مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کا الزام اور بھارت
شیئر کریں
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقلیتیں اور اُن کی عبادت گاہیں محفوظ ہیں مندر ،گوردوارے اور گرجا گھروں کو نقصان پہنچانے کاکوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ۔کسی اقلیتی عبادت گاہ کو نقصان پہنچنے کی صورت میں انتظامیہ اور عدالتیں نہ صرف سخت با زپُرس کرتی ہیں بلکہ ذمہ داران سے نقصان بھی پورا کیا جاتا ہے ایسی مذہبی آزادی کا بھارت جیسے ملک میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جہاں گائے کے گوشت کے شُبے میں مسلمانوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنانا اور جان سے مار دینا معمول ہے۔ اُنھیں زبردستی اذان اور نماز سے روکا جاتا ہے۔ عیسائیوں کی عبادت میں خلل ڈالنا اور مارپیٹ بھی عام سی بات ہے ۔سکھوں کو بھی شک و شبے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ دلتوں کی بات ہی کیا کریں جو ہر جگہ اور ہر وقت تذلیل کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ مسلمانوں ،عیسائیوں ،سکھوں اور دلتوں کی مسلسل نسل کشی کے باوجود بھارت کوامریکہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی والے ممالک میں شامل نہیں کرتا۔اسرائیل میں مقبوضہ بیت المقدس کی بے حرمتی اور فلسطینیوں کی نسل کشی مذہبی آزادی کی بدترین خلاف ورزی ہے لیکن امریکی نہیںمانتے ۔ البتہ پاکستان کو مذہبی آزادی کی انتہائی خلاف ورزیوں میں ملوث پہلی دس ریاستوں میں ضرور شمار کیا جاتا ہے۔
روس اور چین سے امریکی مخاصمت ڈھکی چھپی نہیں اِس لیے انھیں لسٹ میں شامل کرنے کی وجہ توسمجھ میں آتی ہے جبکہ میانمار،ایران ، شمالی کوریا اور اریٹریا پربھی اُسے غصہ ہے مگر سعودی عرب ،تاجکستان اور ترکمانستان کا جرم صرف اسلامی ملک ہونا ہے۔ اسی لیے نام شامل کیا گیا ہے۔ یہ دُہرا معیارہی امریکیوں کودنیا میں ناقابلِ اعتبار بنا رہا ہے اور اقوامِ عالم میں اُس کی مخالفت بڑھنے کا باعث ہے ،لیکن سمجھنے کے بجائے امریکا جھکا کر شرائط منوانے کے چکر سے باہر نہیں نکل رہا۔ اگرپالیسی پر نظر ثانی نہیں کی جاتی تو اپنا ہی نقصان کر ے گا کیونکہ چین کی صورت میں دنیا کے پاس اب متبادل موجودہے جو جنگ نہیں سرمایہ کاری کے ذریعے ریاستوں سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔ نیز عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اِس لیے جھکانے کے بجائے برابری کی بنیاد پر تعلقات اُستوار کرنے میں ہی امریکا کی بہتری ہے۔
گیلپ گلوبل نے2021 کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے پاکستان اور سری لنکا کو جنوبی ایشیا کے محفوظ ترین ممالک قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کا نمبرچالیس اور بھارت کا نام چھپن نمبر پر ہے۔ آزاد اِدارے کی رپورٹ میں پاکستان کا نمبر بھارت سے سولہ درجے بہتر ہے ۔امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن اِتنے لاعلم یا کمزور بصارت رکھتے ہیں کہ حقیقت کاادراک نہیں کر سکتے؟ مانا کہ کچھ بڑھا بھی لیتے ہیں زیبِ داستاں کے لیے، مگر سچ کو چُھپانا کہاں کی دانشمندی ہے؟رواں ماہ دوفہرستیں جاری ہوئیں۔سولہ نومبر کو امریکا نے مذہبی آزادی کی انتہائی خلاف ورزیوں میں ملوث دس ممالک کی فہرست جاری کی جبکہ بیس نومبر کو گیلپ گلوبل نے جنوبی ایشیا کے محفوظ ترین ممالک کی فہرست جاری کر دی۔ پہلی فہرست امریکی جانبداری کا شاہکار ہے جبکہ دوسری فہرست ایک غیر جانبدار اِدارے نے مرتب کی ہے ۔ دونوں پر طائرانہ نگاہ ڈالنے سے ہی سچ و جھوٹ آشکار ہو جاتا ہے۔ بہتان طرازی اور من گھڑت الزامات لگا کر کیا امریکی ساکھ بہتر کر سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔بلکہ ایک بار پھر ثابت ہوگیاہے کہ سچ وجھوٹ سے امریکاکو غرض نہیں وہ دوست ممالک کے گناہ اور خامیاںنظر انداز جبکہ مخالف ریاستوں کو جھکانے کی کوشش میں ہے۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان میں امن کی صورتحال بہترین ہے۔ مذہبی روادری کی وجہ سے اقلیتیں محفوظ ہیں ۔فرقہ واریت اور مسلح گروپوں پر قابو پایا جا چکاہے۔ براستہ افغانستان سے پشتون اور بلوچ تحریکوں کو بھارتی اسلحے ،رقوم اور تربیت کا خاتمہ ہونے سے دہشت گردوں کا زور ٹوٹ گیا جس کی وجہ سے آج پاکستان امن کے حوالے سے بھارت سے بہت بہتر ہے لیکن یہ سچ ساری دنیا کو نظر آرہا ہے صرف جانبدار امریکا دیکھنے سے قاصر ہے ۔
حال ہی میں امریکی سینیٹ میں افغانستان کے حوالے سے پیش کردہ چار بلز اور کمیشن رپورٹس سے پاکستان کے خلاف تحفظات خارج کیے گئے ہیںجو ایک اہم سفارتی پیش رفت ہے ،مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاک امریکہ قُربت کا موسم افغان جنگ کے دوران ہی رخصت ہوچکا ۔ اِس قربت کوبھی ختم کرنے میں امریکا کا کلیدی کردار ہے۔ اِس میں کوئی دورائے نہیں۔ پاکستان کے حکمران ہر وقت کورنش بجا لانے اور خدمات پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت آمادہ و تیار رہنے کے باوجود وقتی طور پر ہی منظورِ نظرکا منصب حاصل کر سکے، مطلب ختم ہوتے ہی نظر انداز بھی ہوتے رہے، پھر بھی ہمارے حکمرانوں کی زبان پر کبھی شکوے و شکایات نہیں آئیں، ایسی فریفتگی کسی کے عشق کی سچائی کو پر کھنے کے لیے کافی ہے لیکن آج دونوں ممالک میں اعلیٰ سطح پر مراسم اتنے بگاڑ کے شکار ہیں کہ جو بائیڈن نے صدرکامنصب سنبھالنے کے بعدسے پاکستان کومسلسل نظر انداز کر رکھا ہے ،باوجود اِس کے کہ کئی پس ماندہ ممالک کے سربراہان سے بات چیت کی اور پالیسیوں کے حوالے سے اعتماد میں لیا مگر دنیا کی ساتویں اور اسلامی ممالک کی پہلی ایٹمی ریاست کے سربراہ سے بات چیت کے لیے انھیں اِس لیے وقت نہیں مل سکا کہ دونوں ملکوں میں قربت کا موسم رخصت ہو چکا ہے ۔
کوئی ملک کسی کا پابند نہیں جس کا جس سے مفاد ہوتا ہے وہ اُسی سے تعلق بناتا ہے جس سے مفاد نہیں ہوتا ،اُسے نظر انداز کرنا بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا کیونکہ ریاستوں کے تعلقات مفادات کے تابع ہوتے ہیں ۔ اسی لیے پاکستان دفاعی معاہدوں میں شامل ہوکر بھی مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے عالمی حمایت حاصل نہیں کر سکا جبکہ بھارت جیسا ملک روسی کیمپ میں شامل ہو کر بھی امریکہ کو کشمیر کے حوالے غیر جابندار ہونے پر قائل کرنے میں کامیاب رہا کیونکہ امریکی قیادت کو چین کے توڑ کے لیے کسی مناسب کردار کی تلاش تھی۔ اسی بنا پر روس کے طرفدار ہونے کے باوجود بھارت کو مخالف نہ بنایا گیا۔ آج تو حالات ہی تبدیل ہو چکے ہیں ۔بھارت جیسا جنونی ملک صرف امریکا کا ہی منظورِ نظر نہیں بلکہ وہ مغربی ممالک اسرائیل ، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ عرب ریاستوں سے قریبی اور گرم جو شی پر مبنی تعلقات اُستوار کر چکا ہے، اُس کی خامیاں کسی کو نظر نہیں آتیں کیونکہ سب سے زیادہ دفاعی ہتھیار خریدنے والا دنیا کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے، اُس کی منڈی پر سب کی نظر ہے ہتھیار فروخت کرنے اور چین کے بڑھتے عالمی کردار کو محدودکرنے کے لیے عالمی طاقتیں بھارت کے ناز نخرے اُٹھانے پر مجبورہیں۔ اِن حالات میں یہ سمجھ لینا کہ پاک امریکا تزویراتی اتحادی ہیں ، کسی طور درست نہیں ۔ ہاں مسقبل میں کبھی امریکیوں کو پاکستانی کردار کی ضرورت محسوس ہوئی تو محدود مدت کے لیے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ پاک امریکا
قربت کا موسم قصہ پارینہ بن چکا۔اگر قربت کا موسم جوبن پر ہوتا تو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کا الزام عائد نہ کیا جاتا گیلپ گلوبل کا پاکستان کو جنوبی ایشیا جیسے خطے کا محفوظ ترین ملک قرار دینا سچائی ہے مگر اِس حقیقت کو امریکا تسلیم نہیں کر سکتا کیونکہ نئے حالات میں اُسے پاکستان کی بجائے بھارت زیادہ عزیز ہے۔
٭٭٭٭٭