میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سفر یاد۔۔۔ قسط46

سفر یاد۔۔۔ قسط46

منتظم
بدھ, ۲۵ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی آمد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہنچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موجود تھے اس لیے ہم بھیڑ سے الگ کھڑا ہونے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ ہم اظہار عالم کو اور وہ ہم کو دیکھ سکیں۔ سوا دس بجے کے قریب کسی نے پیچھے سے ہمارے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور زور سے سلام کیا، ہم نے وعلیکم سلام کہتے ہوئے اظہار عالم کو گلے سے لگا لیا۔ ہماری ملاقات کئی سال بعد ہو رہی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کا حال احوال پوچھنا شروع کیا کھڑے کھڑے خوب باتیں کر لیں۔ پھر اظہار عالم نے کہا چلو بھائی باقی باتیں گاڑی میں کر لینا۔ اظہار عالم کی گاڑی کافی دور کھڑی تھی وہاں تک پہنچنے تک باتیں بھی چلتی رہیں۔ کچھ ہی دیر میں اظہار کی گاڑی جدہ کی جانب رواں دواں تھی۔ مکہ سے جدہ کا فاصلہ تقریبا75 کلومیٹر ہے۔ ہم کوئی ایک گھنٹے میں اظہارعالم کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ وہاں عجیب بے ترتیبی پھیلی ہوئی تھی جیسی عام طور پر اکیلے رہنے والوں کے گھروں میں ہوتی ہے ہم نے تعجب کا اظہار کیا تو اظہار نے بتایا کہ اس کی فیملی پاکستان گئی ہوئی ہے۔ ہمیں گھر کا کھانا کھانے کا اشتیاق تھا لیکن یہاں تو اظہار خود ہوٹل سے کھانا کھا رہا تھا۔ خیر بیگ گھر میں رکھنے کے بعد ہم اظہار کے ساتھ باہر نکل آئے، اظہار ہمیں ایک پاکستانی ہوٹل پر لے گیا جہاں حلوہ پوری، پراٹھہ سب دستیاب تھا۔ ہم نے حلوہ پوری سے انصاف کرنے کے بعد مزیدار چائے پی، ہوٹل پر لسی بھی دستیاب تھی ۔اظہار کے اصرار پر ہم نے لسی بھی پی یعنی بھر پور شکم سیر ہوگئے۔ ناشتے کے بعد اظہار ہمیں دوبارہ اپنے گھر لے گیا۔ اظہار کی رہائش جدہ کے علاقے عزیزیہ میں تھی۔ اظہار کے گھر میں کچھ دیر گپ شپ کے بعد ہم آرام کرنے کے لیے لیٹے تو آنکھ لگ گئی، اٹھے تو شام کے چار بج رہے تھے۔ ہم نے اظہار سے گلہ کیا کہ بھائی ہماری آنکھ لگ گئی تھی تو اٹھا دیتے ہم نے جدہ شہر دیکھنا تھا، کچھ دوستوں سے بھی ملاقات کرنی تھی۔ اظہار نے کہا کہ اس نے جان بوجھ کر ہمیں نہیں اٹھایا تاکہ ہماری نیند پوری ہو جائے۔ ہم جلدی جلدی تیار ہوئے اور اظہار کے ساتھ جدہ گھومنے نکل پڑے۔
جدہ، سعودی عرب کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ قدیم دور میں یہ مچھیروں کی بستی تھی جہاں اس دور کی کشتیاں لنگر انداز ہوتی تھیں۔ اب یہ ایک جدید بندرگاہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جدہ کا سٹی سینٹر بلد کہلاتا ہے۔ یہ پرانا شہر ہے اور یہاں خاصی پرانی عمارتیں موجود ہیں۔ یہ ہمارے کراچی کے صدر اور لاہور کی انارکلی جیسا گنجان علاقہ ہے۔ یہاں سے مکہ اور مدینہ جانے والی پرانی سڑکیں نکلتی ہیں۔ بلد سے مدینہ جانے والی پرانی سڑک شہر کے بیچوں بیچ گزرتی ہوئی مدینہ کی طرف جاتی ہے۔ جدہ میں پاکستانی زیادہ تر شرفیہ، بنی مالک اور عزیزیہ کے علاقوں میں رہتے ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی عزیزیہ میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ یہاں پاکستان ایمبیسی اسکول کے علاوہ کئی پاکستانی اسکول ہیں۔عزیزیہ میں بہت سارے پاکستانی ہوٹل ہیں جن میں مشہور مہران، کبابش، عثمانیہ، اور لاثانی ریسٹورینٹ ہیں۔عزیزیہ میں پاکستانی مٹھائیوں کی دکانیں بھی ہیں یہاں آپ کو نرالا سویٹ ہاو¿س بھی ملے گا جہاں پاکستانی مٹھائی کھانے کے لیے لوگوں کا رش لگا رہتا ہے۔ یہاں پاکستانی اشیا کی بھی بہت سی دکانیں موجود ہیں جہاں سے آپ پاکستانی کپڑے، مصنوعات اور دیگر اشیا خرید سکتے ہیں۔ جدہ کی سڑکیں ناپتے ہوئے ہم اپنے ایک دوست آغا انور علی کی طرف چلے گئے۔ آغا صاحب سعودی عرب کے ایک سرکاری ادارے میں ملازم تھے اور ان کی رہائش ایک سرکاری کمپاﺅنڈ میں تھی۔ آغا بھی ہماری طرح بیچلر زندگی گزار رہے تھے۔ آغا نے اپنا کمپاونڈ دکھایا جہاں سوئمنگ پول، جمنازیم اور لائبریری جیسی سہولیات موجود تھیں۔ آغا کے ولا میں چائے پینے کے بعد ہم آغا اور اظہار پھر جدہ کی سڑکیں ناپنے نکل پڑے۔ شام میں ہم لوگ جدہ کورنش پہنچے، یہاں ساحل کے ساتھ ساتھ سڑک بنائی گئی ہے جبکہ لوگوں کے بیٹھنے کے لیے سڑک کے ساتھ پارک بھی بنائے گئے ہیں۔ یہاں لوگ فیملیز کے ساتھ آتے ہیں، کچھ لوگ یہاں باربی کیو بنا رہے تھے ، کبابوں سے اٹھتی خوشبو بھوک بڑھا رہی تھی۔ ہم نے جدہ فاونٹین بھی دیکھا، یہ فوارہ دنیا کا بلند ترین فاونٹین کہلاتا ہے۔ آج کل مسجد فاطمہ زہرہ جدہ کورنش کی سب سے بڑی اٹریکشن بنی ہوئی ہے، یہ مسجد سمندر میں تیرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔۔ جاری ہے
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں