بحریہ ٹاون سے موصول رقم وفاق، سندھ حکومت کو دینے کا حکم
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن رقوم کیس میں وصول ہونے والی رقم وفاق اور سندھ حکومت کے سپرد کرنے کا حکم سنا دیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ برطانیہ سے آنے والی رقم نہیں رکھ سکتی۔ پینسٹھ ارب روپے میں سے پینتیس ارب وفاق اور تیس ارب روپے سندھ حکومت کو دیے جائیں۔سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن سے چار سو ساٹھ ارب روپے وصولی کے کیس کی سماعت چیف جسٹس فائز عیسیٰ۔ جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت رقم سے متعلق مشرق بینک کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملک ریاض کی بہو مبشرہ ملک نے انیس ملین پاؤنڈ لندن کی نیشنل کرائم ایجنسی کے کہنے پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے اکاؤنٹ میں بھیجے۔ رقم چھ نومبر دو ہزار انیس کو بھیجی گئی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کمشنر کراچی کی سروے رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں قرار دیا گیا کہ بحریہ ٹاؤن نے معاہدے سے زائد زمین پر قبضہ کیا ہے۔ ایک ہزار سات سو پچہتر ایکڑ سرکاری جبکہ سینتیس اعشاریہ دو ایکڑ نجی زمین پر قبضہ کیا گیا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے استدعا کی کہ برطانیہ سے لائی گئی رقم سندھ حکومت کو منتقل کی جائے۔ بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے سروے رپورٹ پر اعتراض عائد کیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے کہنے پر سروے ہوا جس کا آپ بھی حصہ تھے اب کیسے اس پر اعتراض عائد کر رہے ہیں؟ وکیل نے دلائل دیے کہ برطانیہ سے رقم ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کے لیے آئی تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رقم ضبط ہوئی تھی۔ لیکن یہ رقم سپریم کورٹ کا اپنے پاس رکھنا درست نہیں۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ بیرون ملک سے آنے والے پینسٹھ ارب روپے میں سے پینتیس ارب روپے وفاقی حکومت اور تیس ارب روپے سندھ حکومت کو ملیں گے۔ سپریم کورٹ نے اکیس مارچ دو ہزار انیس کا اپنا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔