میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
الیکشن کے التواء سے سیاسی افراتفری میں مزید اضافہ ہوگا!

الیکشن کے التواء سے سیاسی افراتفری میں مزید اضافہ ہوگا!

جرات ڈیسک
هفته, ۲۵ مارچ ۲۰۲۳

شیئر کریں

الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کا الیکشن شیڈول واپس لے لیا ہے اور پنجاب کے 30 اپریل کے الیکشن اکتوبر میں عام انتخابات کے ساتھ کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔الیکشن کمیشن نے باضابطہ حکم نامہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب میں اس وقت حالات سازگار نہیں ہیں اور پُرامن اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔ اس لیے اب پنجاب میں الیکشن 8 اکتوبر کو ہوں گے۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی تمام تر کوششوں کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومت، ایگزیکٹو اتھارٹی بشمول قانون نافذ کرنے والے ادارے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کے مطابق تمام شراکت داروں کی بریفنگز اور رپورٹس کے بعد الیکشن کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ پنجاب میں اس وقت پُرامن اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے الیکشن ملتوی کرنے پر حکومت کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا ہے جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اس عمل پر ناراض ہیں جنہوں نے احتجاج کا عندیہ دے دیا۔پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کر کے آئین شکنی کی ہے۔ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ہم نے 2 صوبائی اسمبلیوں کو اس امید پر تحلیل کیا تھا کہ انتخابات 90 روز میں ہوں گے، ہم نے یہ قدم اس لیے نہیں اٹھایا تھا کہ فاشسٹوں کا گروہ آئین و قانون سے کھلواڑ کرے۔عمران خان نے کہا ہے کہ خاموش رہنا پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی ختم کرنے کے مترادف ہے، اب پاکستانیوں کو عدلیہ اور وکلابرادری کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے صوبہ پنجاب میں الیکشن ملتوی کرنے کے فیصلے کے بعد ملک میں سیاسی بے یقینی کی کیفیت میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔واضح رہے کہ الیکش کمیشن کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں، وزارت خزانہ، وزارت دفاع، وزارت داخلہ اور چیف سیکریٹری پنجاب کی جانب سے جس صورتحال کا اظہار کیا گیا، اس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ منصفانہ، شفاف اور پر امن ماحول میں آئین اور قانون کے مطابق الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں۔الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف تحریک انصاف کی جانب سے تنقید تو سامنے آئی ہی لیکن متعدد قانون دان اور تجزیہ کار بھی اسے آئین اور سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں،اور عام طورپر یہ خیال کیا جارہاہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ وزیر اعظم شہباز شریف کی ایما پر کیا ہے،اس خیال کو وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے کابینہ کے بااثر وزرا کے ان بیانات سے ہوتی ہے جن میں وہ انتخابات ملتوی کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ گزشتہ روز واضح کر چکے تھے کہ وہ اس تاخیر کے حق میں ہیں۔انھوں نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ اسمبلیوں کے الیکشن ایک ساتھ ہوں اور صاف شفاف ہوں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا صوبے میں انتخابات کے التوا کے بعد بعد قومی اسمبلی الیکشن میں لیول پلینگ فیلڈ ہو گی؟رانا ثنا اللہ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد جمعرات کو سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’حالات ایسے ہیں کہ اگر تدبر اور دانائی سے فیصلہ نہ ہوا تو فساد، انارکی اور افراتفری پھیلے گی، سیاسی اور معاشی استحکام نہیں آئے گا۔ انھوں نے لکھا کہ ’الیکشن کے حوالے سے مختلف آرا ہیں، پارلیمنٹ کو رہنمائی کا اختیار حاصل ہے، حکومت اور اداروں کی رہنمائی کرے۔ ہم آئین کے مطابق معاملات آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔دوسری جانب چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال نے گزشتہ روز ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ اگر ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد کے عمل میں بدنیتی کا مظاہرہ کیا گیا تو عدالت مداخلت کرے گی۔یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ بدلنے کا اختیار تھا یا نہیں اور کیا اب الیکشن ایک ساتھ ہی ہوں گے؟اس قانونی اور انتظامی سوال کے جواب کے لیے شاید ایک بار پھر سپریم کورٹ کا رخ کیا جائے گا تاہم ایک اہم سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس اچانک فیصلے کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے کیونکہ یہ بات اٹل ہے کہ اس فیصلے سے خواہ اس کی کوئی بھی قانونی توضیح کیوں نہ پیش کی جائے ملک میں جاری سیاسی بحران اور افراتفری میں مزید اضافہ ہو گا؟’غیر یقینی کی صورتحال بڑھے گی،عام آدمی الیکشن کے التوا کو حکومت کی ناکامی ہی قرار دے گا۔یہ حکومت کی ناکامی ہے، انتخابات نوے دن میں ہو جاتے تو کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ اس مسئلے کا آئینی حل نکالا جا سکتا تھا اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت کا بھی قانونی حل نکالا جا سکتا تھا۔الیکشن کمیشن کے ’اس فیصلے سے غیر یقینی کی صورتحال بڑھے گی۔ اس وقت پاکستان ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں ہر چیز ایک نئے بحران کو جنم دے رہی ہے اور دے گی۔ حکومت اور برسراقتدار جماعتوں کو مذاکرات کا موقع نکالنا چاہیے جن کے ذریعے پر امن طریقے سے اس معاملے پر پارلیمنٹ میں کھل کر مذاکرات ہوتے حکومت کو اپنی انا کو بالائے طاق رکھ کر عمران خان کو بھی مذاکرات کی دعوت دینی چاہئے تھی۔حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کو چاہیے تھا کہ سیاسی اقدار کے ساتھ پارلیمان کو مؤثر کرتیں، معتبر کرتیں یہ معاملہ اب سپریم کورٹ جائے گا اور الیکشن کمیشن گیند وزارت خزانہ، دفاع اور داخلہ کے پاس پھینکنے کی کوشش کرے گا جن کو عدالت بلایا جائے گا۔ اگر انھوں نے کسی بھی وجہ کی بنیاد پر انکار کیا تو کیا ان پر توہین عدالت لگے گی؟ اگربالفرض محال حکومت الیکشن ایک ساتھ ہی کرانا چاہتی ہے تو بھی اس کے لیے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، کسی طرح کے اتفاق کی ضرورت ہے،بات چیت کے ذریعے تاریخیں آگے پیچھے کی جاسکتی تھیں،عمران خود بھی ایک ساتھ انتخابات کے حق میں عندیہ دے چکے تھے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے جس انداز میں الیکشن ملتوی کرنے کا اعلان کیاہے اس سے گمان پیداہوتاہے کہ وہ آئین کے تحت حاصل اختیارات کے ذریعہ الیکشن کو سبوتاژ یا بلڈوز کرنا چاہتے ہیں لیکن اس طرح بلڈوز کرنے سے مزید بگاڑ پیدا ہو گا۔دراصل اس طرح کے فیصلے کرکے الیکشن کمیشن اور ریاستی ادارے یا حکومت عمران خاں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فیصلے وہی ہوں گے جو وہ چاہیں گے۔ ان کے احتجاج سے حکومت کے فیصلوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے التوا آئین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔اس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ حکومت کی خواہش پر کیا جو الیکشن سے خوفزدہ ہے۔قانون کے مطابق تو اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر ہی انتخابات کو ہونا ہے۔وسائل کی کمی یا سیکورٹی کا سہارا انتخابات کو آگے لے جانے کی وجہ نہیں بن سکتے۔اس ضمن میں واحد سہارا جو لیا جا سکتا ہے وہ بھی اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں لاگو نہیں ہوتا بلکہ اسمبلی کی مدت آگے لے جانے کے لیے ہے۔ وہ یہ کہ اگر ملک میں ایمرجنسی ہے تو قانون کے مطابق اسمبلی کی مدت6 ماہ بڑھائی جا سکتی ہے، لیکن یہ سب اسمبلی کے فعال ہونے کے دوران کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے قانون کے مطابق پہلے ایمرجنسی کا نفاذ ہونا ضروری ہے۔اگر کوئی ادارہ خط لکھ دے کہ فنڈز نہیں یا کوئی اجلاس میں بتائے کہ سیکورٹی کے معاملات درست نہیں تو یہ الیکشن کے ملتوی ہونے کی وجوہات نہیں۔انتخابات کے بروقت نہ ہونے کی صورت میں ’ہر وہ شخص جس نے آئین پر عمل درآمد کا حلف لیا ہوا ہے، اس پر ذمہ داری عائد ہو گی۔الیکشن بروقت نہ کرانے کی بنیادی ذمہ داری تو الیکشن کمیشن پرعائد ہو گی اور کیونکہ انتخابات وفاقی حکومت کا سبجیکٹ ہے، اس لیے وفاقی حکومت بھی ذمہ داری میں برابر کی شریک ہو گی۔ اور چونکہ گورنرز بھی وفاق کے نمائندہ ہوتے ہیں تو وہ بھی اس ذمہ داری کی ادائیگی کے برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ہی یہ بات اٹل ہے کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی شیڈول میں تبدیلی کے تمام تر اختیارات حاصل ہیں۔الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 58 کے تحت الیکشن کمیشن کو انتخابی شیڈول میں تبدیلی کے تمام تر اختیارات حاصل ہیں۔وہ چاہے تو انتخابی شیڈول میں تبدیلی بھی لا سکتے ہیں اور اس کو نئے شیڈول سے مکمل تبدیل بھی کر سکتا ہے۔اس کے لیے انھیں صدر مملکت کو اطلاع دینا ہو گی جو انھوں نے دے دی ہے۔ اس کے سوا اس میں کوئی حدود موجود نہیں۔ تو الیکشن کمیشن اگر ان وجوہات سے مطمئن ہو جائے جو حکومتی اداروں نے ان کے سامنے پیش کی ہیں تو پھر وہ انتخابی شیڈول تبدیل کر سکتا ہے،اب تحریک انصاف کے پاس دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف ایسا ملک گیر اور بھرپور احتجاج کرے کہ پوری مشینری ناکارہ ہوکر رہ جائے،لیکن تحریک انصاف کی تمام تر مقبولیت کے باوجود ابھی تک اس ملک کے عوام اتنے چارج نہیں ہیں کہ وہ حکومتی پہیہ جام کرسکیں اور حکومتی رٹ بحال کرانے کے تمام دعوے ہوا میں اڑاسکیں،تحریک انصاف کے پاس اس زیادتی کے ازالے کیلئے دوسرا راستہ سپریم کورٹ کا ہے۔ اور انتخابات کے بروقت انعقاد کے لیے دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ تحریک انصاف سپریم کورٹ پر تکیہ کرے، لیکن سپریم کورٹ صرف حکم دے سکتی ہے، خود الیکشن نہیں کروا سکتی۔اگر ریاستی ادارے وہی جواب سپریم کورٹ کو دیں گے جو انھوں نے الیکشن کمیشن کو دیا تو دیکھنا ہو گا کہ عدلیہ کیا کرتی ہے۔موجودہ صورت حال میں تحریک انصاف کے حامیوں کا یہ سوچنا حق بجانب ہے کہ چونکہ انتخابات میں ان کی جیت یقینی تھی، اس لیے ان کو ناکام بنانے کے لیے الیکشن کو مؤخر کیا گیا یعنی ان سے یقینی جیت چھینی گئی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں