میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مقبوضہ بیت المقدس اور انصاف کا دہرا معیار

مقبوضہ بیت المقدس اور انصاف کا دہرا معیار

منتظم
اتوار, ۲۴ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

فیصل ندیم
14مئی 1948ء دنیا کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے کہ جب سر زمین فلسطین پر اسرائیل جیسی غاصبانہ اور ظالمانہ ریاست کے قیا م کا اعلان کیا گیا۔ 11 مئی 1949ء میں جس وقت اقوام متحدہ نے اسرائیل کو بطور ریاست قبول کرنے کا فیصلہ کیا اس وقت صرف 6 فیصد یہودی اس خطہ میں آباد تھے، لیکن فلسطین کا 65 فیصد حصہ ا ن کے حوالہ کرکے اقوام متحدہ نے مشرق وسطیٰ میں فساد کی ایسی داغ بیل ڈ الی کہ یہ خطہ اس وقت سے لے کر آج تک آگ اور خون کی لپیٹ میں ہے۔ مسئلہ فلسطین ایسا مسئلہ ہے کہ جس نے اقوام متحدہ اور دیگر اقوام مغرب کے انسانیت کے بارے میں بلندوبانگ دعوئوں کا پول کھول کر رکھ دیا۔ اسرائیل کے قیام کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں کی آمد کے سلسلہ کو تیز سے تیز تر کر دیا گیا اور ان کی آمد کے بعد اگلا ستم جو مظلوم فلسطینی مسلمانوں پر ڈ ھایا گیا وہ یہ تھا کہ انہیں ان کی آبادیوں سے بے دخل کرکے ان کی جگہ پر یہودی بستیاں بسانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ جب فلسطینی عوام کی طرف سے مزاحمت کی گئی تو ان پر وہ مظالم ڈ ھائے گئے کہ جنہیں دیکھ کر چنگیز خان کی روح بھی شرمسار ہوجائے۔
عرصہ ستر سال سے جاری مسئلہ فلسطین کا ایک سنگین پہلو بیت المقدس (یروشلم) کا اسرائیلی قبضہ میں ہونا بھی ہے۔ بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بنانا اسرائیلی یہودیوں کا ایک دیرینہ خواب ہے، لیکن مسلمانوں کے مسلسل دبائو کے سبب وہ اپنے عزائم میں ہمیشہ ناکام رہا ہے۔ اسرائیل کے قیام سے لے کر آج تک جس طاقت نے اسرائیلی مظالم سے چشم پوشی کرتے ہوئے اس کے ہر غاصبانہ اور جابرانہ عمل کی بھرپور حمایت کی ہے، اس کا نام امریکا ہے۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانا امریکی حکومت کے ترجیحی ایجنڈ ے کا حصہ رہا ہے، لیکن بوجوہ وہ ناکام رہا۔ حالیہ امریکی صدر ڈ ونلڈ ٹرمپ کے بطور صدرِ امریکا انتخاب کے بعد اسرائیل کے لیے امریکی حمایت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ڈ ونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے لیے وہ کام کردکھایا جو اس سے پہلے کے امریکی صدور باوجود تمام تر خواہش کے کرنے میں ناکام تھے۔ اس امر سے ساری دنیا واقف ہے کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق، جمہوریت اور امن وسلامتی کا چیمپیئن بننے والا امریکا ہی دنیا کے امن کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ ویت نام، کمبوڈیا، صومالیہ، سوڈان، عراق، افغانستان اور لیبیا میں امن قائم کرنے کے نام پر لاکھوں انسانوں کا قتل عام امریکا بہادر ہی کا کارنامہ ہے۔ اپنے ملکی مفادات کے حصول کے لیے دنیا کے تمام قوانین کو روند ڈ النا امریکا کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ کھولنے اور اسے اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان بھی اسی امریکی فطرت کا ایک مکروہ ترین شاہکار ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب ساری دنیا بشمول یورپ اور مغرب بیت المقدس پر اسرائیلی قبضہ کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے، یہ امریکا ہی ہے جو ساری دنیا سے متضاد فیصلہ کرکے دنیا کو ایک نئی اور تباہ کن جنگ کی طرف دھکیلنے میں مصروف ہے۔
ٹرمپ کے اس گمراہ کن اعلان کے بعد پوری دنیا کے مسلمانوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جگہ جگہ مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مسلم حکمرانوں کی جانب سے فوری طور پر ترکی میں او آئی سی کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا، جس میں بڑی تعداد میں مسلم ریاستوں کے سربراہان اور دیگر اعلیٰ حکومتی اہلکاروں نے شرکت کی۔ پاکستان کے وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی بھی اس کانفرنس کا حصہ تھے۔ تمام مسلمان ممالک نے متفقہ طور پر نہ صرف یہ کہ اس فیصلے کی مذمت کی بلکہ اسے ماننے سے بھی یکسر انکار کردیا۔ عصر حاضر میں یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ پونے دو ارب کی تعداد میں ہونے کے باوجود ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان کی نااتفاقی اور انتشار ہے۔ لڑائو اور حکومت کروکی پالیسی کے تحت امریکا اور دنیا کی دیگر اقوام مسلمانوں کی باہمی لڑائیوں کو ہوا دے کر انہیں قتل کرنے اور کروانے میں مشغول ہیں۔ اپنی حقیقی طاقت سے ناواقف مسلمان، آج جس طرح کاسۂ گدائی اٹھا کر دنیا کے مختلف فورمز پر اپنے حقوق کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، اس کی بڑی وجہ بھی یہی انتشار ہے۔ اکثر مسلم ممالک اپنے اندرونی مسائل میں اتنے گرفتار ہیں کہ یہ اس قابل ہی نہیں کہ باوقار انداز میں دنیا کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے مسائل پر بات کر سکیں۔ ممکن ہے کچھ احباب میری اس بات سے اختلاف کریں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ او آئی سی کا اجلاس بھی نشستند، گفتند، بر خاستدف کی عملی تصویر تھا۔ تمام مسلم حکمرانوں کے اعلانات عملاََ صرف زبانی دعوئوں تک محدود ہیں۔ کتنے مسلم ممالک ایسے ہیں کہ اسرائیلی ظلم وزیادتی کے باوجود اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات باقی رکھے ہوئے ہیں۔ کسی بھی دعوے سے پہلے ضروری ہے کہ اسرائیل سے کسی بھی قسم کے تعلقات فوری منقطع کیے جائیں اور باہمی تنازعات کو بالائے طاق رکھ کر اس مسئلہ پر ایک متفقہ موقف اپنا یا جائے۔ اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکا اور دیگر ممالک کوبھی متفقہ طور پر یہ باور کروانا ضروری ہے کہ اس جابرانہ طرز عمل کے ساتھ مسلمانوں کا ان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مسئلہ فلسطین کو لے کر منعقد کیا گیا حالیہ اجلاس بھی مسلمانان عالم کے ذہنوں میں اقوام متحدہ اور اس کے نظام کے متعلق بہت سارے سوالات پیدا کرنے کا باعث بن گیا ہے۔ ایک کے مقابلے میں چودہ ارکان کے اکثریتی فیصلہ کو جس طرح کھلی بدمعاشی کے ساتھ امریکا نے ویٹو کیا وہ دنیا میں قائم تمام قوانین اور ضابطوں کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔ یہ عجیب نظام ہے جس میں ساری دنیا کی رائے کو ٹھوکر پر رکھ کر کوئی بھی ایک طاقتور ملک اپنا فیصلہ باقی دنیا پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ پونے دو ارب کی آبادی کے ساتھ کیا دنیا میں کوئی ایک مسلم ملک ایسا نہیں کہ جسے ویٹو پاور سونپا جا سکے۔ پہلے سے موجود ویٹو پاور کے حامل پانچ ممالک کے بعد اگر کسی کو ویٹو پاور دینے کی با ت بھی کی جاتی ہے تو بھارت جیسے غاصب اور انسانی حقوق پامال کرنے والے ملک کو، کہ جو ستر سال سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو اپنے پیروں تلے روند کر مظلوم کشمیریوں کا استحصال کرنے میں مصروف ہے۔ ہم بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں دنیا میں انصاف کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے موجودہ نظام میں اصلاحات کرکے اسے دنیا کی ساری اقوام کے لیے منصفانہ بنایا جائے اور ویٹو پاور کی بدمعاشی کو ختم کیا جائے۔ اگرچہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں عالمی برادری نے بھاری اکثریت سے امریکا کے فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔ لیکن غور طلب پہلو یہ ہے کہ امریکا نے پہلے کب اقوام متحدہ کی قراردادوں کا لحاظ رکھا ہے۔ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی پیش رو لیگ آف نیشنز کی مانند اقوام متحدہ بھی بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جائے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ پاکستانیوں کا ہمیشہ سے خاص تعلق رہا ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام ہر دور میں فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے مخالف اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے داعی رہے ہیں۔ پاکستان اسرائیل کو ایک ناجائز اور غاصبانہ ریاست سمجھتا ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت پاکستان کا اسرائیل سے کسی بھی سطح کے تعلقات سے ہمیشہ انکار ہے۔ ٹرمپ کے حالیہ اعلان کے فوری بعد مسلم دنیا کی طرح پاکستان میں بھی مذہبی و سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف بھرپور صدائے احتجاج بلند کیا۔ جماعۃ الدعوۃ نے ملک گیر سطح پر بڑی تحریک شروع کردی۔ کراچی میں یونیورسٹی روڈ پر ہونے والا احتجاج، ٹرمپ کے اعلان کے خلاف کسی بھی جماعت کی جانب سے پاکستان میں کیا جانے والا پہلا احتجاج تھا۔ اس کے فوری بعد ملک کے تقریبا ہر چھوٹے بڑے شہر میں مظاہروں کا انعقاد کیا گیا۔ بعد ازاں ان مظاہروں کو وسعت دیتے ہوئے دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے کراچی اور دوسری بڑی کانفرنس لاہور میں منعقد کی گئی۔ جبکہ گوجرانوالہ میں اسی سلسلے کی تیسری کانفرنس کے بعد 29 دسمبر کو لیاقت باغ راولپنڈ ی میں بھی بڑی کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ مذہبی جماعتوں نے تحفظ بیت المقدس کے معاملے پر زبرست تحریک شروع کردی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اس مسئلے پر قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے عملی اقدام کب اٹھائے گا؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں