بھول یا بیماری .... سچی کہانی فرضی نام کے ساتھ
شیئر کریں
ڈاکٹر سید مبین اختر
میںا پنی والدہ کے لیے بہت پریشان رہتا تھا کچھ عرصے سے چیزیں اور باتیں بھولنے لگی تھیں ویسے تو ان کی عمر 60سال تھی اور اس عمر میں بھول ہوجاتی ہے۔لیکن یہ بھول غیرمعمولی تھی۔کبھی یہ بھول جاتیں کہ آج ناشتہ کیا تھا یا نہیں، پھر دوپہر کا کھانا کھاکر بھول جاتیں اور بار بار کھانا مانگتیں۔پہلے تو صرف چھوٹی چھوٹی باتیں بھولتی تھیں۔ لیکن اب تو ان کی حالت بگڑتی ہی جارہی ہے۔کل وہ میرے بیٹے یعنی اپنے پوتے کو بھول گئیں اور پوچھنے لگیں کہ یہ کون ہے ۔ میرے کمرے میں کیوں آیا ہے۔ اب تو باتھ روم بھی جانے میں بہت ضد کر تی ہیں اور غصہ بھی بہت تیز ہوگیا ہے۔بلکہ کبھی کبھی تو غصے میں چیزیں توڑ پھوڑ دیتی ہیں۔سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ ان کو کیسے سنبھالیں ۔ میرے دوست کے مطابق میری والدہ کویا سیت کی بیماری(Depression)ہوگئی ہے اس لیے چھوٹی چھوٹی باتیں بھول رہی ہیں۔لیکن مجھے یہ Depressionکے علاوہ کوئی اور بیماری لگتی ہے ۔لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا بیماری ہے اور کیوں ہوئی اور اب کیسے ٹھیک ہوسکتی ہے۔ہم سب کو بھی اپنی امی پر بہت غصہ آتا تھا اور ہم بات بات پر ان کو جھڑک بھی دیتے تھے۔ آخر وہ ایک ہی سوال بار بار کیوں پوچھتی ہیں ، شاید ہمیں تنگ کر نے کیلیے ۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے سارا گھر بہت پریشان رہتا تھا اور کوئی حل بھی نہیں سمجھ میں آتا تھا ۔ میری رہائش ناظم آباد میں تھی میں نے سوچا کیوں نہ کراچی نفسیاتی ہسپتال جاکر دکھاو¿ں ،ہوسکتا ہے کہ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہو۔خیر یہ سوچ کر میں اپنی والدہ کو ہسپتال لے آیااور جب ہم ڈاکٹر کے کمرے میں پہنچے تو میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا کہ پتہ نہیں کیا بیماری بتادیں۔
ڈاکٹر نے بہت تسلی سے میری والدہ کو دیکھا اور مختلف قسم کے سوالات کیے ، یاداشت کے حوالے سے اور جب سارے سوالات کر چکے تو مجھے بتایا کہ انہیں بھول کی بیماری یعنی نسیان (Dementia) ہوگیا ہے۔اور اس بیماری کو روکنے کیلیے ہم دوائی دینگے۔ دوائی سے بیماری ایک دم سے تو ختم نہیں ہوجائے گی لیکن بیماری کے بگڑنے کی رفتار کم (Slow Down)ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر نے ہماری بھی مشاورت کی کہ ہمیں ان کو کیسے سنبھالنا ہے، ان کے بھولنے کے رویے پر جھنجھلانا نہیں ہے بلکہ یہ سمجھنا ہے کہ یہ ان کی بیماری کی علامات ہےں اور ساتھ میں ان کے ضرورت سے زیادہ غصہ کر نے پر ان کو دوائیاں بھی دی جس سے ان کے مزاج میں جو بے انتہا غصہ تھا وہ بھی کم ہوجائے۔
دوائیوں اور بات چیت سے ہمیں بہت فائدہ ہوا، ہمیں یہ سمجھ میں آگیا کہ اپنی والدہ کے ساتھ کیسا رویہ رکھنا ہے۔ اب گھر والوں کو ان پر غصہ نہیں آتا ہے ، ہم سب ان کی بیماری کو سمجھتے ہیں ،ان سے اچھا برتاو¿ کر تے ہیں ۔ وہ بھی پر سکون لگتی ہیں اور ہم بھی پر سکون ہوگئے ہیں۔ ان کا علاج جاری ہے اور طبیعت میں کچھ نہ کچھ بہتری محسوس ہوتی ہے۔
اپنے مسائل اور ذہنی امراض کے لیے مندرجہ ذیل پتہ پر خط لکھیں:کراچی نفسیاتی ہسپتال ،ناظم آباد نمبر3 ،کراچی
٭٭