آگے کنواں پیچھے کھائی
شیئر کریں
سیانے کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو۔ سیانے تو سیانے ہیں اس لیے ان کی باتیں بھی سیانی۔ اس کو سمجھنے اور جانچنے کے لیے بھی پہلی شرط ہی سیانا ہونا ہے۔ بھلا اس تبدیلی کے علمبرداروں کا سیانپ "سمجھداری ” سے کیا لینا دینا۔ یہ اللہ کے بندے اتنے ہی سیانے ہوتے تو یہ "گند” تو نہ ڈالتے جو تبدیلی کے نام پر پاکستان میں ڈالا گیا ہے۔ عمران خان کی قیادت میں بننے والی اس حکومت کو تقریباً دو سال ہونے کو ہیں۔ قسمت کی اس قدر دھنی ہیں کہ آئے روز کوئی نہ کوئی آفت آن ٹپکتی ہے اور کبھی آفت نہ بھی گلے پڑے تو یہ خود آگے بڑھ کے اسے "گلے‘‘ لگالیتے ہیں۔ وطنِ عزیز ان دنوں ایسی ایک آفت کی زد میں ہے۔ کرونا وائرس چین کے بعد دنیا بھر میں پھیلا پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں ہے۔ اس قدر تکلیف دہ اور لاچارگی کی موت کہ اللہ کی پناہ۔ پاکستان میں موت پر پھیلائے پاکستانیوں پر جھپٹنے کے لیے تیار ہے۔ عمران کے وسیم اکرم پلس نے فرمایا ہم نے 3 جنوری کو ہی کرونا وائرس سے نمٹنے کے انتظامات کرلیے تھے حالانکہ ڈبلیو ایچ او نے اس بیماری کو کرونا کا نام ہی وسیم اکرم پلس کے دعویٰ کے تین دن بعد دیا۔ وسیم اکرم پلس بنانے والے کپتان کیسے پیچھے رہتے وہ بھی اسی طرح کا بیان داغ کر تاریخ میں "امر” ہوگئے۔ عمران خان ہوں۔ وسیم اکرم پلس یا پھر جام کمال "جہڑا بھنو لال اے ” یعنی نالائقی میں تینوں کے درمیان مقابلہ جاری ہے۔ دیکھنا ہوگا اس ریس میں کپتان بازی مارتا ہے یا اس کے کھلاڑی۔
پاکستان اس وقت اس موزی مرض کے خلاف حالات جنگ میں ہے اور ان نالائقوں میں جھوٹ بولنے کی ریس لگی ہے۔ ایک جانب چین میں پھنسے پاکستانی طلبا و طالبات کو پاکستان واپس نہ لاکر اچھے فیصلے پر دادوتحسین سمیٹی جارہی تو دوسری جانب ایران میں گئے ہزاروں زائرین کو تفتان کے راستے دھڑا دھڑ پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی جارہی تھی۔ تفتان میں بنائے گئے قرنطینہ سینٹر کی جس قدر تشہیر کی گئی اس نے پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کردیا اور وہ اس حکومت کی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئے۔ 14 دن کے لیے قرنطینہ میں رکھے گئے زائرین کو ایک ہفتے بعد ہی وزیراعظم کے معاون خصوصی اور ایک مسلک کے بلا شرکتِ غیر لیڈر ہونے کے دعویدار زلفی بخاری کی ایک ٹیلی فون کال پر جام کمال نے جانے کی اجازت دی۔ ان میں سے متعدد ایسے بھی بتائے جاتے ہیں جو وہاں سے اپنی آبائی علاقوں میں بلا کسی رکاوٹ کے پہنچ گئے۔ سینکڑوں افراد کو سندھ حکومت کے حوالے کیا جس نے اپنے قائم کیے گئے قرنطینہ مرکز میں رکھا اور جیسے جیسے ٹیسٹ کے نتائج آتے گئے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ وفاقی اور بلوچستان حکومت میں کاکردگی کا پول بھی کھلتا گیا۔ آج روزانہ کی بنیاد پر ان افراد اور حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے سینکڑوں نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان جیسے پسماندہ اور غریب ملک میں جہاں ہیلتھ سسٹم نام کی چیز موجود نہیں روزانہ آنے والے سینکڑوں مریضوں کا بوجھ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں۔ پاکستان تو کیا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اپنے حکمرانوں کی سستی اور کاہلی کی سزا روزانہ گرنے والی لاشوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
عمران خان ایک ہفتے میں دو بار ٹی وی ا سکرینوں پر قوم کو مخاطب کرنے کے لیے نمودار ہوئے۔ ان کے خطاب میں قوم کے لیے کوئی رھنمائی تھی ؟ اگر تھی تو پھر میرے جیسے ان پڑھ کو اس کی سمجھ نہیں۔ ان کی بات میرے سر کے اوپر سے گزر گئی۔ وزیراعظم پاکستان اس آئیں بائیں اور شائیں کو قوم سے خطاب کا نام دیں تو ان کی مرضی ہے۔ ایک طرف ہمارے وزیراعظم قوم سے خطاب میں سرکاری ٹی وی کے وسائل خرچ کرکے کچھ بھی رہنمائی کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں تو دوسری جانب کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اپنے گھر سے باہر آتے ہیں اپنے موبائل سے قوم کے نام پیغام ریکارڈ کراتے ہیں۔ ان کے ہر پیغام میں قوم کے لیے کوئی ایسا مثبت پیغام ہوتا ہے کہ لاشیں اٹھاتی قوم کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم صاحب کے خطاب کے بعد لوگ حوصلہ چھوڑ دیتے ہیں۔ معروف اداکارہ بشریٰ انصاری دو ہفتے قبل اپنی بیٹی سے ملنے کینیڈا گئیں وہ بتارہی تھیں کہ ان کی بیٹی کی رہائش گاہ ڈاؤن ٹاؤن میں ہے جو وہاں کا مصروف ترین علاقہ ہے۔ جس دن سے وہ وہاں پہنچی ہیں اس دن سے مارکیٹ کی رونقیں ماند پڑ چکی تھیں۔ اسی طرح سعودی عرب میں بھی کرونا وائرس سے اپنے شہریوں کو بچانے کے لیے انتظامات کرلیے گئے تھے۔ خانہ کعبہ کی تعمیر سے اب تک 40 بار طواف روکا گیا ہے۔ ماضی قریب میں 1979 میں یہ ہوچکا جبکہ حال ہی میں کرونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر حرم شریف اور مسجد نبوی کو بند کیا گیا۔ مسلمانوں کے لیے ان سے زیادہ مقدس مقامات کوئی نہیں۔ سعودی عرب میں ملوکیت کے باوجود شہزادہ محمد بن سلمان کے مشکل اور تکلیف دہ فیصلے نے ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔
یہاں یہ عالم ہے کہ ہمارے وہ تمام اہم ادارے جو کبھی بھی کسی سول حکومت کے ساتھ ایک پیج پر نہیں رہے۔ عمران سرکار کو "کندھوں ” پہ اٹھائے نئیا پار لگانے کی جدوجہد میں ہیں۔ وہ بھی تبدیلی سرکار سے بروقت فیصلے اور اس سے بڑھ کے ان پر عملدرآمد میں ناکام رہے ہیں۔ آج قوم وزیراعظم پاکستان کی جانب دیکھ رہی ہے تو وہ فرمارہے ہیں ابھی فیصلوں کے لیے مشاورت جاری ہے۔ ان کے مقابلے میں سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بتایا کہ سیاسی تربیت ہوتو فیصلے اور ان پر عملدرآمد یوں بھی ہوجاتا ہے۔ مراد علی شاہ نے سندھ بھر کو لاک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کرکے عمران خان کو اس مقام پر لاکھڑا کیا کہ آگے کنواں ہے اور پیچھے کھائی۔ ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو کنویں میں گرتے ہیں جو انہوں نے اپنے مخالفین کے لیے کھودا تھا اور اگر پیچھے قدم ہٹاتے ہیں تو ذلت کی کھائی ان کا مقدر ہے۔ وہ کنفیوڑ ہیں اور سمجھ نہیں آرہی کہ ملک بھر کو لاک ڈاؤن کیا تو اپوزیشن دور کی وہ بات ثابت ہوجائے گی کہ میں چاہوں تو ایک کال پر ملک کو لاک ڈاؤن کردوں۔ آج وہ اپنے کہے پہ عمل کرتے تو پھنستے ہیں اور اگر نہیں کرتے تب بھی مرتے ہیں۔ عمران خان اپنے ووٹر اور سپورٹر کو خوش کرنے کے لیے پوری اپوزیشن کو جیلوں میں ڈال کے خود کو تنہا کرنے پر نہیں پچھتائے ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ وزیراعظم پاکستان بن کو سوچیں گے بیوقوفی کے سوا کیا ہوگی۔ وہ اپنے کہے کے اسیر ہیں۔ ان کی اسی "اسیری” نے شائد اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے لیے نادر موقع پیدا کیا ہے اب وہ اس سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ ان کی اچانک آمد بتارہی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ وزیراعظم عمران خان صاحب۔ ٹوئٹر اور ٹی وی ا سکرین سے باہر جھانکیں اور بڑا فیصلہ کریں۔ ملک بھر میں بیک وقت لاک ڈاؤن سے مثبت نتائج مل سکتے ہیں اس میں دیر نہ کریں۔ دل بڑا کریں چاروں وزرائے اعلیٰ۔ اپوزیشن اور عسکری اداروں سے مشاورت کریں اور فیصلہ کرگزریں اس سے پہلے کہ کہیں آپ کا "فیصلہ ” ہوجائے۔
وزیراعظم صاحب جن مزدوروں۔ دیہاڑی داروں کے غم میں آپ برابر کے شریک بنتے ہوئے لاک ڈاؤن نہ کرنے کا فیصلہ کررہے ہیں آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے ان میں سے 80 فیصد آپ کی نااہلی۔ نالائقی اور غلط پالیسی کی وجہ سے پہلے ہی بیروزگار ہوچکے ہیں۔ بیروزگاری کا شکار ہونے والوں کی ابتداء آپ کی حکومت نے میڈیا کارکنوں سے کی تھی۔ آج آپ ٹوئٹر اور بنی گالا سے باہر نکلیں اور قوم کو لیڈ کریں۔ آپ کے پاس وسائل کی کمی ہے تو آپ اپنے "تجربے” کو برائے کار لائیں اور مخیر حضرات کے سامنے جھولی پھیلائیں امید ہے وہ آپ کو مایوس نہیں کریں گے آپ یہ سوچ کر باہر نکلیں کہ آپ پاکستان کے لیے نہیں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے لیے چندہ مانگ رہے ہیں۔ آپ یقین کریں بشریٰ انصاری جیسی فنکارہ 10 لاکھ عطیہ کا اعلان کرچکی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار فنکار۔ کھلاڑی اور مخیر حضرت یہ اعلان کرچکے ہیں۔ آپ آگے بڑھیں بولڈ فیصلے کریں جہانگیر ترین کا جو جہاز آپ کی حکومت بنانے اور عثمان بزدار کی حکومت بچانے کے لیے استعمال ہورہاتھا اسے قوم و ملک بچانے کے لیے استعمال کریں۔ ملک ریاض کی خاطر آپ کی سرکار نے بہت کچھ کیا ہے ملک صاحب سے درخواست کریں کہ اس سے آدھی وہ آپ کی مدد کردیں۔ اعظم سواتی اور علیم خان جیسے دوستوں کی جیبوں میں سے بھی اس ملک و قوم کے نام پہ پیسہ نکلوایا جاسکتا ہے۔ خان صاحب آپ نے جو بولنا تھا وہ بول چکے اب عمل کا وقت ہے۔ آپ گفتار کی بجائے کردار کے غازی بن کے سیانوں کو غلط ثابت کردیں۔ یقین جانیں "سیانے” برا نہیں منائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔