سفر یاد۔۔۔۔ قسط16
شیئر کریں
شاہد اے خان
کالجسے واپسی پر کچھ دیر اپنے کیبن میں آرام کرنے کے بعد ہم پھر گلزار کی دکان پر پہنچ گئے ،گلزار گرمجوشی سے ملا ، کھانے کی دعوت بھی دے ڈالی جو ہم نے قبول کرلی لیکن گلزار سے یہ بات منوا لی کہ وہ اور ہم کھانے کا خرچہ شیئر کریں گے، ہم نے گلزار سے کہا بھائی اب تو رات کا کھانا روز ہم نے ساتھ کھانا ہے اس لئے بہتر ہے کہ ہم پیسے ملا کر کھانا اکھٹے بنایا کریں۔ ایک اور بات ہم نے منوائی اور وہ یہ کہ پیاز ٹماٹر وغیرہ کاٹنے کا کام ہم سرانجام دیں گے اور سالن بنانے کا کام گلزار کے ذمے ہوگا۔ بقالے سے روٹیاں لانے کا کام بھی ہم نے اپنے ذمے لے لیا۔ ناشتے میں جوس اور بن سے کام چل رہا تھا ، دوپہر کا کھانا ہم نے گول کر دیا تھا ، کیونکہ کالج میں کوئی کینٹین وغیرہ نہیں تھی۔ کالج اسٹاف اور طلبا کے کھانے کےلئے بہت بڑا میس ہال تھا اور غیر متعلقہ لوگوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ رات کے کھانے کا مسئلہ تو گلزار نے حل کر دیا تھا مسئلہ بس ایک تھا کہ ہم کو گلزارکی دکان میں بیٹھنا پڑرہا تھا اور وہ بھی ایسے کہ کسی کی نظروں میں نہ آئیں یعنی کسی فریج وغیرہ کے پیچھے اسٹول پر بیٹھ جاتے تھے، گلزار کاﺅنٹر پر گاہکوں سے نمٹتا تھا، کسی چیز کی مرمت میں لگا رہتا اور ساتھ ہی سالن کی ہانڈی میں چمچہ بھی چلاتا جاتا۔ ہم زیادہ سے زیادہ مسجد اور بقالے تک کا چکر لگا لیتے تھے۔ زندگی صبح کالج جانے شام کو واپس آنے، کچھ دیر آرام کرنے اور پھر گلزار کی دکان پر جانے اور کھانا کھا کر واپس اپنے کیمپ آنے کا نام ہو گئی تھی۔ چوتھے ہی روز ہم اس شدید اکتا دینے والی روٹین سے بیزار ہو گئے۔ کالج سے واپس اپنے کیبن میں پہنچے تو دل میں عجیب سی اداسی کا بسیرا تھا۔ گھر شدت سے یاد آرہا تھا، وہ سڑکیں جن سے گزرتے ہوئے گندگی اور بے ترتیب ٹریفک کے علاوہ کوئی قابل ذکر بات نظر نہیں آتی تھیں جانے کیوں بے طرح یاد آرہی تھیں۔ گھر کے درودیوار جنہیں وہاں رہتے ہوئے شائد کبھی غور سے دیکھا بھی نہیں ہوگا ، نظروں کے سامنے اس طرح آرہے تھے جیسے کوئی مدت کا بچھڑا عزیز دروازے پر کھڑا پکار رہا ہو۔ ابا سے ہونے والی کھٹی میٹھی نوک جھونک ، بھائیوں سے ہونے والی نرمی گرمی ، دوستوں کی تو تکرار سب نے مل کر دل کو ایسا تھیٹر بنا دیا تھا جس کے اکلوتے ناظر ہونے کے ناطے ہم نے ضبط کا بند توڑنا ہی غنیمت جانا۔ دل بہت بوجھل ہو رہا تھا کیبن سے اٹھ کر باہر نکل آئے، کیمپ کے باہر کمپنی کی گاڑیاں کھڑی تھیں، ہم خالی ذہن لئے بس کا دروازہ کھول کر ایک سیٹ پر جا کر بیٹھ گئے۔ جیسے یہ بس ہمیں واپس ہمارے گھر پہنچا دے گی۔ خیالات فلم کی صورت ذہن کے پردے پر چل رہے تھے، خیال کیا تھے جیسے یادوں کی آندھی تھی جو ہر قسم کی سوچ اور احساس کو اڑا لے جا رہی تھی۔ غصہ ، یاسیت ، اداسی ، درد سب نے مل کر غم کی ایسی کیفیت بنا دی کہ دن رات کا احساس بھی مٹ گیا۔
سورج کب ڈوبا ، چاند کب نکلا، تارے کب بکھرے کچھ پتہ نہ چلا ،آنکھ کھلی تو شام رات کی کالی چادر اوڑھ کر سو چکی تھی، ہمارے اٹھنے سے کسی کی نیند خراب نہ ہو جائے اس خیال سے بس کی سیٹ کوہی بستر بنالیا، اندھیرے کو اوڑھا اور رات کے ساتھ ہم بھی سو گئے۔ صبح خورشید جہاں تاب نے بس کی کھڑکی سے تیز کرنوں کے بھالے مارنے شروع کیے تو آنکھ کھل گئی۔ نیند آئی تھی یا ساری رات نیند کے انتظار میں گزاری تھی کچھ یاد نہیں آرہا تھا، ذہن جیسے ابھی تک سو رہا تھا۔ جیسے تیسے اپنے کیبن میں پہنچے ، کالج جانے کی تیاری شروع کی ،جانے کا دل بالکل بھی نہیں چاہ رہا تھا، دل کو تو بس گھر جانے کی چاہ تھی لیکن یہ چاہ ایسی نہیں تھی کہ فوری پوری ہو سکے۔ جاﺅں نہ جاﺅں کی کشمکش میں بس بھی نکل گئی آخر کار قرعہ فال کالج جانے کے نام نکلا کیونکہ وہاں وقت کچھ اچھا گزر جاتا ورنہ کیمپ میں تو وقت کاٹے نہیں کٹنا تھا۔ بس تو نکل ہی چکی تھی پیدل جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا اس لئے چل پڑے۔ کالج پہنچ کر سیدھا جلال صاحب کی طرف گئے ، کیا ہوا میاں، رات بھر سوئے نہیں کیا، شکل پر اتنی تھکن کیوں نظر آرہی ہے، جلال صاحب نے ہمیں دیکھتے ہی کئی سوال جڑ دیے۔ ہم نے خالی آنکھوں سے جلال صاحب کو دیکھا اور پھر خالی آنکھیں بھر آئیں…. جاری ہے
٭٭