ملک! ہائے میرا ملک!!
شیئر کریں
محسن نقوی نگراں وزیراعلیٰ مقرر ہوئے۔ رشتوں کی نزاکتوں میں جکڑے سرکاری فیصلے تہ داریوں میں بھی تہ بہ تہ لپٹے ہیں۔ کوئی مرگلہ کی پہاڑیوں سے چیخے، ملک ، ہائے میراملک!!
ٹہرئیے ٹہریئے کس حقیر موضوع پر وہ عظیم دانشور یاد آیا، جس کے حوالے مارکس، لینن ، شیکسپیئر، ارسطو، افلاطون اور فرائیڈ کے بعد سب سے زیادہ دیے گئے۔ فلسفی نوم چومسکی نے اپنی غیر معمولی کتابوں سے لسانیات، عمرانیات اور انسانی نفسیات کے مختلف شعبوں کو تبدیل کر دیا۔ وہ ریاستی اور بین الریاستی کشاکش میں طاقت کے حقیقی مراکز کو دریافت کرتے ہوئے مروجہ تصورات کو بھک سے اڑا دیتا ہے۔وہ ایسا سراغ رساں ہے کہ دنیا بھر کی حکومتوں پر کنٹرول رکھنے والی امریکی حکومت کو کنٹرول کرنے والی طاقت کو بھی کھوج لیتا ہے۔چومسکی کی 2011ء میں ایک چشم کشا کتاب”How the World Works” سامنے آئی، یعنی دنیا کیسے کام کرتی ہے؟ کھیل کے اندر کھیل کو سمجھانے والی یہ کتاب انسان کو بت کدۂ اوہام کی ویرانیوں سے نکال کر حقیقت کی تپتی دھوپ میں لے آتی ہے۔ وہی نوم چومسکی اب پھر گرہ کشائی کرتا ہے، دنیا ناقابل تلافی نقصان کی طرف بڑھ رہی ہے۔نوم چومسکی کی دنیا کچھ زیادہ بڑی ہے، مگر کیا کیجیے! ہماری تو کُل دنیا ہی پاکستان ہے۔ ہمارے لیے دنیا کے ناقابل تلافی نقصان کی طرف جانے کا کوئی مطلب ہی نہیں ، ہاں مگر پاکستان کے ناقابل تلافی نقصان کی جانب بڑھنے سے دل بیٹھ جاتا ہے۔ نوم چومسکی کا اپنا اُسلوب اور اپنے الفاظ ہیں، ایک حالیہ انٹرویو میںکہتا ہے:تباہی کو جانچنے کے لیے ساختہ گھڑی ”ڈومس ڈے کلاک”بربادی کے مقررہ نقطے تک پہنچ گئی ہے، اندازا ہوتا ہے کہ انسان نسل کشی پر آمادہ ہے”۔ وہ اس موت آمادہ بربادی کی تین وجوہات بیان کرتا ہے۔ ابتدائی دو وجوہات بھی ہمارے لیے اہم ہیں، مگر تیسری وجہ ہی اصل ہے جس کا پاکستان میں ہمیں سامناہے او رجو ہماری ”ڈومس ڈے کلاک” کو بربادی کے نقطے تک لے آئی ہے۔ چومسکی تیسری وجہ کے ذیل میں کہتا ہے کہ” لوگوں میں مسائل کو منطقی انداز سے حل کرنے کی صلاحیت زوال پزیر ہو رہی ہے ، اورجمہوری قوتیں کم سے کم ہوتی جا رہی ہیں”۔چومسکی جب جمہوری قوتوں کی کمی کی بات کرتا ہے تو وہ جمہوری قوتوں کے اندر ہی جمہوریت کی تلاش میں ہوتا ہے۔ کچھ یہی ماجرا ہمارا بھی ہے۔ ہم نے مسائل کو منطقی انداز میں حل کرنے کی صلاحیت کبھی پائی ہی نہ تھی جو اس کے زوال کا ماتم کرتے۔ ہماری جمہوریت بھی کبھی جمہوری نہ تھی سو اس کے لیے بھی کیا روئیں۔ مگر بدقسمتی دیکھیے! جو کچھ جیسے بھی جتنی کہتر، کمتر اور بدتر حالت میں میسر تھا، ہاتھ سے جارہا ہے۔ مسائل کو منطقی انداز میں حل کرنے کی صلاحیت کا تازہ مظاہرہ نگراں وزیرا علیٰ پنجاب کی تقرری میں ہوا ہے، جہاں محسن نقوی کو ایسے اُتارا گیا ہے جیسے کبھی بنی اسرائیل کے لیے آسمانوں سے من وسلویٰ اُتارا جاتا تھا۔
ماشاء اللہ محسن نقوی کی خانہ کعبہ میں فوجی سربراہ کے ساتھ چَھب دکھلائی جا رہی ہے، گوہر شاہی کی طرح جس کی تصویر کبھی چاند پردکھائی دیتی تھی۔ یہ کافی نہ تھا کہ ایک بصری فیتہ بھی ہماری بینائی کو بڑھانے کے لیے منہ پر مارا گیا ہے، جس میں جناب زرداری چودھری پرویز الہٰی کو شستہ پنجابی میں فرماتے ہیں کہ تمہارا تو یہ رشتے دار ہے مگر ہمارا تو یہ بچہ ہے”۔وہی زرداری جسے پیسوں کی نہ ختم ہونے والی بھوک کے عذاب میں ایسے مبتلا کیا گیا ہے کہ پیٹ کی بھوک مٹادی گئی۔ محسن نقوی اُن کے ساتھ بیٹھ کر فلمیں دیکھنے کی قربت بھی رکھتا ہے۔ خیر سے اب وہ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب ہے۔ مگر اُس نوم چومسکی کا کیا کریں جو ہمیں اتنی اچھی اور اُجلی تصویر میں مسائل پر منطقی انداز سے سوچنے کی زحمت میں مبتلا کرتا ہے۔ کوئی مرگلہ کی پہاڑیوں سے چیخے، ملک ! ہائے میرا ملک!!
نگرانوں کا منصب غیر جانب داروں پر سجتا ہے۔مگر ہمارے غیر جانب دار جیسے غیر جانب دار ہیں ، ویسے ہی مسلط بھی کرتے ہیں۔ محسن نقوی بھی ایسے ہی مسلط کیا گیا۔ محسن نقوی کو نگراں وزیراعلیٰ مقرر کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کی اِصابت کے طور پر یہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھا کہ موصوف کو متفقہ طور پر وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا۔ کیا الیکشن کمیشن میں موم کے پُتلے اور چابی کے کھلونے ہوتے ہیں ، کوئی انسان نہیں ہوتے، جو اختلا ف کے معمولی شرف سے بھی محروم ہے۔ کیا ان کا اتفاق رائے کا ہنر کسی اور میں نہیں ،ممحسن نقوی کے چُننے میں ظاہر ہوتا ہے۔ محسن نقوی کا فیصلہ اگر متفقہ نہ ہوتا تو حیرت ہوتی ، ایسے فیصلے اگر غیر متفقہ ہو تو پھر وہ گنجائش نکلتی ہے کہ نظام میںہی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس میں اصلاح و ترمیم کی گنجائش پیدا کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ مگر اس فیصلے کے اجتماعی ہونے سے ہی ثابت ہوا کہ الیکشن کمیشن کا ذہنی دیوالیہ پن بھی اجتماعی اور متفقہ ہے۔ اس نظام پر عدم اعتماد بھی اجتماعی اور متفقہ ہے۔ اس نظام پر نحوست بھی کلی ہے۔ اس نظام پر لعنت بھی مکمل ہے۔ کسی ایک آدمی کے اختلاف نہ کرنے سے یہ واضح ہے کہ پورا نظام چاکری کر رہا ہے۔ کسی ایک میں بھی عزت کی کوئی پروا نہیں۔ کسی ایک پر بھی انسانی شرف کا کوئی معمولی ساسایہ بھی نہیں پڑا۔
الیکشن کمیشن کی منطقی انداز میںمسائل حل کرنے کی صلاحیت کا اندازا محسن نقوی کی متفقہ طور پر تقرری سے ہوتا ہے۔ ایک ایسے صوبے میں جہاں وفاقی حکومت سے اختلافات کے ناقابل واپسی نقطے پر تحریک انصاف اپنی حکومت پر لات مارتی ہے، وہاں الیکشن کمیشن کے پاس یہ مسئلہ ایسی حالت میںپہنچتا ہے کہ صوبائی حکومت کے مستعفی وزیراعلیٰ ، قائد حزب اختلاف کے ساتھ کسی نام پر اتفاق نہیں کرتے۔ مسئلہ اتنا سنجیدہ ہے کہ دیگر حل بھی موثر نہیںرہتے۔ یہاں تک کہ یہ معاملہ تیسرے فورم یعنی الیکشن کمیشن کے پاس جاتا ہے، جس کا آئینی کردار پہلے سے غیر جانب دار ہونا طے ہے۔ مگر وہ اپنے کردار سے خود کو جانب دار ثابت کرچکا ہے، وہ وفاقی حکومت میں شامل تمام اتحادی جماعتوں کے لیے نرم گوشے کے ساتھ آسانیاں پیدا کرنے کے الزام رکھتا ہے۔ جس کے پاس ایسے مقدمات ہیں جس کو یکطرفہ چلانے کے اُس پر الزامات ہیں۔ جس نے ابھی کراچی میں ایک ایسا بلدیاتی انتخاب کرایا ہے ، جس میں کسی بھی نمبر پر ناموجود پیپلزپارٹی کو پہلے نمبر پر لانے کی جادو گردی دکھائی ہے۔جس نے فارم گیارہ اور بارہ کے نتائج سے آنکھیں پھیر کر ایسے نتائج دیے ہیں جس کی تائید خود اس کے پاس موجود محفوظے ( ریکارڈ) سے نہیںہوتی۔ وہ الیکشن کمیشن ایک ایسے شخص کو نگراں وزیراعلیٰ کے طور پر مقرر کرتا ہے ، جس کی جانب داری واضح ہے۔ جس کا ماضی عیاں ہے۔ اس نگراں وزیراعلیٰ کو غیر جانب دار رہ کر اُس صوبے میں انتخاب کرانے ہیں جس پر پاکستان کا مستقبل منحصر ہے۔ مگر وہ یہ کام ایسے کرے گا کہ زرداری اُسے اپنا بچہ کہتا ہے، اور وہ اگلاوزیراعظم اپنے بیٹے بلاول کو لانے کی منصوبہ بندی کا برملا اظہار بھی کرتا ہے۔ کیا اس متعفن ماحول میں محسن نقوی غیر جانب داری سے پنجاب میں انتخابات کرائے گا؟کیا یہ ہمارا منطقی شعور ہے جو مسائل کو حل کرنے میں استعمال ہو رہا ہے؟
نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی کو چنتے ہوئے یہ احساس بھی غالب تھا کہ ان پر مختلف النو ع اعتراضات وارد ہوں گے۔ مگر فیصلہ ساز قوتوں نے اس کی چنداں پروا نہیںکی۔طاقت ور حلقوں نے اس پہلو کو بھی اہمیت نہیں دی کہ یہ معاملہ سیاسی طور پر ہی نہیںبلکہ عدالتوں میں بھی خفت کا باعث بنے گا۔کیونکہ عدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کے تحت کسی بھی مالیاتی فضیتے (اسکینڈل) میں پلی بارگین کرنے والا کوئی بھی ملزم عوامی منصب کے لیے مستقلاً نااہل ہو جاتا ہے۔ وہ حارث اسٹیل میل کیس میں2010 میں 35 لاکھ روپے نیب کو ادا کرچکے ہیں۔ یہ معاملہ تمام فیصلہ ساز قوتوں کے علم میں تھا، مگر اس کے باوجود یہ فیصلہ لیا گیا۔ یہاں تک کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد رات گئے محسن نقوی سے فورا ًسے پیشتر حلف بھی اُٹھوا لیا کیونکہ یہ اندیشہ موجود تھا کہ اگلے ہی روز یہ معاملہ عدالت میںزیر بحث آ سکتا ہے۔ آخر تما م قوتیں مجتمع ہو کر کیوں اس نظام پر باقی رہ جانے والے معمولی اعتماد کو بھی ختم کرنے پر تُل گئی ہیں؟ یہ کافی نہ تھا کہ اگلے ہی روز محسن نقوی نے اپنا پہلا حکم نامہ سی سی پی اور لاہور کے طور پر ایک ایسے شخص کو تعینات کرنے کی صورت میں جاری کیا جو 25 مئی کو تحریک انصاف کے خلاف ریاستی تشدد کا نگران تھا۔ محسن نقوی کی متنازع تقرری کے بعد ایک ذرا سا معمولی وقفہ بھی نئے متنازع فیصلوں کے لیے گوارا نہیں کیا گیا۔ یہ نظام آخر کیوں اتنی عجلت میں ہے؟ محسن نقوی کی تقرری کے فیصلے سے محسن نقوی کے اپنے فیصلوں تک کسی منطقی انداز سے سوچنے کی صلاحیت کا معمولی بھی اظہار نہیں ہوا۔ کیا نظام کی قوتوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے میں ملک پر قائم اعتماد کو بھی داؤ پر لگانے سے نہیں ہچکچائیں گے؟ کیا تباہی جانچنے کی ہماری ”ڈومس ڈے کلاک” بربادی کے مقررہ نقطے تک پہنچ گئی ۔ کوئی مرگلہ کی پہاڑیوں سے چیخے ملک !ہائے میرا ملک!!
٭٭٭