے ڈونلڈ ٹرمپ کی درخواست کا جواب دیا ہے۔ اسرائیل کے اس اقدام پر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے ’امن کے قیام کے لیے دونوں جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو سراہا ہے‘۔امریکی صدر کے حوالے سے انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے مغربی کنارے کے علاقوں اور غزہ میں فلسطینی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے پر خاص طورپر دلچسپی لی ہے‘اطلاعات یہ بھی ہیں کہ وزیراعظم نیتن یاہو کی سیکورٹی کابینہ نے مغربی کنارے کے جنوبی حصے میں فلسطینی صنعتی زون میں توسیع کی منظوری بھی دے دی۔اسرائیلی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اسرائیلی ریلوے کے نظام کو مغربی کنارے کے علاقے جینین تک لے جانے کے سلسلے میں بھی جانچ پڑتال کی اجازت دے دی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی مزدوروں کے اسرائیل میں داخلے کی اجازت دینے کے معاملات بھی زیر غور آئے ہیں جبکہ یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ دریائے اردن پر فلسطین اور ہمسایہ ریاست کو ملانے والے پل پر قائم سرحد پار کرنے کی سہولت کو 24 گھنٹے کھولا جائے گا۔اس کے علاوہ یہ اصلاحات بھی زیر غور آئی ہیں کہ شہری علاقوں میں فلسطینی زمین پر تعمیرات کی اجازت دی جائے گی جو 60 فیصد اسرائیل کے مکمل کنٹرول میں ہے۔انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں تاہم اسرائیلی اخبار ’ہارٹیز‘ کا کہنا تھا کہ اس اقدام کا مقصد علاقے میں ’فلسطینیوں کے لیے ہزاروں مکان تعمیر کرنے کی اجازت دینا ہے، یہاں کئی سال سے فلسطینیوں کو مکان تعمیر کرنے کے لیے اسرائیلی پرمٹ جاری نہیں کیا جارہا تھا۔ اسرائیلی اخبار نے کہا کہ گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں اسرائیل کے وزیر تعلیم اور وزیر قانون نے اس منصوبے کی سخت مخالفت کی ہے۔۔ ایک فلسطینی مذاکرات کار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مستقل جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مصری مصالحت کاروں کے تعاون سے 48 گھنٹوں کی تیزرفتا ر شٹل ڈپلومیسی کے نتیجے میں معاہدہ طے پایا۔اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق آٹھ جولائی سے جاری اس لڑائی میں اب تک 2,138 فلسطینی جن میں اکثریت شہریوں کی ہے، ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ 68 اسرائیلی فوجی بھی مارے جا چکے ہیں۔
اسرائیل اورفلسطین کے درمیان امن معاہدے کی توقعات بلاشبہ خوش آئند ہیں اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اس دورے میں یہ معاہدہ کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو بلاشبہ تاریخ میں اچھے نام سے یاد رکھے جائیں گے اور اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف جو یاوہ گوئی کی تھی، اسے نظرانداز اور فراموش کردیاجائے گااور اس معاہدے کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کی راہ ہموار ہوجائے گی ۔