میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کیا بائیولاجیکل جنگ کا آغاز ہوچکا؟

کیا بائیولاجیکل جنگ کا آغاز ہوچکا؟

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۵ مارچ ۲۰۲۰

شیئر کریں

کیا کسی کو اللہ کے لشکروں سے آگاہی ہے یقینا نہیں ہوا اور پانی کے جنہیں اللہ رب العزت کی تلواریں کہا جاتا ہے اس کے علاوہ بھی اس ذات کے نہ نظر آنے والے لشکر ہیں۔ نمرود اتنا برا انسان نہیں تھا وہ اپنے وقت کا بہت بڑا منصوبہ ساز تھا معلوم تاریخ میں بابل کی تہذیب ہی سب سے زیادہ ترقی یافتہ تھی اسی فانی دنیا کے ظاہری مظاہر دیکھ کر وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ شاہد وہ ہی ان سب کا تخلیق کار ہے شیطان نے اسے ورغلایا کہ وہ اس سرزمین پر جو کہ صرف اللہ کی زمین تھی پراپنا قانون نافذ کراور خدا بن بیٹھ اور زندہ اور مارنے کا اختیار رکھنے کا اعلان کردے۔ اللہ کے جلیل القدر نبی حضرت ابراہیم نے اسے عقلی مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کی مگر وپ اپنی جگہ سے نہ ہلا بلکہ الٹا اللہ کے نبی کو قتل کرنے کی غرض سے آگ میں پھیکنے کا حکم دے دیا، اس وقت دنیا میں بظاہر کوئی اس کا اس ظلم سے ہاتھ روکنے والا نہیں تھا لیکن پھر چشم فلک نے دیکھا کہ اللہ رب العزت کا ایک چھوٹا سا فوجی مچھر اس کی ناک میں گھس کر اس کے دماغ تک پہنچ جاتا ہے اور وہ اپنے انجام کو پہنچا۔ یہی غلطی فرعون کرنے پر اتر آیا تھا تہذیب اور تمدن کی ترقی کے عوج پر متمکن ایسی قوم جس انجینئرنگ کی مہارت اور تعمیرات کے طریقوں کے راز سے آج کے جدید دور کے ماہرین بھی پوری طرح واقف نہیں ہیں اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھا اور کہہ اٹھا ـ’’انا ربکم العالیـ‘‘ حقیقت میں اسکا مظلب اللہ کی زمین پر اپنا قانون نافذ کرنے کا تھا لیکن ہوا کیا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار پانی نے اسے اور اس کے اقتدار کو کہیں کا نہیں رہنے دیا۔ اس تناظر میں چین سے اٹھنے والی کرونا وائرس کی بیماری کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس وقت دنیا جس میں بہت سے نمرود اور فرعون موجود ہیں دنیا کو کس صورتحال سے دوچار کررہے تھے۔دنیا میں اس کے چاہئے کچھ بھی عوامل ہوں لیکن دیکھنا اس کے نتائج کی جانب چاہئے۔

 

دنیا اور اس کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ہر انسان کا اپنا زاویہ یا نکتہ نظرہوتا ہے ، کچھ بڑے واقعات کو زمین پر ہونے والے عوامل کی روشنی میں دیکھتے ہیںاور کچھ اسے آسمانی فیصلوں کی تعبیر قرار دیتے ہیں مجھ جیسا طالبعلم بھی دیگر انسانوں کی طرح زمینی واقعات کو اپنے زوایے سے دیکھتا ہے۔ مجھ جیسے طالب علم کا ناقص مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں بڑے واقعات کا رونما ہونا درحقیقت بڑی عالمی تبدیلیوں کا سبب بنتا ہے۔ مثال کے طور پر جدید تاریخ کا سب سے خونی واقعہ پہلی عالمگیر جنگ کا آغاز تھا اس جنگ نے کروڑوں انسانوں کو تین براعظموں میں ہلا کر رکھ دیا تھا یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ یورپ میں اس جنگ کے عوامل کئی برس پہلے سے شواہد کی بھٹی میں پک رہے تھے ۔ عموما ایسا ہوتا ہے کہ عالمی معاملات کا بگاڑ سرد جنگ سے آغاز کرتا ہے لیکن اس سرد جنگ کی آغوش میں ایک بڑا تباہی کا آتش فشاں پلتا رہتا ہے اور پھر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بھی واقعہ اس آتش فشاں میں چھپی نفرتوں کو اگلنے کا سبب بن جاتا ہے جس میں عالم انسانیت کئی صدیاں پیچھے دھکیل دی جاتی ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ پہلی عالمی جنگ کا آغازآسٹریا کے ولی عہد فرڈیننڈ کے قتل کی وجہ سے ہوا تو احمقوں کی جنت میں رہتا ہے ۔ بہرکیف اس جنگ نے اس وقت تک کی دنیا کا جغرافیائی، سماجی اور معاشی نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ عسکری اور معاشی طاقت کے عالمی مراکز یورپ سے کھسک کر امریکا منتقل ہونا شروع ہوگئے، سب بیٹھ کر یہ کہ مسلمانوں کی سیاسی مرکزیت یعنی خلافت کا خاتمہ کرکے مسلمانوں کو مختلف بلاکوں میں تقسیم کردیا گیا آج مشرق وسطی اور دیگر مسلم دنیا کا جو جغرافیائی نقشہ ہے وہ اسی دور میں جنگ عظیم اول کے بعد عالمی استعمار نے ترتیب دیا تھا۔مشرق وسطی کے دیگر حصوں کی طرح مسلمانوں کا اہم ترین خطہ بلاد شام یا فلسطین برطانیا کے قبضے میں چلا گیا ۔اسی جنگ کے خاتمے یعنی 1917ء میں نیویارک میںجو لندن کی جگہ عالمی معیشت کا گڑھ بننے جارہا تھا اسرائیل کے نام پر ایک صہیونی ریاست بنانے کا اعلان کیا گیا جسے دنیا بالفور ڈیکلریشن کے نام سے جانتی ہے۔

 

یہ ایک ایسا صہیونی منصوبہ تھا جو چالیس برس بعد عملی شکل میں لایا جانا تھا لیکن اس کے لیے ایسے عالمی اداروں کی تشکیل ضروری تھی جن کے ذریعے اس کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔اس بڑی تبدیلی کے لیے ایک اور بڑی جنگ بساط درکار تھی جسے تقریبا چار دہائیوں کے بعد ہی اس دنیا کے نقشے پر بچھ جانا تھا اور ہم دیکھتے ہیں کہ 1939ء کو ایسے حالات پیدا کردیئے گئے کہ جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کردیا، جس کی وجہ بظاہر یہ بنی تھی کہ پولینڈ کی سرحدی سیکورٹی فورس نے کچھ جرمن فوجی آفسران کو قتل کردیا تھا لیکن اس وقت کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ پولینڈ کے حکام اور عسکری کمانڈروں نے اس واقعے سے لا تعلقی کا اظہار کردیا تھا اور اسے ایک تیسری قوت کی شرارت سمجھا جانے لگا تھا لیکن جرمنی کا حکمران ہٹلر جو پہلے ہی پہلی جنگ عظیم کی زلت آمیز جنگ بندی کی شرائط کو ہضم نہیں کرپا رہا تھا اس نے پولینڈ پر حملہ کردیا۔ اس حوالے سے بہت سے یورپین محققین نے کتابیں اور مضامین بھی تصنیف کیے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی کو جن ذلت آمیز شرائط پر مجبور کیا گیا وہ درحقیقت ایک اور بڑی جنگ کا شاخسانہ بنانے میں استعمال ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس وقت پہلی جنگ عظیم کے بعد خود جرمنی میں جو سیاسی تبدیلیاں آرہی تھیں تو کیا باقی یورپ اس سے بے خبر تھا؟ دوسری عالمگیر جنگ سے دو دہائیوں پہلے جرمنی نے اپنی عسکری قوت کو بڑھانے کا جو سلسلہ شروع کردکھا تھا کیا دنیا خصوصا یورپ کی نگائوں سے وہ سب کچھ اوجھل تھا؟ یقینا نہیں۔۔۔ بہرحال اس جنگ کا آغاز ہوتا ہے جو تمام یورپ کو اس کی بنیادوں سے نہ صرف ہلا دیتا ہے بلکہ مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا بڑی جغرافیائی تبدیلیوں کی زد میں آتے ہیں۔

 

پرانے دشمن منظر سے ہٹ جاتے ہیں نئے دشمن تراشے جاتے ہیں، عالمی معاشیات کا مرکز لندن سے نیویارک جہاں 1917میں اسرائیل کی صہیونی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا وہاں منتقل ہوتا ہے اسے اب دنیا بینک آف انگلینڈ کی بجائے، ورلڈ بینک کے نام سے جانتی ہے اس کی دوسری شاخ آئی ایم ایف کی تشکیل ہوتی ہے، یورپ میں قائم لیگ آف نیشن کا بوریا بستر گول کرکے نیویارک میں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے جس کے لیے عالمی صہیونی سرمایہ دارخاندان راکفلر زمین عطیہ کرتا ہے۔ لیگ آف نیشن کا دائرہ یورپ تک محدود تھا اس لیے اب نئی تشکیل پانے والی دنیا کے امور ہاتھ میں لینے کے لیے اس سے بڑا ادارہ درکار تھا تاکہ تمام دنیا کے ملکوں کو اس کا ممبر بناکر اسے عالمی دجالی صہیونی قوتوں کی منشا کے مطابق چلایا جائے اور قانونی کام کو غیر قانونی اور غیر قانونی کام کو قانونی بنانے میں استعمال کیا جائے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر اقوام متحدہ کے قیام کے بغیر اسرائیل کے قیام کا اعلان کروا دیا جاتا تو دنیا میں یورپ کے سوا اسے کون قبول کرتا۔۔۔ اس لیے ایسے ہی ادارے کی ضرورت تھی جس کی لگامیں صرف یورپ تک محدود نہ ہوں بلکہ روس اور چین کے ساتھ جنوب مشرق ایشیا تک دراز ہوں۔ دنیا بھر کے وسائل پر قبضے کے لیے غیر قانونی کاغذ کی کرنسی کو رواج دیا گیا تاکہ سونے کے براہ راست عالمی منڈی میں استعمال سے روک کر اس پر اپنا قبضہ جمایا جاسکے۔ اس کے بعد برطانوی پونڈ کی جگہ ڈالر کو کنگ کرنسی بنانے کا عمل شروع ہوا۔ تاکہ سونے کی بجائے ڈالر کو ملک اپنے محفوظ سرمایے کے طور پر استعمال کریں۔ یوں دنیا کو سکے کی بجائے کاغذ کی کرنسی کا عادی بنایا گیا اور اس کاغذ کی کرنی کی لگامیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے حوالے کردی گئیں۔ جس نے نہ صرف امریکی عوام بلکہ باقی دنیا کے انسانوں کو بھی کام کرنے والی مشینوں میں تبدیل کردیا۔1945ء میں ختم ہونے والی دوسری عالمی جنگ کے بعد اب تقریبا پھر نصف صدی سے زیادہ کا وقت گذر چکا ہے اور اس وقت عالم انسانیت تیسری عالمی جنگ کے ابتدائی مرحلے میں ہیں۔

 

اب عالمی صہیونی دجالیت کو کیا منظور ہے؟ پہلی سے دوسری عالمی جنگ کے دوران جو معاملات طے کیے گئے تھے دوسری عالمی جنگ کے بعد انہیں عملی جامہ پہنانا مقصود تھا۔ اس پہلے مرحلے کی باقاعدہ ابتدا نائن الیون کے ڈرامے سے کی گئی تھی۔ ان پہلے مرحلے میں ان مسلم ملکوں کے ہاتھ پیر توڑنا مقصود تھا جس آئندہ آنے والے دجالی صہیونی منصوبوں کے سامنے ممکنہ رکاوٹ بن سکتے تھے۔ وہ منصوبے جن میں اسرائیل کی عالمی دجالی حاکمیت کا اعلان کیا جانا مقصود ہے اس سلسلے میں سب سے پہلے افغانستان کو نشانہ بناکر وہاں ٹھکانا بنایا گیا تاکہ یہاں سے روس، چین اور پاکستان کے ساتھ جغرافیائی قربت رکھتے ہوئے کسی بھی بڑے آپریشن کا آغاز کیا جاسکے، اس کے بعد عراق نمبر آیا اور پھر یمن سے لیکر شام تک آگ بھڑکا دی گئی۔ افغانستان میں معاملات کچھ بھی ہوئے ہوں چاہئے کسی نے افغان مجاہدین کی چھپ کر یا اعلانیہ مدد کی ہو لیکن امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کا حال نمرود جیسا ہوا جن کی ناک میں طالبان نام کا مچھر گھس گیا تھا۔ کیونکہ اللہ رب العزت کی ہمیشہ سے یہی سنت ہے کہ وہ ظالم طاقتور کو ہمیشہ کمزور کے ہاتھوں مرواتا ہے۔لیکن عالمی دجالی صہیونیت جس نے پہلے سونے پر پابندی لگاکر سود کی بنیاد پر ناجائز کاغذی کرنسی کو رائج کروایا اب اس کرنسی کو بھی ختم کرکے نیا دجالی صہیونی عالمی اقتصادی نظام متعارف کرانے کی کوشش کرے گی۔

 

اس تیسری عالمی جنگ کا مرحلہ اب بائیولاجیکل جنگ کے مرحلے میں شامل ہوچکا ہے۔ کرنسی نوٹوں کو وائرس کے پھیلائو کا سبب قرار دے کر اس پر پابندی لگانے کا اعلان کیا جائے گا اور انسانوں کے دائیں ہاتھ پر ایک چپ لگا دی جائے گی جس کے ریکارڈ میں اس انسان کے تمام اثاثے محفوظ ہوں گے۔ اس مرحلے سے کافی پہلے خاموشی کے ساتھ عالمی مالیاتی اداروں کے مراکز اسرائیل منتقل کردیئے گئے ہیں امریکا میں محض تماشا لگایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی تمام بڑی آئی ٹی کمپنیوں کے مراکز بھی اسرائیل منتقل ہو چکے ہیں ۔۔ کیا آپ کو اس کی خبر ہے؟ تاکہ دجال تمام دنیا کے انسانوں کو آسانی کے ساتھ کنٹرول کرسکے۔ اب اگر چین امریکا پر یہ الزام عائد کررہا ہے کہ امریکا چین میں کرونا وائرس پھیلانے کا سبب ہے تو کچھ عجیب نہیں کیونکہ کچھ عرصہ قبل چین کے شہر ووہان میں ہونے والی کھیلیں جن میں دنیا کی مختلف فوجوں کے کھلاڑیوں نے حصہ لیا تھاان میں امریکی فوجی کھلاڑی بھی آئے تھے ان کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس بائیالوجیکل حملے میں دنیا کی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی، عالمی اسٹاک مارکیٹیں کریش کرچکی ہیں، پاکستان جیسے ملک کو زرداری اور نواز شریف کے ذریعے پہلے ہی معاشی تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔

 

باقی دنیا بھی جلد مزید برے حالات میں گھرنے والی ہے ۔ عرب حکمران پہلے ہی اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیںاس لیے ان کی جانب سے ذرا بھر حکم عدولی کا امکان نہیں ہے۔ اس شواہد یہی بتا رہے ہیں کہ کرونا اور جیسے دوسرے وائرسوں کے پھیلائو کو ڈرامہ کرکے دنیا سے کاغذی کرنسی کا خاتمہ کرکے نیا دجالی عالمی معاشی نظام نافذ کرنے کی کوشش کی جائے گی جس میں خرچے کرنے والے کی تمام تفصیلات اس کے بینک میں موجود ہوں گئی اور اس بینک کی تفصیلات بڑے مرکزی بینک میں جو اسرائیل میں ہے۔ جس طرح ایف اے ٹی ایف FATF والوں نے پاکستان پر پابندی لگائی ہے کہ ہر پاکستانی شہری جو ملک سے باہر سفر کرے گا اس کے اثاثوں کی تفصیل جمع کی جائے اس کے بغیر وہ سفر نہیں کرسکے گا ۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟ یہ کون سے ادارے ہیں ؟ یہ تمام کے تمام صہیونی دجالی ادارے اور ان کی شاخیں ہیں جن کے ذریعے ملکوں کو قوموں کو بیلک میل کیا جاتا ہے بات نہ ماننے پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی جانب سے حوکا پانی بند۔ اس لیے وطن عزیز کے دفاع کے ضامن اداروں اور حکومت کو داخلی سیاست کے گند سے فورا لاتعلق ہوجانا چاہئے، حکومت میں موجود پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ایجنٹوں کو باہر نکال کر مخلص ماہرین کی مختصر کابینہ تشکیل دینا ہوگی۔ جن معاشروں میں ملکی قوانین مجرموں کو سزا دینے کے لیے ناکارہ ہوں جائیں وہاں پر اللہ کی ’’فوجیں‘‘ حرکت میں آتی ہے۔ چین اور مغرب نے مسلم عورت کے سر سے ا سکارف اور منہ سے نقاب ہٹانے کی مہم چلائی اس کے خلاف جب مسلم حکمران غیرت کا مظاہرہ نہ کرسکے تو اللہ نے اپنے ایک نہ نظر آنے والے فوجی کرونا سے تمام دنیا کے منہ ڈھانپ دیئے۔آزمائش کا بڑا وقت سر پر کھڑا ہے بچیں گے وہ جنہوں نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام رکھا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں