جو بائیڈن اور امریکی معیشت کی بحالی
شیئر کریں
(مہمان کالم)
پال کرگمین
آنے والے چند مہینے ناقابل ِیقین حد تک مشکل ہوں گے۔کورونا وائرس ایک بار پھر تباہی مچا رہا ہے۔ امریکا تباہ ہو رہا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ ٹوئٹ پرٹوئٹ کرنے میں مصروف ہیں۔ان کے ساتھ کام کرنے والے حکام کو ابھی تک ا س بات کا یقین ہی نہیں ا?رہا کہ وہ الیکشن ہا رچکے ہیں اور وہ جو بائیڈن کی ٹیم کے ساتھ کورونا وائرس سے متعلق ڈیٹا شیئر کرنے پر تیا رنہیں ہیں؛چنانچہ بڑے پیمانے پر ویکسین کی تقسیم سے پہلے ایسے ہزاروں لوگ بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے جنہیں موت کے ظالم پنجوں سے بچایا جا سکتا تھا۔امریکی معیشت کو بھی شدید دھچکا لگنے کا احتمال ہے‘زیادہ تر لوگ سفر سے گریز کررہے ہیں،ملازمتوں میں اضافے میں سست رفتاری کے اشارے بھی مل رہے ہیں اور چونکہ کورونا وائرس پھر سے زور پکڑ رہا ہے ا س لیے ملازمتیں کم ہونے کے امکانات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔
مگر کوروناوائرس کی ویکسین بھی مارکیٹ میں آرہی ہے۔کسی کو بھی اس بات کا یقین نہیں ہے کہ یہ سب سے پہلے کس خوش قسمت کو ملے گی اور کب یہ سب کے لیے دستیاب ہوگی؟تاہم یہ قیاس ہے کہ ہم اگلے سال تک کورونا کی ا س مہلک وبا پرقابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو معیشت خود بخود تیزی سے بحال ہونا شروع ہو جائے گی۔خیریہ کوئی متفقہ نقطہ نظر نہیں ہے۔زیادہ تر معاشی تجزیہ کار ناامیدی کا شکا ر نظر آتے ہیں۔ان کے خیال میں معیشت سست رفتاری سے دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑی ہوگی‘ جس میں کافی وقت لگے گا۔ شاید ہمیں اس مقام پر پہنچنے میں کئی سال لگ جائیں جب لوگ پہلے کی طرح بر سر روزگار نظر آئیں گے۔انہیں خدشہ ہے کہ مزیدبزنس بند ہو جائیں گے اور طویل عرصے تک بیروزگاری کا دور دورہ رہے گا۔شاید ان کے ا ندازے بھی درست ہوں‘لیکن میرے خیال میں تجزیہ کاروں نے 2008ء کے معاشی بحران سے کچھ زیادہ ہی سبق سیکھ لیا ہے جس کے بعد کئی سال تک روزگار کے مواقع نہیں پیدا ہو سکے تھے۔ان تمام ماہرین معیشت کی پیشگوئیاں غلط ثابت ہوگئیں جو یہ کہتے تھے کہ ابتدائی جھٹکے کھانے کے بعد عالمی معیشت بحال ہو جائے گی۔میں ان لوگوں میں شامل تھا جو ان ماہرین سے اختلاف کرتے تھے اور یہ سمجھتا تھا کہ یہ ایک مختلف نوعیت کی کساد بازاری ہے اور معیشت کی بحالی میں کافی وقت لگے گا۔اور اب صورت حال یہ ہے کہ جو لوگ پہلے سست رفتاری سے معیشت کی بحالی کی پیشگوئی کر رہے تھے اب کہہ رہے ہیں کہ اگر کوروناوائرس کی ہلاکتوں پر قابو پا لیا گیا تو معیشت تیز رفتاری سے اپنے قدموں پرکھڑی ہوجائے گی۔
2008ء کی کساد بازاری کے بعد عالمی معیشت کیسے سنبھلی تھی؟ ظاہر ہے کہ تعمیراتی شعبے کا بلبلہ پھٹنے کے بعد گھروں کے گھر قرضوں کے بوجھ تلے دب گئے تھے اور بیلنس شیٹ بہت کمزور ہو گئی جسے بحال ہونے میں کئی سال لگ گئے ‘تاہم ا س مرتبہ بھی کورونا کی وجہ سے گھریلو زندگی بری طرح متاثر تو ہوئی ہے مگر لوگ قرضوں کے بوجھ تلے دبنے سے بچ گئے ہیں۔معیشت جھٹکا لگنے کے بعد تیزی سے سنبھل گئی۔وہ امریکی شہری جو بیروزگار ہونے سے بچ گئے تھے انہوں نے قرنطینہ کے دنوں میں بہت اچھی سیونگ کر لی ہے اور قیمتی اثاثے بھی بنا لیے ہیں۔ان تمام قرائن سے میرا اندازہ ہے کہ جیسے ہی کورونا وائرس کی شدت میں کمی آتی ہے اورلوگ گھروں سے باہر نکلنے میں خود کومحفوظ سمجھتے ہیں تووہ بھاری خریداری کے لیے نکلیں گے‘ بالکل ویسے ہی جب 1982ء میں فیڈرل ریزروز نے شرح سود میں کمی کر دی تھی تو لوگوں کی قوت خریداری میں بھاری اضافہ ہو گیا تھا؛چنانچہ یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ جو بائیڈن کے دورِ صدارت میں معیشت ’’امریکامیں نئی صبح‘‘کی طرح بحال ہو جائے گی۔
اب میں پھر سے سیاست کی طرف ا?تا ہوں۔اگر جو بائیڈن معیشت بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو انہیں یہ اچھی معاشی خبر کیسے دینی چاہئے؟ سب سے پہلے تو انہیں اس کا جشن منا نا چاہئے۔مجھے یہ قطعی توقع نہیں ہے کہ جو بائیڈن ٹرمپ کی طرح بڑھک بازی سے کام لیں گے کیونکہ وہ ایسے انسان ہیں ہی نہیں۔ان کی معاشی ٹیم ایسے لوگوں پر مشتمل ہوگی جو اپنی پروفیشنل ساکھ کو پیش نظر رکھتے ہیں نہ کہ ان شعبدہ بازوں پر مشتمل ہوگی جوہروقت حکومت وقت کو خو ش کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ہاں وہ اس خوشخبری کی جھلکیاں ضرور دکھا سکتے ہیں اور ان دعوو?ں کو جھٹلا سکتے ہیں کہ ترقی پسند پالیسیاں خوشحالی کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرتی ہیں۔جو بائیڈن اور ان کے رفقا کوواشنگٹن اور ریاستی حکومتوں میں ان ری پبلکن ارکان کی طرف زیادہ رجوع کرنے سے گریز کرنا چاہئے جو امریکی معیشت کو سبوتاڑ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ یقینا ایسا کرتے رہیں گے۔اگر ری پبلکن پارٹی کے لوگ ویکسین کی منصفانہ تقسیم میں بھی رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں تو میرے یہ امر زیادہ باعث حیرت نہیں ہوگا۔
آپ کے خیال میں وہ کونسی حدود ہیں جہاں ایک پارٹی نئی آنے والی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے سے انکا رکر سکتی ہے اورجو ابھی تک الیکشن چرانے کی کوشش کر رہی ہے۔کیا وہ ان حدود کو کراس نہیں کرے گی؟آخری با ت یہ ہے کہ جب بھی جو بائیڈن یہ معاشی خوشخبری دینا چاہیں تو انہیں اپنی نظر مزید کامیابیوں پر رکھنی چاہئے اور لفظی جادو گری سے گریز کرنا چاہئے۔جز وقتی کامیابیوں کو دیر پا خوشحالی نہیں کہا جا سکتا۔1982-84ء میں تیز رفتار معاشی بحالی کے باوجود ایک عام امریکی کی آمدنی کم ہوگئی تھی اور1979ء کے مقابلے میں ریگن دورِ صدارت کے اواخر یعنی 1989ء میں اسے زیادہ افراط زر کا سامنا کرنا پڑا تھا۔میں ویکسین کی ایجاد کے بعد معیشت کی بحالی کے حوالے سے بہت پر امید ہوں مگرپھر بھی ہمیں اپنے انفراسٹرکچر کی تعمیر نو، امریکا کی فیملی لائف میں بہتری لانے کے لیے اور سب سے بڑھ کر ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی تبا ہ کاریوں سے بچنے کے لیے مزید سرمایہ کاری کرنے کی اشد ضرورت ہے‘لہٰذا اگر بائیڈن کے دور صدارت میں معاشی بحالی کے بارے میں میری پرامیدی درست بھی ثابت ہو جائے پھر بھی اس کامیابی کے سیاسی فوائدکو ہمارے بے جااطمینان کا باعث نہیں بننا چاہئے بلکہ انہیں امریکاکے دیر پا مفادات کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ہماری اس امید افزائی کی وجہ یہ ہے کہ جو بائیڈن یہ سب کچھ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہم لوگ جو امریکا کے مستقبل کے حوالے سے ایک تشویش میں مبتلا تھے ٹرمپ کی شکست سے کافی حد تک مطمئن ہو چکے ہیںاگر میرا استدلال آپ کو درست محسوس ہوتا ہے تو کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی معاشی سست روی کو ڈیموکریٹس کے لیے ایک عظیم سیاسی موقع سمجھا جانا چاہئے۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ2022ء میں ہونے والے وسط مدتی الیکشن میں ایک ایسی پارٹی کے طو رپر بہتر کارکردگی کے ساتھ میدان میں اْتر سکیں گے جس نے اس قوم اور اس کی معیشت کو کوویڈ 19 کی تباہ کاریوں سے نکالا ہوگا۔اور انہیں اس موقع سے نہ صرف اپنے لیے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرور ت ہے بلکہ امریکی قوم اور پوری عالمی برادری کی خاطر اس موقع کو ضائع ہونے سے بچانا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔