میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
روس اور یوکرین ، ماضی اور حال

روس اور یوکرین ، ماضی اور حال

ویب ڈیسک
منگل, ۲۵ فروری ۲۰۲۵

شیئر کریں

منصور کرد

روس اور یوکرین کے تعلق کی تاریخ نویں صدی سے شروع ہوتی ہے، جب قدیم روسی ریاست ‘کیویائی روس’ یوکرین اور اردگرد کے ریاستوں پر مشتمل تھی تب یوکرین کا موجودہ دار الحکومت کیف (KIF) قدیم روسی ریاست ‘کیوائی روس’ کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔30 دسمبر 1922 کو یوکرین نے یونین آف سوشلسٹ ریبلکس کے اتحاد سوویت یونین میں شمولیت اختیار کی۔ 1991میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد 14آزاد ریاستیں وجود میں آئیں جس میں یوکرین بھی شامل تھا۔ یوکرین کے بطور آزاد خود مختار ریاست وجود میں آجانے کے بعد روس اور یوکرین کے باہمی تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا مگر مجموعی طور پر دونوں ممالک کے بیچ تعلقات بہتر تھے ۔ 2013 کے آخر میں یورپی یونین نے یوکرین کو یورپی یونین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ کرنے کی پیشکش کی۔ بنیادی طور پر یورپی یونین 27 ممالک کی اقتصادی اور سیاسی یونین ہے ۔ یوکرین کے اس وقت کے صدر وکٹریا نوکووچ نے یورپی یونین کے آزاد تجارتی معاہدہ کی پیشکش کو ٹھکرا دیا ۔اس کے برخلاف روس کے ساتھ ‘رشین ایرو ایشین اکنامک یونین’ میں شمولیت اختیار کی بنیادی طور پر رشین ایرو ایشین اکنامک یونین سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والے ممالک کا تجارتی گروپ ہے ۔ یوکرین کا یوں روس کی طرف جھکاؤ امریکہ اور یورپی یونین کے لیے قابل قبول نہ تھا۔
2014میں امریکہ اور یورپی یونین نے در پردہ یوکرین میں اپنے حمایت یافتہ سیاسی پارٹی ‘یورپین سولڈرٹی پارٹی’ جو اس وقت اپوزیشن میں تھی کی مدد سے یوکرین بھر میں سیاسی بحران پیدا کیا۔ ملک بھر میں پر تشدد مظاہروں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا کئی روز تک جاری رہنے والے ان پر تشدد مظاہروں میں 100سے زائد ہلاکتیں ہوئی اور بڑی تعداد میں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچا۔یوکرین کے صدر وکٹر یانووچ کو مجبوراً مستعفی ہوکر ملک چھوڑکر روس جاکر پناہ لینا پڑا ۔امریکہ اور یورپ کے حمایت یافتہ پارٹی یورپین سولڈرٹی پارٹی کے اقتدار سنبھالتے ہی پارٹی لیڈر پیٹرو پووشنکو جو اب صدارت کی کرسی پر براجمان ہو چکے تھے۔ انہوں نے یوکرین اور یورپ کے بیچ آزاد تجارتی معاہدہ پر دستخط کردیے ۔ 2013کے بعد یورپ یوکرین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن گیا جو پہلے روس ہوا کرتا تھا۔ روس اور یوکرین کے تعلقات کوآخری دھچکا تب لگا جب 9جولائی 2015کو یوکرین اور نیٹو نے اسٹینس پیکج پر دستخط کیے ۔ اس پیکیج کے تحت نیٹو نے یوکرین کو 335 بلین ڈالر کے ہتھیار فراہم کئے ۔ دراصل امریکہ اور 30 ممالک کے اتحاد نیٹو یوکرین کو نیٹو میں شامل کرکے روس کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتا تھا۔ روس نیٹو اور امریکہ کے ان اقدامات کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا تھا ۔اس غیر یقینی صورتحال کے دوران بالاخر 24فروری 2022کو روس نے یوکرین پر پوری طاقت سے حملہ کر دیا، یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایک جانب روس اور دوسری جانب یورپ اور امریکہ یوکرین کو اپنے زیر عتاب لانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کررہے تھے ۔روس اور یوکرین کے بیچ جنگ چھڑتے ہی امریکہ اور یورپی یونین نے سخت پابندیاں عائد کردیں ۔ روس کے خلاف اقتصاری پابندیاں اور یوکرین کی فوجی امداد نے پیچیدگی کو اور بڑھا دیا امریکہ اور یورپی یونین نے روس پر توانائی اور اقتصادی پابندیاں لگا دیں ۔ روس کی معیشت کو حد درجہ نقصان پہنچانے کی نیت سے روس پر ایک سے بڑھ کر ایک پابندی لگا رہے تھے ۔برطانیہ کے وزیر اعظم نے تو یہ تک کہہ دیا تھا وہ روس کی معیشت کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیں گئے ۔روس کو SWIFT Payment سسٹم سے الگ کردیا گیا۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو روس پر ڈالر استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ روس کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ وہ کبھی بھی سیکشنز کی زد میں آسکتا ہے۔ اس لئے روس نے ایسی پالیسی بنائی جس سے روس کی معیشت کو کم سے کم نقصان ہو۔ اور مستقبل میں اگر روس کو مزید سیکشنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے (روبیل روسی کرنسی کمزور ہو) لیکن روس اپنے فارن ایکسچینج سے فائدہ اٹھاکرروبل کو پھر سے خریدے گا۔ جس سے روبل کے گرنے کی رفتار کم ہوگئی، کیونکہ کوئی نہ کوئی روبل کو مارکیٹ میں خرید رہا ہو گا۔ روس کے پاس اس وقت دنیا کا پانچواں بڑا فارن ریزروہے ۔روس نے ایسی پالیسیز بنائیں جس سے اسے کم سے کم مالی مشکلات سامنا کرنا پڑے ۔ روس اپنی سرمایہ کاری پر زیادہ انحصار کرنے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ روس نے معاشی استحکام کے بجاے معاشی پیداوار پر زیادہ توجہ دی ۔ اس کے علاوہ روس نے بھارت اور چین سے سرمایہ کاری اپنے ملک میں منتقل کرائی، روس کے کئی ایک سیکٹرز ترقی یافتہ ہیں جیسے کہ ایگریکلچر،آٹو موبل ، ہتھیاروں کی پیداوار وغیرہ ۔ کچھ سال پہلے تک بھارت اپنے تمام ہتھیار روس سے خریدتا تھا۔ اس کے علاوہ افریقی ممالک اپنا 30فیصد سے زاہد ہتھیار روس سے خریدتے ہیں۔ روس جو ہتھیار دنیا کو فروخت کرنا چاہتا ہے وہ یوکرین کے خلاف استعمال کرکے ان کی افادیت کو جانچا۔روس نے صرف سال 2023 میں 53ملین ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے ۔روس یوکرین جنگ کی شروعات میں امریکہ اور یورپی یونین نے روس پر کئی پابندیاں لگا دی تھیں ۔ مگر وہ شاید بھول گئے تھے کہ یورپ تین اہم چیزوں کے لیے روس پر حد درجہ انحصار کرتا ہے جیسے کہ (1) ایندھن :یورپی ممالک کو 45 فیصد ایندھن کے Oil and Natural Gas روس فراہم کرتا ہے ۔روس یوکرین جنگ چھڑتے ہی آئی ایم ایف کے شرائط کے تحت یورپی ممالک پر روس کے نیچرل گیس اور تیل پر پابندی عائد کردی گی جس کے سبب یورپ بھر کا 45فیصد ایندھن راتوں رات بند ہوگیا۔ اس کے یورپ بھر میں منفی اثرات مرتب ہوئے جس سے قیمتوں میں بے حد اضافہ ہوا ۔ مثال کے طور پرجوایل این جی پہلے 75یورو تک ملتی تھی مگر اب اس کی قیمت 350 یورو تک پہنچ چکی ہے ۔ (2)معدنیات:جنگ سے پہلے روس یورپ کو مختلف معدنیات سپلائی کرتا تھا جنگ چھڑنے کے بعد روس نے ان معدنیات کی سپلائی بند کردی جس سے یورپ کی ریفائنری ۔مینو فیکچرنگ اورکسنٹرکشن سیکٹر بری طرح متاثر ہوئی (3)گندم : روس دنیا کا تیسرا بڑا گندم درآمد کرنے والا ملک ہے ۔ یورپی ممالک بھی گندم کی درآمدگی کے لیے روس پر انحصار کرتے ہیں۔ اسی طرح یوکرین کو دنیا کا Bread Basket کہا جاتا ہے ۔ جنگ چھڑنے کے بعد یوکرین یورپی ممالک کو گندم سپلائی کرنے سے قاصر ہے ۔ جنگ کے بعد روس یوکرین کے جن جن علاقوں پر قابض ہوچکا ہے ان علاقوں سے روس کو بڑی تعد نایاب زیر زمین دھاتیں اور معدنیات کے ذخائر ملے ہیں ۔ ان علاقوں سے روس کو کل 41کول فیلڈ، 27 نیچرل گیس سائٹس ، 9 آئل فیلڈز۔اسکے علاوہ گولڈ ، یورینیم اور لیتھیم جیسے کارآمد وسائل ہاتھ آئے ہیں ۔ دیکھا جائے تو حالیہ وقتوں میں یوکرین کو ملنے والی حمایت میں کمی آرہی ہے ۔ پچھلے دو برسوں کے دوران یوکرین کے اتحادی ممالک کی جانب سے اسے بھاری مقدار میں عسکری اور مالی امداد مہیا کی گی ہے ۔ KEEl INSTITUTE Of World Economyکے مطابق یورپی یونین کے اداروں نے یوکرین کو 92 بلین ڈالر جبکہ امریکہ نے 43 بلین ڈالر مہیا کیے ہیں ۔لیکن حالیہ دنوں میں اس امداد میں کمی دیکھنے میں آئی ہے جس کے بعد اس بحث نے جنم لیا ہے کہ آخر کب تک اتحادی ممالک کو یوکرین کی مدد کرنی پڑے گی۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی کرسی پر براجمان ہونے کے بعد شاید امریکی امداد ختم ہوجائے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں