میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ظلم کی حکومت

ظلم کی حکومت

ویب ڈیسک
منگل, ۲۵ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

شیر خدا سیدنا علی المرتضیٰؓ کا فرمان ہے کہ ” کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے ظلم کی نہیں” ابھی نبی محترم کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے وصال کو بھی مختصر عرصہ ہوا تھا اور سیدنا عمرفاروقؓ کو مسند خلافت پر سرفراز ہوئے چند یوم ہوئے تھے کہ دنیا نے احتساب کا وہ منظر دیکھا جو رہتی دنیا تک مثال ہے ،سیدنا عمرفاروق ؓ کا قبول اسلام دعائے نبوی کانتیجہ ہے آپ ﷺ نے عمر بن عبدالمطلب (ابوجہل)اور عمر بن خطاب میں سے اللہ تعالیٰ سے ایک کو اسلام کے لیے مانگا تھا، ایک جانب سگا چچا اور دوسری جانب شدید دشمن لیکن دعائے نبوی دشمن کے حق میں قبول ہوئی اور وہ اسلام کا ایسا سپاہی بنا کہ فاروق (فرق واضح کرنے والا) نام کا حصہ بن گیا ۔ابھی سیدنا عمر فاروق ؓ کو مسند خلافت پر سرفراز ہوئے چند یوم گزرے تھے کہ ایک لشکر بھاری مال غنیمت کے ساتھ واپس آیا اور خلیفہ وقت کے سامنے مال غنیمت پیش کر دیا ،مسجد نبوی مال غنیمت کا مرکز بنا اور مسلمانوں میں تقسیم کیا گیا اس مال غنیمت میں کپڑے کی ایک بڑی مقدار بھی شامل تھی جس کی تقسیم ہوئی اور ہر مسلمان کو چادر کا ایک ٹکرا ملا ۔ جمعہ مسلمانوں کے ہفتہ وار اجتماع کا دن ہے ،نماز جمعہ کا اجتماع گزشتہ ہفتہ کے معاملات کا جائز لینے اور آئندہ ہفتہ کے لیے منصوبہ بندی کرنے کا دن ہوتا ہے ،آج تو روایتی خطاب اور خطبہ جمعہ کا حصہ بن گیا ہے اس کی اصل روح نہ جانے کتنا عرصہ قبل فوت ہو چکی ۔
جمعہ کا دن آیا سیدنا عمر فاروقؓ مسجد ِ نبوی کے منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور رب کائنات کی ثناءاور نبی کریم ﷺ کے حضور دورد کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد خطاب کا آغاز ہی کیا تھا کہ ایک بدو کھڑا ہوا اور انتہائی تلخ لہجہ میں کہا کہ اے عمر! تو بددیانت ہے اور بددیانت کا منبر رسول پر کھڑا ہونا مسلمانوں کے لیے شرمناک ہے، کوئی محافظ نہیں تھا، کوئی بدو کو خاموش کرانے والا نہیں تھا کہ اے ناہنجار کس لہجے میں بات کرتا ہے ،سیدنا عمر فاروقؓ نے پوچھا کہ سیدی میں کیسے بدیانت ہوں ؟بدو نے کہا اے عمر !مال غنیمت میں سے جو چادر ملی تھی وہ چھوٹی تھی میرا قد تم سے چھوٹا ہے اس کے باوجود اس چادر سے میرا کرتہ نہ بن سکا تو تم نے اس چادر کا کرتہ کیسے پہنا ہوا ہے ،یہ بددیانتی نہیں تو کیا ہے؟ حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے کو کہا کہ بیٹا بتاو¿ کہ معاملہ کیا ہے ،بیٹامجمع کے درمیان کھڑا ہوا اور بتایا کہ بابا جان کے پاس موجود کرتے کی حالت انتہائی خستہ تھی، میں نے بابا جان کو اپنی چادر عطیہ کی ،یوں دو چادریں ملکر بابا جان کا کرتہ تیار ہوا ہے کیا یہ بددیانتی ہے؟اس کے بعد حاضرین نے خطاب بھی سنا اور اطاعت کے عہدکی تجدید بھی کی ۔
مصر فرعونوں کی سرزمین رہا ہے فرعون کسی فرد کا نام نہیں، ایک سلسلہ بادشاہت کا نام ہے اور یہ تہذیب حضرت موسیٰ ؑ کے دور سے بھی قبل کی ہے ،نیل مصر ہی نہیں دنیا کے بڑے دریاو¿ں میں سے ایک ہے جو اس وقت بھی سات ممالک کو سیراب کرتا ہے فرعنہ مصر کے دور سے ایک قبیح رسم چلی آ رہی تھی کہ موسم بہار کے آغاز کے ساتھ ہی ایک دوشیزہ کو دلہن بنا کر نیل کی بے رحم موجوں کے حوالے کر دیا جاتا کہ نیل یونہی بہتا رہے۔ حضرت عمرؓ جب خلیفہ بنے تو مصر مملکت اسلامیہ میں شامل ہو چکا تھا آپؓ نے وہاں گورنر کا تقرر کیا اور جب موسم بہار کی آمد آمد ہوئی تو مصریوں نے گورنر کو بتایا کہ یہ رسم ہے اور اس کی ادائیگی حکمران وقت کرتا ہے ،گورنر مصر نے امیرالمومینن سیدنا عمر فاروقؓ کو صورتحال سے آگاہ کیا کہ یہاں کے باشندوں کا گمان ہے کہ نیل دوشیزہ کی قربانی کے بغیر رواں نہیں رہے گا یا تو خشک ہو جائے گا یا پھر کناروں سے بہہ کر آبادیوں کو تباہ وبرباد کر دے گا۔ جب یہ مراسلہ آپ تک پہنچا تو آپ ایک معصوم جان لیے جانے کے خوف سے لرز گئے اور فوری جوابی خط لکھوایا کہ یہ رسم فرعونوں کی تھی ،فرعونوں کے ساتھ ختم ہو جانی چاہیے تھی اس کے ساتھ ہی ایک مزید مراسلہ لکھا۔ یہ مراسلہ نیل مصر کے نام امیرالمومینن سیدنا عمر فاروقؓ کی جانب سے تھا جس میں آپ نے لکھا کہ اے نیل! تو جس رب کے حکم سے بہتا ہے وہ ظلم نہیں کرتا، اگر تو اپنی مرضی سے بہتا ہے تواپنی مرضی چلا، اپنے رب کے حضور اپنا جواب سوچ لے، میں امیرالمومنین تجھے حکم دیتا ہوں کہ میانہ روی کے ساتھ بہتا رہ، نہ خشکی اختیار کر، نہ ہی کناروں سے بہہ کر آبادی کو تباہ وبرباد کر۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے گورنر کو یہ ہدایت کی کہ یہ مراسلہ جب دریا خشک ہو تو اس کے درمیان پڑھا جائے یہ خط جب گورنر مصر کے پاس پہنچا تو وہ مطمئن ہوئے اور معززین مصر کو جمع کیا اور انہیں ہمراہ لے کر نیل تک پہنچے، نیل میں ابھی پانی موجود نہیں تھا۔ آپ درمیان میں پہنچے تو امیر المومنین کا یہ خط نیل کو پڑھ کر بھی سنایا اور اس میں موجود پانی میں ڈال دیا، جیسے ہی گورنر کنارے تک واپس پہنچے دریا اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ رواں ہوگیا، وہ دن ہے آج کا دن ہے نیل میں نا تو کبھی کوئی خشکی رہی ہے نا ہی سیلاب کی تباہی وبربادی ۔
سیدنا عمر فاروقؓ کا خلافت سنبھالنے کے ساتھ ہی ایک انداز تھا، آپ ؓ رات گئے اپنے حجرے سے نکلتے اور مدینے کی گلیوں میں لوگوں کے حال احوال لیتے، ایک رات آپ معمول کے گشت پر تھے کہ ایک گھر سے بچے کے رونے کی آواز آ رہی تھی۔ آپ آگے بڑھ گئے، گشت پورا کر کے جب واپس ہوئے اور اس گھر کے قریب پہنچے تو پھر بھی بچے کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں ،آپ ؓنے دروازہ بجایا اور پوچھا کہ کیا ہوا بچہ کیوں روتا ہے، بچے کی ماں تلخی سے بولی برا ہو عمر کا جس نے بچے کا وظیفہ اس وقت مقرر کرنے کا حکم دیا ہے جب وہ روٹی کھانے لگے میں بچے کو بھوکا رکھ رہی ہوں کہ صبح جب ” عمر کے دربار میں جاو¿ں اوربچہ میرے ساتھ ہو تو بچہ بھوک کی شدت کے باعث روٹی چوسنے لگے اور اس کا وظیفہ جاری ہو جائے” حضرت عمرؓ نے یہ سنا تو خشیت الہیٰ سے لرز اُٹھے ۔لرزاںقدموں اپنے حجرے میں پہنچے ،آپ کی اہلیہ نے آپ کی کیفیت دیکھی تو پوچھا کہ کیا ہوا، آپ نے ساری صورتحال بیان کی۔ اسی دوران اذان فجر ہو گئی اور آپ نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد نبوی میں پہنچے۔ نماز کی امامت کے بعد آپ نے حاضرین کو روکا اور خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ عمرتباہ ہو گیا! عمر برباد ہو گیا !کہ عمر ظالموں میں شامل ہے۔ صحابہ ؓ نے پوچھا اے خلیفہ رسول کیا ہوا؟ آپ نے پورا واقعہ بیان کیا اور ناظم بیت المال کو حکم دیا کہ بچے کی پیدائش سے وظیفہ جاری کیا جائے۔ آپ کا حجرہ آپ کے مصلہ کے قریب تھا آپ کی اہلیہ نے جب یہ سنا تو کہا کہ اے عمر اب بھی غلط فیصلہ کر رہے ہو،آپ حجرے میں پہنچے اور پوچھا اب فیصلے میں کیا غلطی ہے؟ اہلیہ نے کہا کہ استقرار حمل سے عورت کی ضروریات بڑھ جاتی ہے اور اس کو اضافی غذا کی ضرورت ہوتی ہے، یوں اضافی وظیفہ استقرار حمل سے دیا جائے آپ دوبارہ مسجد نبوی میں آئے اور ناظم بیت المال کو جاری حکم میں تصحیح کراتے ہوئے استقرار حمل سے اضافی وظیفہ جاری کرنے کی ہدایت کی ۔آج جو یورپ میں سوشل سیکورٹی یا سماجی تحفظ کا قانون موجود ہے، وہ خلیفہ المسلمین کے اس ہی نظام کا چربہ ہے یہاں تک کہ فرانس نے اب تو مجھے نہیں معلوم کہ اس قانون کو کیا کہا جاتا ہے 1990ءتک یہ قانون عمر زلاءکے طور پر درج تھا۔ اس وقت اسلام سے بیزاری اتنی نہیں بڑھی تھی، اب تو فرانس اسلام سے دشمنی کرنے والوں کا سرخیل ہے ۔(جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں