منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں
شیئر کریں
عماد بزدار
یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ وہ افراد جو عوام کی رہنمائی کے دعویدار ہیں، جنہیں قلم کی طاقت اور منبر کی بلندیوں پر بٹھایا گیا ہے ، اکثر اپنے ہی اصولوں اور دعووں سے متصادم رویے اختیار کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی بات کو سننے والے لاکھوں ہیں اور جو لوگوں کے دلوں پر اثر ڈال سکتے ہیں، لیکن ان کی توانائی زیادہ تر طاقت کے مراکز کی خدمت اور سہولت کاری میں صرف ہوتی ہے ۔
صوفی، جن کے الفاظ میں عشقِ الٰہی اور محبت ِ انسانیت کی خوشبو ہونی چاہیے ، یا وہ مذہبی رہنما جن کے فتوے حق و انصاف کے محافظ ہونے چاہئیں، اکثر طاقتوروں کی خواہشات کو”شرعی” رنگ دینے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے لیے معاشرتی اصلاح کا مطلب صرف عوام کو مزید نصیحت کرنا ہے ، جبکہ وہ لوگ، جو معاشرتی نظام کے اصل بگاڑ کے ذمہ دار ہیں، ان کے خلاف آواز بلند کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
حال ہی میں ایک مذہبی اسکالر نے وی پی این کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ طاقتوروں کے کانوں کو بھلا لگے گا۔ جب معلومات کے ذرائع پہلے ہی محدود ہیں اور سوشل میڈیا ایپس بند ہیں، تو عوام وی پی این کے ذریعے باخبر رہنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اس اسکالر نے وی پی این کی حرمت کا فتویٰ دے کر طاقتوروں کے سامنے اپنی خدمات کی پیشکش کی۔ اسی طرح، ایک اور مذہبی رہنما نے ایک ایسے گورنر کو حضرت عمر فاروق سے تشبیہ دی، جو صرف اپنی کرسی اور پروٹوکول کے مزے لوٹ رہا ہے ۔ حضرت عمر فاروق وہ خلیفہ تھے جو راتوں کو بھیس بدل کر عوام کی خبرگیری کرتے تھے ، جبکہ یہ گورنر محض طاقتوروں کی مرضی کا نمائندہ ہے ۔ اس موازنے کا مقصد صرف طاقتوروں کو خوش کرنا اور اپنی وفاداری ثابت کرنا تھا۔
پچھلے دنوں کچھ صوفیوں کو سننے کا موقع ملا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ سب کیسے ٹھیک ہوگا، تو ان کا جواب تھا”اگر ہم ٹھیک ہوں گے ، تو سب ٹھیک ہوگا”۔یہ سن کرذہن میں سوال اٹھا کہ ایک عام آدمی جو دن رات محنت کرکے بمشکل اپنے بچوں کا پیٹ پال پاتا ہے ، کیا واقعی معاشرے کی تمام خرابیوں کا ذمہ دار ہے ؟ وہ کتنا غلط کر رہا ہے یا کرنے کی طاقت رکھتا ہے کہ اس کی اصلاح سے معاشرتی نظام ٹھیک ہو جائے گا؟یہ صوفی یا مذہبی رہنما کبھی ان طاقتوروں کی طرف کیوں اشارہ نہیں کرتے جو قانون کو اپنی مرضی کے مطابق توڑتے اور بناتے ہیں؟ جن کے فیصلے عوام کی زندگیاں متاثر کرتے ہیں اور جن کی بدعنوانی نے پورے نظام کو مفلوج کر دیا ہے ۔ وہ یہ کیوںنہیں کہتے کہ:
٭تمہاری ایک جنبش ابرو آئین و قانون کو بدل دیتی ہے ،
٭تمہاری ناجائز دولت اور طاقت نے لاکھوں زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے ،
٭تمہاری لوٹ کھسوٹ نے معاشرتی ڈھانچے کو کھوکھلا کر دیا ہے ۔
ایسا کیوں ہے کہ یہ نصیحتیں صرف عام لوگوں کے لیے مخصوص ہیں؟ جواب صاف ہے :ان کے ذاتی مفادات انہی طاقتوروں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ان کی حلوے مانڈے اور مراعات اسی ”خاموشی” کی قیمت پر ملتی ہیں۔ ان کی حق گوئی بھی ایسی ”کیلکولیٹڈ”ہوتی ہے جو طاقتوروں کو ناراض نہ کرے اور عوام کو خاموش رکھے ۔ ایسا شخص، جو دن بھر سیٹھ کی نوکری کرتا ہے اور رات کو اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کی جدوجہد میں لگا رہتا ہے ، وہ نظام کو کتنا نقصان پہنچا سکتا ہے ؟ اس کے برعکس، وہ طاقتور جو اپنی دولت، حیثیت اور اثرو رسوخ سے قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہیں، کیوں کسی سوال یا تنقید کا سامنا نہیں کرتے ؟
یہ درست ہے کہ ہر فرد کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے ، لیکن جب اس نصیحت کو اس طرح پیش کیا جائے کہ معاشرے کی ہر خرابی کا ذمہ دار ایک عام آدمی ہو، تو یہ ایک فریب ہے ۔ یہ طاقتوروں کی سہولت کاری کا ایک حربہ بن جاتا ہے جس کے ذریعے ان کے ظلم اور زیادتیوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے ۔ ایسے صوفی اور مذہبی رہنما، جو عوام کے لیے امید اور انصاف کی روشنی بننے چاہییں، درحقیقت منافقت کے پردے میں چھپے ہوئے طاقتوروں کے سہولت کار بن چکے ہیں۔ معاشرتی اصلاح صرف کمزوروں کو نصیحت کرنے سے ممکن نہیں۔ یہ محض ایک فریب ہے جو طاقتوروں کی سہولت کاری کا دروازہ کھولتا ہے ۔ جب ایک معاشرتی نظام میں کمزوروں کو یہ کہا جائے کہ ”تم خود کو ٹھیک کرو” تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ درحقیقت خود کو بہتر کر سکتے ہیں، بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اس بگاڑ کے اصل ذمہ داروں سے نظریں چُرا کر اپنی جدوجہد کی توجیہ پیش کرتے رہیں۔جب ایک فرد اپنے آپ کو مسلسل مطعون کرتا رہتا ہے اور یہ سوچتا رہتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اصلاح کے ذریعے معاشرتی خرابیوں کو دور کر سکتا ہے ، تو دراصل وہ ایک ایسی غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے جو اسے ان مسائل کے حقیقی ذرائع سے دور کر دیتی ہے ۔ اس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کبھی اس طرف دھیان ہی نہیں دے پاتا کہ اصل ایشو کیا ہے ؟ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو اس بگاڑ کا حصہ سمجھنے لگتا ہے ، اور اس طرح وہ طاقتوروں کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں اور ظلم کو نظرانداز کر دیتا ہے ۔ یہ منطق، جسے بڑی حکمت اور چالاکی سے معاشرتی بیانیہ میں ڈالا گیا ہے ، تاکہ عوامی سطح پر کوئی سوال نہ اٹھے ۔ کمزور، جو دن رات اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے ، جب یہ کہا جائے کہ”اگر تم ٹھیک ہو گے ، تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا”، تو وہ اپنی جدوجہد کو ہی ملامت کرنے لگتا ہے ۔ اسے کبھی یہ سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ اس کا اصل دشمن کون ہے ، یا اس کے مسائل کی جڑ کہاں ہے ۔ اس کے بجائے وہ اپنے آپ کو مسلسل اس خرابی کے لیے جواب دہ ٹھہرا لیتا ہے جو طاقتوروں نے اس کے گرد گھیر رکھی ہے ۔
اسلامی تاریخ کے افق پر ہمیں کئی ایسے صوفیا اور علما کے نام ملتے ہیں جو ہمیشہ عوامی قوتوں کے ساتھ کھڑے رہے ، اس لیے کہ انہوں نے اپنی بصیرت اور جرأت کے ساتھ یہ جانا کہ معاشرتی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک طاقت کے مراکز کو چیلنج نہ کیا جائے ، اور اس بگاڑ کی جڑ کو جڑ سے اکھاڑ نہ دیا جائے ۔لیکن گزرتے وقت کے ساتھ، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ جو ایک وقت میں حق اور عدل کے علمبردار تھے ، آج ان کے پیروکار بھی طاقتوروں کے گماشتے بن چکے ہیں۔ اب زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن ہیں۔ وہ جو کبھی عوام کے لیے آواز بلند کرتے تھے ،آج خود اسی نظام کا حصہ بن چکے ہیں، جس کی تنقید کرتے کرتے ان کا لب بھی خشک ہو گیا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کے صوفی اور مذہبی رہنما اس بات کو سمجھنے کے بجائے کہ معاشرتی اصلاح کا عمل کہاں سے شروع ہوگا، طاقتوروں کی حمایت میں
بیانات دینے لگے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ آج کے صوفیاء اور مذہبی رہنماؤں کا زیادہ تر مقصد خودی اور اصلاح کے بجائے ، طاقتوروں کے مفادات کا تحفظ کرنا بن چکا ہے ۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے گرد جو خاموشی کی چادر پڑی ہے ، وہ دراصل ان طاقتوروں کے مفادات کی خدمت کر رہی ہے ۔ یہ خاموشی محض عوام کو نصیحت کرنے اور ان کی اصلاح کا بہانہ بن کر، طاقتوروں کے ظلم اور زیادتیوں کو نظرانداز کرنے کا وسیلہ بن چکی ہے ۔ اس خاموشی کے پیچھے وہ خود بھی ان طاقتوروں کے سہولت کار بن گئے ہیں جنہوں نے معاشرتی نظام کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے ۔