افغانستان سے امریکی انخلا اور بھارتی بیچینی
شیئر کریں
افغانستان پر امریکی قبضے کے اور امریکی پالیسی ”وار آن ٹیرر” کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے خطے میں پہلے سے زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی راہ لی اور افغانستان میں پنجے گاڑنے شروع کیے جو بظاہر تو اس کے معاشی و سیاسی عزائم سے منسلک تھا حقیقتاً اس کا گہرا تعلق بھارت کی پاکستان پالیسی سے تھا اور اس گٹھ جوڑ کا جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشّمس ہے کہ آج بھی یہ جوڑی اسی روش پر قائم ہے جو رویہ ستر کی دہائی تک قائم رہا، ماضی میں افغان وزیراعظم محمد داؤد کی کھلم کھلا سرپرستی میں افغان سرزمین پاکستان میں دہشتگردی کے لیے استعمال ہوتی رہی اور گزشتہ دہائی میں شدّت کے ساتھ وہی صورتحال دیکھنے میں آئی، بھارت مخدوش حالات کا فائدہ اٹھاکر افغان سرزمین پاکستان میں دہشتگردی کے لیے استعمال کرتا آرہا ہے اور بدستور کررہا ہے، ممکنہ امریکی انخلاء کی صورت میں مودی انتظامیہ کو اپنے خواب چکنا چور ہوتے نظر آرہے ہیں اجیت دول کی Offensive Defence پالیسی کا دھڑن تختہ ہوتا نظر آرہا ہے اسی وجہ سے بھارت ہر صورت افغان امن معاہدے کی ناکامی کے لیے سرتوڑ کوشش کرتا آرہا ہے اس ضمن میں اجیت دول نے افغانستان کا ہنگامی دورہ کیا جس کے بعد افغان نائب صدر امر صالح نے پاکستان کی طرف اشارہ کرتے ہوے ٹویٹ کیا کہ
”Had a pleasant meeting with NSA Ajit Doval of India. We discussed the enemy. It is an in-depth discussion.”
اس دورے کے بعد افغانستان میں ٹارگٹ کلنگ میں 150 فیصد اضافہ ہوا، کابل یونیورسٹی، ہسپتال و خواتین ورکرز پر حملے ہوے اور دوسری طرف پاکستان میں بھی دہشتگردی کی لہر سر اٹھاتی نظر آرہی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی و دیگر افغان انتظامیہ براہ راست پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں جوکہ درحقیقت اس بوکھلاہٹ و کمزوری کی علامت ہے جو انہیں امریکی انخلاء کے بعد اپنی کٹھ پتلی حکومت کے انہدام کی صورت نظر آرہی ہے جیسا کہ امریکی جنرل مکینزی نے کہا کہ ”امریکی انخلاء کے بعد افغان آرمی دو دن بھی میدان میں ٹھہرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی”۔ اس کے علاوہ ایک امریکی میجر تو یہاں تک کہہ گئے کہ ”امریکا اپنے کٹھ پتلیوں کو افغانستان میں قتل ہونے کے لیے نہ چھوڑے اور نکلنے سے پہلے افغان ملٹری افسران و انتظامیہ کو ویزے دینے چاہئیں”۔ بھارت کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہے کہ موجودہ افغان حکومت و ملٹری طالبان کے سامنے ٹکنے کی اہلیت نہیں رکھتی اور افغان سرزمین کا مکمل کنٹرول طالبان کے ہاتھ چلا جائیگا نتیجتاً بھارت افغان سرزمین اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرپائیگا جیسا کہ ماضی میں 1996 تا 2001 طالبان دور میں افغان بھارت تعلقات سردمہری کا شکار رہے اور حال ہی میں طالبان ترجمان محمد نعیم نے افغان امن عمل کے خلاف بھارتی کردار کو منفی بتاکر ناراضگی کا اظہار کیا، اس کے علاوہ مئی 2020 میں امریکا افغان امن مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شیر محمد عباس استنکزئی نے میڈیا سے بات کرتے ہوے کہا تھا کہ ہمیشہ سے بھارت کا افغان سرزمین پر کردار منفی رہا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر دہلی کی افغان اپروچ کا تقاضا یہی ہے کہ بدامنی رہے اور امریکی موجودگی کو طول دیا جاسکے تاکہ اجیت دول پلان کے مطابق وہ اس سرزمین کو اپنے منفی استعمال پر قادر رہے۔
صدر جوبائیڈن کے ستمبر میں مکمل انخلاء کے اعلان پر بھارت، افغان انتظامیہ و امریکی وار ہاکس میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے اور بتارہے ہیں کہ اس عمل سے افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوجائیگا جس پر مشہور روسی لطیفہ صادر آتا ہے جو ایک امیدپرست اور مایوس انسان کے حوالے سے مشہور ہے، امیدپرست صاحب فرماتے ہیں ”حالات جتنے خراب ہوچکے ہیں اس سے زیادہ خراب کیا ہونگے” جبکہ مایوس کہتا ہے ”نہیں، ابھی اور بھی حالات خراب ہونگے” سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں امریکی انخلاء کی صورت افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوجائیگا وہ فی الوقت جاری صورتحال کو کیا امن و آشتی سمجھتے ہیں۔ اہالیان امریکا اس معاملے پر دو دھڑوں میں تقسیم نظر آتا ہے اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ صدر اوبامہ ہو یا صدر ٹرمپ یا پھر موجودہ صدر جوبائیڈن تینوں ہی کو افغانستان میں شکست محسوس ہوئی ہے، یہاں تک کہ اوبامہ دور میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے تو طالبان حملوں سے بچاؤ کے لیے امریکی فوجیوں کے لیے رات کی دعا کا اہتمام تک کروایا تھا لیکن وار ہاکس پر مشتمل ایک دھڑا امریکا کو جنگ سے نکلنے پر خوش نہیں جس میں امریکی ڈیپ اسٹیٹ اور امریکی سول ڈفینس کنٹریکٹرز شامل ہیں، امریکی صحافی نندو ویلا اور اینا کیسپرین نے اس کے پیچھے امریکی ڈفینس کنٹریکٹرز کی بیچینی کو قرار دیا جن کا اربوں ڈالرز کا مفاد اس سے وابستہ ہے، امریکی ڈیپ اسٹیٹ درحقیقت ”وار آن ٹیرر” جوکہ ایک اصطلاح عالم اسلام کے خلاف جیسا کہ امریکی صدر جارج بش نے اسے کروسیڈ کا نام دیا تھا اور عالمی تنقید کے بعد اسے وار آن ٹیرر سے بدل دیا یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ماضی میں جرمنی کے خلاف ”وار آن بلٹزکریگ” کی ایک مبہم سی اصطلاح اپنائی گئی اور عین ممکن ہے کہ مشرق وسطیٰ و شمالی افریقی مسلم ممالک کے عدم استحکام کے بعد امریکا اپنی آخری کوشش پاکستان و کیکسین ریاستوں میں کرے گا اس ضمن میں وہ وار آف بے آف پگز طرز پر کوئی مہم پاکستان کے خلاف اٹھا سکتا ہے جس کا فائدہ اٹھا کر بھارت و افغانستان بھی اس میں کود جائیں۔
دوسرا دھڑا امریکا کی ڈوبتی ہوئی معیشت کے پیش نظر امریکا کو ہر قسم کی جنگ سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے امریکا کو یہ جنگ بہت بھاری پڑی ہے جس میں وہ ابتک دو ٹریلین ڈالر جھونک چکا ہے، اگلے چالیس برس تک اسے چھ سو ارب ڈالر سود کے طور پر ادا کرنا پڑیگا قرض الگ اور حاصل یہ ہوا کہ روس و چین کی موجودگی میں اب وہ اکیلا سپرپاور نہیں رہا، کرونا وبا میں محض ایک سال کے مختصر عرصے میں امریکا چھ ٹریلین ڈالر قرض لے چکا ہے جس پر امریکی سینیٹر رنڈ پال نے کہا کہ عنقریب ہم وینزویلا کی طرح دیوالیہ ریاست ہوجائینگے اس کے علاوہ ماہر معیشت مائیکل بری نے پیشین گوئی کی ہے کہ عنقریب امریکی اسٹاک مارکیٹ کریش ہوجائیگی۔ ایسی صورتحال میں امریکا مزید ٹھہرنا بھی چاہے تو اس کا متحمل نہیں ہوسکتا لیکن عالمی چودھراہٹ کی حرص میں وہ غلطی پر غلطی کررہا ہے، دوسری طرف بھارت اپنی ہی دیرینہ پالیسی اندرا ڈاکٹرائن کے برخلاف چل کر خطے کو عالمی طاقتوں کا گڑھ بنا چکا ہے جس سے اب خطہ روس امریکا و چین تین عالمی طاقتوں کی کشمکش کا محور بن گیا ہے جس کا نقصان خود بھارت کو اٹھانا
پڑیگا جیسا کہ بھارتی دانشور رام مادھو اور ونے کمار بھارت کو مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ افغان معاملے پر نیوٹرل رہے لیکن اجیت دول و مودی گٹھ جوڑ نے بھارت کو امریکی کارڈ بناکر مستقبل کے لیے بہت سے چیلنجز کھڑے کردئیے ہیں اور مستقبل میں اسے دیگر ہمسایوں کے ساتھ طالبان کی صورت افغانستان کو ایک نئے مخالف کا سامنا کرنا پڑیگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔