حکومت بمقابلہ: بجلی کے نجی شعبہ کے سرمایہ کار
شیئر کریں
کورونا وائرس کی دنیا بھر میں پیش قدمی کی بناپر دنیا کے بیشترممالک کی معیشت کو بحران کی کیفیت سے دوچار کردیا ہے،عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)کے مطابق عالی معیشت کو رواں برس کے دوران شرح نمو کی تین فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔موجودہ صورتحال میں دنیا کی کوئی بھی بڑی معیشت اس سال کساد بازاری سے بچ نہیں سکے گی اور جن ممالک کی معیشت اس وقت بہتر حالت میں ہے وہاں بھی ترقی کی شرح دو فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی۔پاکستان بھی اس سے مثتثنیٰ نہیں ہے اور اس کی موجودہ مالی سال کی جی ڈی پی کی کارکردگی کا تخمینہ ایک اعشاریہ پانچ فیصد لگایا گیا ہے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ صنعتی شعبہ پہلے ہی منفی صورتحال کا سامنا کررہا تھا،لاک ڈاون اور لوگوں کے کورنطینہ کی وجہ سے سروس سیکٹر بھی بری طرح متاثر ہوا۔معاشی پیداوار جوکہ 2018 میں 5 اعشاریہ 8 فیصد تھی 2019میں3اعشاریہ 3فیصد ہوگئی تھی۔بجلی اور گیس کی وافر دستیابی دیکھنے میں آئی،اسی طرح غیر مستحکم صلاحیتوں کے لیے ذمہ دارانہ ذمہ داریوں کو حل کرنے کے لیے وسائل دستیاب نہیں ہیں۔آئی ایم ایف پہلے ہی بیل آوٹ کی معیشت کے استحکام کے موڈ میں تھی جب کورونا وائرس اللہ کے عذاب کے طور پر حملہ آور ہوا۔
کچھ ماہرین کے نزدیک یہ ایک اچھا موقع ہے کہ جو قدرت نے تاریخی طور پر ہمیں ٖفراہم کیا ہے،حکومت توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاروں کے غلط کاموں سے نجات حاصل کرنے کی لیے مداخلت کرنے کی پالیس کا اعلان کرے، اور کیوں نہیں معیشت کے استحکام کے پروگرام کے تحت صارفین سے ناجائیز طور پر زائید وصول کئے جانے والی رقوم کی واپسی لازمی ہے اور ناقابل معافی بھی۔حکومت کی جانب سے یہ اعلان کورونا وائرس کے اٹیک سے زیادہ کیا بڑا اٹیک ہوسکتا ہے؟ مبینہ طور پر دنیا بھر کی بہت سی فرمیں وبائی بیماری کے سدباب کے لیے کام کرتے ہوئے اپنی ماضی کی غلطیوں کو دور کرنے کے لیے قانونی پہلوں کی جانچ کررہی ہیں۔کچھ لوگوں کے نزدیک حکومت کی جانب سے دیا جانے والا یہ جھٹکا نتیجہ خیز اور مہنگا بھی ثابت ہو سکتا ہے،دوسری جانب سرمایہ کار عالمی عدالتوں سے بھی رجوع کرسکتے ہیں جہاں حکومت پاکستان کا ٹریک ریکارڈ مشالی نہیں ہے۔انکا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کو سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے لیکن اس کے ختم ہونے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی ہے۔ لہذا اس سلسلے میں ہر اقدام سے محطاط رہنے کی ضرورت ہے اور آمدنی میں اضافہ کے اقدامات پر مبنی ہونا چاہیے۔حکومتی کاروائی مکمل ہونے تک کسی ذمہ داری میں تاخیر یا اسے معطل کیا جاسکتا ہے۔بین الاقومی ثالثی عام طور پر کسی فرم یا فریق کو عام معاشی مشکلات کی اجازت نہیں دیتی ہے چاہے وہ کتنی خودمختار ہی کیوں نہ ہو،طاقت کے معاملہ کی بنا پر۔اس لیے انتہائی خراب حالات میں خراب کاروباری یا معاشی فیصلے سے طاقت کے معاملہ میں آسانی سے نکلنے کے بجائے ڈیفالٹ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
یہ دیکھنا ہوگا کہ ہر طرح کی تحقیقات اور تجزیاتی رپورٹس کیا ایک مضبوط کیس بنانے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہیں،اس طرح کی رپورٹس اس امر کی روشنی میں تیار کرنی چاہیے کہ نجی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان میں توانائی کے شعبہ میں کاروبار کس حد تک منافع بخش رہا ہے،لیکن ایسے سوالوں کے جوابات دینے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے جیسے آئیرن اسکلڈ اور خود مختار گارنٹیوں کے ذریعے مختلف الاونسز اور فوائید کیسے حاصل کئے گئے؟ نیز پبلک سیکٹرز کی کمپنیوں کی میزبانی کا کیا کردار تھا۔پالیسی سازبیوروکریٹس سے لے کر ون ونڈوسہولت فراہم کرنے والی ایجنسیوں سے لے کر قانون ساز اداروں تک۔
حکومت کی تحقیقاتی کمیٹیوں کے لیے یہ جاننا ضروری ہوگا کہ کتنے ٹیکنو کریٹس جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کسی بھی عوامی ادارے کے چیف ایگزیکٹیو افسرکے اعلیٰ عہدے پر یا ڈائیریکٹر فنانس یاایگزیکٹیو افسر کے عہدوں پر فائیز تھے انہوں نے اس واقت عوام کے مفادات کو لال جھنڈی دکھا کر سرمایہ کاروں کے لیے فائیدہ مند ٹیرف بنا یا جس پر آج اشتعال پایا جاتا ہے۔یہ جاننا بھی اتنا دلچسپ ہوگا کہ وفاقی سیکریٹریوں نے منصوبہ کی تعمیراتی لاگت، تھرمل افادیت،فکسڈ اور متغیر کاموں اور بحالی کی لاگت اور پلانٹ کے عوامل کی تبدیلی سے متعلق سفارشات مرتب کرکے ان پر دستخط کئے تھے وہ اب معتبر جج کیسے بن سکتے ہیں یاریگولیٹر یا تفتیش کار۔یہ جانچنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہوگا کہ سرمایہ کار یا نجی شعبہ کا ماہر کس حد تک حکومت کے حصے کے طور پر فیصلہ سازی میں دلچسپی کے تنازعات سے بچ سکتا ہے۔یہ بہت متعلقہ سوالات ہیں جو توانائی کے شعبہ کے کاروبار میں شامل ہونے یا اس سے وابستہ درجنوں کھلاڑیوں کے بدلتے ہوئے کردار،خاص طور پر نجی شعبہ کے بجلی گھروں کے حق میں یا غلط طریقہ سے سرمایہ کاری رپورٹس میں ظاہر کی گئی ہیں۔لیکن تمام سرمایہ کاروں کو ایک ٹوکری میں رکھنا اور پیشہ ورانہ نقطع نظر کے بجائے مہم کا شروع کرناحکومت کے لیے خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔توانائی کے شعبہ کی تاریخ اس قسم کی غلطیوں سے بھر پڑی ہے۔
اب ہم ہر کمپنی سے مختلف ریگولیٹری اور قانونی طریق کار اور زائید ادائیگیوں،کم یا زیادہ انوائیسنگ اور فریقین سے ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے یا غلط اعداد وشمار کی علیحدہ علحیدہ جانچ پڑتال کرسکتے ہیں۔اس سلسلے میں موجودہ حکومت دیگر حکومتوں کے ساتھ اپنے قومی مفادات اور بچت کے لیے بات چیت کرسکتی ہے،کیونکہ اب چین اور پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت لگائے جانے والے بجلی کے پلانٹس سے سب سے بڑے مالی بوجھ سے نکل رہی ہے۔پاکستان میں اب شرح سود میں بے حد کمی کی جاچکی ہے اور ساتھ ہی عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کی مدت ادائیگی میں توسیع کا مطابہ کیا ہوا ہے۔
پاکستان میں اس وقت پرانے بجلی گھروں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے جن کو چلانے سے بے پناہ مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔حکومت کی مقرر کردہ ایک خصوصی تحقیقاتی کمیٹی نے بجلی کے شعبہ سے متعلق جو ایک آڈٹ رپورٹ مرتب کی ہے وہ وزیر آعظم عمران خان کو پیش کی جاچکی ہے جس میں گردشی قرضہ(سرکلر ڈیٹ) میں مسلسل اضافہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔گردشی قرضہ جو 2018-19 میں 465 ارب روپے تھا اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اب یہ ایک ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے۔اس کے نتیجہ میں گزشتہ 13برس کے دوران ملک کو مجموعی طور پر 14 ارب 8کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے جو اوسطً 370بلین روپے سالانہ ہے۔یہ بات خاص طور پر تشویشناک ہے کہ عوامی قرضوں (عوامی قرض / جی ڈی پی) جو کہ 2006-07میں 52فیصد تھے اب 2019میں بڑھ کر 85فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔لہذا اب اس شعبہ کی مالی اعانت کرنے میں حکومت کو اب سخت رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔2006-07 سے لے کر 2019تک بجلی کے شعبہ کو مجموعی بجٹ میں اعانت 3اعشاریہ 2 ارب روپے تھی جس میں سبسڈی کے 2اعشاریہ 80 کروڑ روپے شامل تھے۔
حکومت کی مقرر کردہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1994کی پاور پالیسی کے تحت 16نجی پاور پلانٹس نے 51.80 بلین روپے کی مشترکہ سرمائے کی سرمایہ کاری کی تھی اور وہ اب تک 415بلین روپے سے زائید منافع حاصل کرچکے ہیں جس نے 310بلین روپے سے زائید منافع لیا ہے۔اس بات کو دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس بات کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے کیونکہ یہ معلومات نیشنل الیکٹرک پاورریگولیٹری اتحارٹی(نیپرا) اور سیکورٹیزاینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے حاصل کی گئی ہیں۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان نجی شعبہ کے بجلی گھروں میں زیادہ تر سرمایہ کاری کی واپسی کی مدت دو سے چار سال تھی۔ان کو منافع سے حاصل ہونے والا سرمایہ 18 سے26 گنا زیادہ تھا اور اس سے زیادہ منافع 22گنا بھی ہوتا ہے۔چھ نجی بجلی گھروں نے 60سے 79فیصد کے درمیان ایکوئیٹی پر اوسطً سالانہ منافع حاصل کیا اور چار نجی بجلی گھروں نے 40فی صد سے زائید رعاتیں حاصل کیں۔ یہ منافع شائید کسی اور شعبہ میں اس سے قبل دیکھا نہیں گیا ہے خاص طور حکومت کے ذریعے اس قدر کم خطرہ اور اس کی ضمانت کی فراہمی کے ساتھ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔