کشمیری انصاف کے منتظر
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکومت اور مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شکار کشمیریوں کو انصاف فراہم کرنے کی راہ میں رکاوٹ قرار دے دیا۔ تنظیم نے بھارتی حکومت سے کہا ہے کہ جموں و کشمیر سے آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ (افسپا) کو واپس لیا جائے، یہ قانون انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں بالخصوص قتل، تشدد، آبروریزی اور اغوا کے واقعات کا باعث بن رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ افسپا کے علاوہ پبلک سیفٹی ایکٹ بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا باعث ہے، صرف 2014ء کے دوران اس قانون کے تحت 16329 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ریاستی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ 1990ء کے بعد 43 ہزار افراد مارے گئے ان میں 13226 عام شہری تھے، دوران حراست 800 افراد کی موت واقع ہوئی۔
مقبوضہ کشمیرمیں 31اکتوبر 2019کو بھارتی حکومت کی طرف سے نافذ کئے گئے پانچ سالہ صدارتی راج کے دوران قتل و غارت اور گرفتاریوں سمیت بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںکا سلسلہ جاری رہا۔ مقبوضہ کشمیر میں صدارتی راج ہٹائے جانے کے بعد جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ بھارتی فورسز نے اس عرصے کے دوران 17 خواتین اور 31کمسن لڑکوں سمیت933کشمیریوں کو شہید کیاجن میں سے 240کوجعلی مقابلوں میں شہید کیاگیا ، بہت سے نوجوانوں کو ان کے گھروں سے گرفتارکرکے عسکریت پسند یاان کے معاون قراردیکر دوران حراست میں شہیدکیاگیا۔ گرفتارنوجوانوں میں سے زیادہ تر کے خلاف” پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے” جیسے کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے گئے۔ صدر راج کے دور میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت، گرفتاریاں، جائیدادوں کی ضبطی اور سرکاری ملازمین کی برطرفی بھی دیکھنے میں آئی جبکہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک ، ا?سیہ اندرابی اور دیگرسرکردہ حریت رہنمائوں سمیت ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کرکے مختلف بھارتی جیلوں میں نظر بند کیا گیا۔ بھارتی فوجیوں نے رواں سال اب تک 79کشمیریوں کو شہید کیا جن میں سے 39کو جعلی مقابلوں میں یا ماورائے عدالت شہید کیا گیا۔ محاصرے اور تلاشی کی پرتشددکارروائیوں کے دوران 4ہزارسے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ صدر راج 13اکتوبر ہٹا دیا گیا لیکن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ظلم وجبر کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
بی جے پی حکومت کی نئی میڈیا پالیسی سے جو 2020ء میں متعارف کرائی گئی، مقبوضہ جموں و کشمیر میں معلومات تک رسائی کو روکا گیا جبکہ صحافیوں کو مسلسل گرفتار اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔ بھارت نے ہزاروں غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے جس کا مقصد مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی حیثیت کو تبدیل کرنا ہے۔ آزادی پسند رہنمائوں کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں اور ہندوئوں کے حق میں اسمبلی حلقوں کی حلقہ بندیاں کی گئیں۔ اس ظلم و بربریت کے باوجود کشمیری استصواب رائے کے مطالبے سمیت اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کے لیے پرعزم ہیں۔لندن کی برٹش لائبریری میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران بھارتی مصنفہ اروندھتی رائے نے معروف PENپنٹر پرائز وصول کرتے ہوئے اس موقع پر حق خود ارادیت کے لیے کشمیریوں اور فلسطینیوں کی جدوجہد کو اجاگر کیا۔اروندھتی رائے نے انسانی حقوق کے کشمیری کارکن خرم پرویز سمیت نظربند صحافیوں، کارکنوں اور دانشوروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ یہ ایوارڈ ادبی خدمات اور فکری تصانیف کے ذریعے معاشرتی سچائیوں کو بے نقاب کرنے والے مصنفین کو دیا جاتا ہے۔
2018 میں، اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند نے، کشمیر میں گورنر راج کے تحت چھ ماہ مکمل ہونے کے بعد ریاست میں صدر راج نافذ کر دیا تھا۔ انہوں نے ہی ریاست میں مرکزی حکومت کے نظام کے نفاذ کے اعلان پر دستخط کیے تھے۔اس سے قبل اسی برس جون میں محبوبہ مفتی کی قیادت والی مخلوط حکومت سے بی جے پی نے حمایت واپس لے لی تھی، جس کے بعد ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور پھر جموں وکشمیر سیاسی بحران میں ڈوبتا چلا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت نے جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کو پانچ اگست 2019 کو منظور کروایا اور اس طرح آئین کی دفعہ 370 کے تحت اسے حاصل خصوصی اختیارات کو ختم کر دیا اور ریاست کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیاست دانوں اوربھارت میں آزاد ذہن رکھنے والے سیاسی تبصرہ نگاروں کا یہ ہی خیال ہے کہ اس علاقے میں تعینات پانچ لاکھ سے زیادہ فوج اور 2019 میں عام انتخابات کے پس منظر میں اس بات کی امید بہت کم ہے کہ یہاں خون ریزی تھم جائے۔
سابق بھارتی وزیر خارجہ اوربھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما یشونت سنہا کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کی تحریک آزادی کو طاقت کے وحشیانہ استعمال سے دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے دو مرتبہ دورے کے دور ان انکی وہاں ایک سینئر حکومتی شخصیت سے ملاقات ہوئی جس نے انہیں بتایا کہ میکاولی اور چانکیہ کی طرح ہر ایک کا کوئی نہ کوئی ریاستی نظریہ یا پالیسی ہوتی ہے لہٰذا بھارت کی بھی کشمیرکے حوالے ایک پالیسی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی باغی کو ختم کرنے کیلئے طاقت کا استعمال۔ جہاں تک بھارت کی کشمیر پالیسی کا تعلق ہے تو اس حوالے سے غلطیاں ہی غلطیاں کی گئی ہیں۔ بھارت کی حالیہ حکومت اتفاق رائے، جمہوری یا انسانی طریقوں سے مسائل کے حل میں یقین نہیں رکھتی بلکہ وہ صرف طاقت کے ذریعے مسائل کو حل کرنا جانتی ہے اور یہ بات کشمیریوں کے دلوں میں بھارت کیلئے مزید نفرت کا سبب بن رہی ہے۔ یوں کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہم صرف اور صرف فورسز کے سہارے کشمیر پر قابض ہیں۔بھارت کی مسلم اکثریت والی ریاست کشمیر میں جس کی کل آبادی ایک کروڑ پچیس لاکھ کے قریب ہے حریت پسندوں کو بھر پور عوامی حمایت حاصل ہے۔لیکن مودی حکومت حریت پسندوں اور پاکستان سے اس مسئلہ پر بات چیت کرنے کے معاملے پر سخت گیر موقف اپنائے ہوئے ہے۔