مولانا فضل الرحمان اور ہواکا جھونکا
شیئر کریں
جمعیت علمائے اسلام میں داخلی انتشار کی کھڑکی کھل گئی۔ عقیدت کا بہاؤاور نظم وضبط کا رچاؤ اس کی ایک پہچان ہے، مگر اب نہیں۔ مولانا فضل الرحمان وقت کے دائرے میں تاریخ کا وہی وار سہہ رہے ہیں جو کبھی وہ دوسروں پر کرتے تھے۔ مولانا خان محمد شیرانی کا موقف نک سک سے غلط ہی ہو، مگر مولانا فضل الرحمان کے لیے ایک چیلنج تو پیدا ہوگیا۔ بلوچستان سے مولانا شیرانی اس طرح گونجے ہیں کہ ’’مولانا فضل الرحمان خود ایک سلیکٹڈ ہیں‘‘۔ اتنا ہی نہیں، اُن کے الزامات میں ایک تحقیر بھی ہے۔ اُنہوں نے جے یوآئی کے دھرنے سے لے کر استعفیٰ مہم تک ہر معاملے کو مشکوک بنا دیا۔ سرگوشیاںہیں کہ جے یوآئی کی صفوں میں بھی مولاناشیرانی کے اس موقف کی ایک حمایت موجود ہے۔ مولانا شیرانی کی گُچھے اور لچھے دار گفتگو کو سلجھائیں تو دو، سِرے ہاتھ آتے ہیں۔ اسرائیل کی حمایت اور مولانا فضل الرحمان کی مخالفت۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر دو شاندار تبصرے بھی۔
کون نہیں جانتا، مولانا فضل الرحمان کا سیاسی وجود تعقل پسندی، عملیت پسندی اور افادیت پسندی کا جاندار وشاندار شاہکار ہے۔ اُن کے سیاسی تناظر میں فیصلہ سازی کے لیے صحیح و غلط کم اور مفید ونقصان دہ کا گوشوارہ زیادہ غالب رہتا ہے۔ وہ مواقع کو مجسم کرنے کی اپنی حیرت انگیز صلاحیت پر مخالفین کو بھی مرعوب رکھتے ہیں۔ اب اُنہیں مولانا شیرانی کا سامنا ہے۔ مگر نہیں، اُنہیں اپنے ہی طرز ِفکر سے باانداز دِگر واسطہ آ پڑا ہے۔ مولانا شیرانی اب جے یو آئی کی صفوں سے شاید گم کردیے جائیں، مگر اس سے قبل اُنہیں’’برداشت‘‘ (یہ لفظ خود مولانا نے اپنے ردِ عمل میں اُن کے لیے استعمال کیا) کیا جاتا رہا۔اگرچہ اُن کے تصورات میں موجود خامیاں اور فاش غلطیاں ہمیشہ سے عریاں رہیں۔ وہ ماضی میں امریکا کی افغانستان میں جارحیت پر لب کشائی سے گریزاں رہے۔ اُنہوںنے طالبان کے امیر المومنین ملاعمرؒ کے خلاف عجیب و غریب سوالات اُٹھائے۔اب وہ اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے موقف کی حمایت میں اردو نیوز جدہ کو انٹرویو دے رہے ہیں، جہاں سے مشرق وسطیٰ کے مختلف حامی ممالک کو اسرائیل تسلیم کرنے کی مہم کی درِ پردہ سرپرستی کی جارہی ہے۔کیا قیامت ہے کہ عالمِ اسلام کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست اسرائیل کے ناپاک وجود کو عالم تمام کی سب سے مقدس سرزمین سے مادہ پرست اور جدیدیت پسند حکمران بادشاہوں کی حمایت میسر آگئی ہے۔مولانا شیرانی نے اسے عالمِ عرب کا مسئلہ قرار دے دیا۔یوں مولانا شیرانی کے الفاظ کی بازگشت میں ایک مرتبہ پھر تقسیمِ ہند سے قبل کے مسئلہ قومیت کا جن نئے سرے سے بوتل سے باہر نکلا ہے۔ مسلمانانِ برصغیر نے آٹھ دہائیوں قبل اپنا ’’ورڈویو‘‘ طے کرتے ہوئے قوم کی تشکیل کا وطنی تصور اسلامی نظریے پر اُٹھایا تھا۔ اللہ حکیم الامت اشرف علی تھانویؒ، مولانا قاری محمد طیبؒ، مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ اور مولانا مودودیؒ کی قبروں کو نور سے منور کردیں۔ جن کے مذہبی شعور نے مسلمانوں کی ایسی سیاسی تربیت کی جو قائداعظم ؒ کے دوقومی نظریے میں وطن کے بت کو پاش پاش کرتا ہے۔ اب مولانا شیرانی کا ارشاد ہے کہ یہ عربوں کا مسئلہ ہے۔ ہائے یہ عالمِ اسلام !!!
مولانا فضل الرحمان مگر اس نوع کے موقف بھی برداشت کرتے رہے، اُنہوں نے مولانا شیرانی کو تب نظرانداز کیا جب وہ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین بن گئے۔ حالانکہ متحدہ مجلس عمل کا فیصلہ یہ تھا کہ پرویز مشرف کی مرکزی حکومت میں ایم ایم اے کوئی عہدہ قبول نہیں کرے گی۔ مولانا شیرانی سے تب کوئی باز پرس نہ کی گئی جب وہ حافظ حسین احمد کو ٹکٹ دینے کی راہ میں رکاؤٹ بنے۔ مولانا شیرانی بلوچستان میں جے یوآئی کی پارلیمانی قوت پر اپنی مضبوط گرفت رکھتے تھے ، سو مولانا فضل الرحمان کی عملیت پسندی نے اُنہیں روکے رکھا۔ یہاں تک کہ مولانا شیرانی کے خلاف بغاوت ہوئی اور جے یوآئی کے اندر جمعیت علمائے اسلام نظریاتی کا ایک دھڑا وجود میں آگیا۔ مگر اب مولانا شیرانی نے کسی اور کو نہیں خود مولانا فضل الرحمان اور اُن کی حالیہ پوری سیاست کو اپنے نشانے پر لے لیا ہے۔ مولانا شیرانی نے جے یو آئی کے 31؍ اکتوبر سے 13؍ نومبر 2019 تک کے تیرہ روزہ دھرنے کے متعلق یہ سوال اُٹھا دیا کہ اس کی منظوری مولانا فضل الرحمان نے بہت بعد میں مجلسِ شوریٰ سے لی اور یہ ایک لاحاصل مشق تھی۔ اُنہوں نے پی ڈی ایم کی جانب سے نئے دھرنے کے اعلان کو بھی اسی نوع کی ایک مشق قرار دیا۔ مولانا شیرانی نے مولانا فضل الرحمان کی امارات پر بھی سوال اُٹھایا ہے۔ مولانا شیرانی کے خیالات کبھی لائقِ توجہ نہ تھے، مگر اُن کا علم الکلام جہاں سے برآمد ہوا ہے، وہ خود جے یوآئی کی قیادت کی جانب سے اپنی ہی جماعت میں متعارف کرائی گئی موقع پرستی کی ثقافت ہے۔ مولانا شیرانی کے دو شاندار تبصروں سے اس کو سمجھتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان ان دنوں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر تمام جماعتوں کو اجتماعی استعفوں کے لیے تیار کررہے ہیں۔ مولانا شیرانی نے اس استعفیٰ مہم کے غبارے سے یہ کہہ کر ہوا نکالی ہے کہ ’’استعفے نقد چیز ہیں اور نقد چیز پھینک کر ادھار کی امید پر بیٹھنا کوئی دانائی کی بات نہیں‘‘۔ یہ چمکتا دمکتا فقرہ مولانا فضل الرحمان سمیت مکمل جے یو آئی کی سیاست کی کل شریعت ہے، جس پر یہ خشوع وخضوع سے کاربند رہے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کے سنہری دور میںجب جنرل مشرف کی وعدہ خلافی پر خیبر پختونخواہ کی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا گیا تو یہ جے یوآئی ہی تھی جس نے استعفیٰ نہیں دیا۔ تب مولانا فضل الرحمان نے قاضی حسین احمد کو فرمایا تھا: میںجن علماء کو حجروں سے باہر نکال کر اسمبلیوں میں لے آیا ہوں، اُنہیں واپس حجروں میںکیسے لے جاؤں‘‘۔تب جے یو آئی کے رہنما اِٹھلاتے ہوئے فرمایا کرتے:سیاست میں استعفے نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘‘۔ مولانا شیرانی کا دوسرا تبصرہ زیادہ گہرا ہے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ مولانا فضل الرحمان کی سیاسی حکمت عملی پر کیونکر سوال اُٹھا سکتے ہیں جبکہ وہ اپنی کامیاب سیاست سے اب دس جماعتی پی ڈی ایم کی سربراہی کررہے ہیں۔اس پر مولانا شیرانی نے کہا کہ کوثر نیازی کی کتاب ’’اور لائن کٹ گئی‘‘ پڑھ لیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنے خلاف قائم سیاسی اتحاد پی این اے کے سربراہ کسی بھی دوسرے رہنما کے بجائے مفتی محمود کو دیکھنا چاہتے تھے،تاکہ وہ بھٹو کی پرکشش شخصیت کے مقابلے میں عوام کے لیے زیادہ باعثِ کشش دکھائی نہ دیں۔ بھٹو کی اسی نفسیات سے اس کے گھناؤنے نتائج نکلے، بھٹو اپنے انجام کو پہنچے اور مفتی محمود اپنی قبر میں سرخرو اُترے۔ مگر بھٹو کی اس ذہنیت کو مولانا خان شیرانی نے مولانا فضل الرحمان کی پی ڈی ایم کی سربراہی کو مشکوک بنانے کے لیے استعمال کیا۔ پاکستان کی دھوکا دہی کی تاریخ میں مولانا شیرانی کے اس حوالے نے مولانا فضل الرحمان کے وقار کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے، اس کا اندازا بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ مگر اس کا کیا کِیا جائے کہ خود جے یوآئی کی جس نوع کی اُٹھان کی گئی اسی نے یہ موقع فراہم کیاہے۔ جب رہنماؤں کو عملیت پسندی، افادیت پسندی اور جاہ پسندی کی بنیاد پر اُٹھایا جائے گا تو وہی اُن کی ترجیح بھی ہوگا۔ اُن سے برآمد بھی یہی کچھ ہوگا۔رہنماؤں کی اہمیت سمجھنے کے لیے علمائے کرام مناقب الانصار کی اُس طویل حدیث کو سامنے رکھیں، جس میں حضرت ابو بکر صدیقؓ سے ایک عورت کے سوال کا ذکر ہے، خاتون نے پوچھا:دین کا معاملہ کب تک درست رہے گا؟خلیفہ اول نے فرمایا:تم لوگ دینِ صحیح پر تب تک قائم رہو گے، جب تک تمہارے رہنما درست رہیں گے‘‘۔
اگر گستاخی معاف کی جاسکے تو جے یو آئی کی قیادت کی خدمت میںامام غزالیؒ کی کتاب ’’نصیحتہ الملوک‘‘ سے وہ حکایت بھی پیش کردی جائے ، جو تاریخ کے دوام میں کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتی رہے گی۔ حضرتِ سلیمان ؑ اپنے تخت پر جلوہ افروز تھے، جب ہوا کا ایک جھونکا آیا اور اُنہیں اوپر اڑا لے گیا، حضرت سلیمان ؑ نے اپنی مملکت پر نظر ڈالی،ان کے دل میں غرور کا ذرا سا تاثر پیدا ہوا، جنات ،پریاں ، پرندے اور انسان اُن کے فرماں بردار تھے۔اپنی طاقت کے اس احساس میں تھے کہ تخت لڑکھڑانے لگا۔تب حضرت سلیمان ؑ نے فرمایا: اے تخت سیدھا رہ۔تخت نے جواب دیا:اپنے آپ کو سیدھا رکھ تاکہ میں سیدھا رہوں‘‘۔ حضرت سلیمان ؑ کو جو تجربہ ہوا وہ ہوا کے ایک جھونکے کی بدولت تھا۔ مولانا خان شیرانی کہیں مولانا فضل الرحمان کے لیے وہی ہوا کا جھونکا تو نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭