میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے دیرینہ اتحادیوں کو نظر انداز نہ کریں

ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے دیرینہ اتحادیوں کو نظر انداز نہ کریں

منتظم
جمعرات, ۲۴ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

رچرڈ جواد حیدر ریان
امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر متوقع انتخاب کے بعد امریکا سمیت پوری دنیا کی اسٹاک مارکیٹ کو جو جھٹکا لگاتھا ،وہ ابھی اس کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکی ہے اور امریکا سمیت تمام یورپی ممالک کی اسٹاک مارکیٹس میں مندی کا رجحان جاری ہے۔ اس انتخابی نتیجے کے بعد امریکا جو کثیرالنسلی مملکت ہے شدید غیر یقینی صورت حال کاشکار ہے، اور امریکا میں بسنے والے مختلف نسلوںسے تعلق رکھنے والے لوگ گومگو کا شکار ہیں یہاں تک کہ اس غیر یقینی صورتحال سے نجات کیلیے بہت سے قدیم امریکی باشندوں نے کینیڈا اور بعض دوسرے ممالک کو نقل مکانی کاسلسلہ بھی شروع کردیاہے۔
امریکا کی موجودہ صورت حال کے مقابلے میں اب چین زیادہ مضبوط ومستحکم ملک نظر آرہا ہے جس کی قیادت بھی بالغ النظر ہے اور پوری دنیا کی سیاست اور سیاسی وتجارتی ضروریات اور اہمیت کو پوری طرح سمجھتی ہے۔اس کے برعکس نہ تو ڈونلڈ ٹرمپ ہی اور نہ ہی اب تک ان کی منتخب کردہ ٹیم کے ارکان کسی ایسی سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دے سکے ہیں جس سے فی الوقت امریکا کو درپیش غیر یقینی کی صورت حال ختم ہونے کا کوئی امکان نظر آسکے۔
ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا کا ایک ذہین اورکامیاب تاجر تصور کیاجاتاہے لیکن ایک کامیاب تاجر ہونے کے باوجود اب تک ڈونلڈ ٹرمپ نے ایشیا کے بارے میں اپنی کسی واضح پالیسی کاا علان نہیں کیا ہے جبکہ امریکا اور ایشیائی ممالک دیرینہ تجارتی حلیف تصور کئے جاتے ہیں اور امریکا کے اسلحہ سے لے کر معمولی صنعتی سازوسامان یہاں تک کہ روزمرہ استعمال ہونے والی بعض اشیا کی ایشیائی مارکیٹوں میں بھاری کھپت ہے اور امریکا ایشیائی منڈیوں کو نظر انداز کرکے اپنی صنعتی ترقی کی رفتار برقرار رکھنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتاہے، یہ ضرور ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے اشارے دئے ہیں لیکن بھارت ایشیا کی نمائندگی نہیں کرتا اور صرف بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھا کر امریکا پوری ایشیائی منڈی تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کا نعرہ تھا ”سب سے پہلے امریکا“ اور ”امریکا کودوبارہ عظیم تر بنائیں گے“ لیکن اس نعرے کو حقیقت کا روپ دینے کیلیے بھی یہ ضروری ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے کے اصول پر عمل کریں اور صرف مغرب یا یورپ پر اکتفا کرنے کے بجائے ایشیا ،افریقہ اور خاص طورپر مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیائی ممالک پر خصوصی توجہ دیں اور ایک ایسی لچکدار خارجہ پالیسی ترتیب دیں جس میں امریکا کسی خاص ملک یا خطے پر مہربان نظر آنے کے بجائے دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے والا ملک نظر آئے اورکسی ملک یا خطے کو یہ احساس نہ ہو کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس کے ساتھ خصوصی پرخاش رکھتے ہیں یا اسے نظر انداز کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ یہ بات اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ ایشیا،خاص طور جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے ساتھ امریکا کے دیرینہ تجارتی، اقتصادی اور فوجی تعلقات قائم ہیں، اور ایشیا ،افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک ہر اچھے اور برے وقت میں امریکا کے ساتھ کھڑے ہوتے رہے ہیںاور ان ممالک کو امریکا کی جانب سے تحفظ کی چھتری حاصل رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان سے بار بار ایشیا اور یورپ کے ساتھ امریکا کے دیرینہ فوجی معاہدوں اور وعدوں کے بارے میں سوالات کئے جاتے رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران اپنی تقریروں میں یہ دھمکی دی تھی کہ اگر امریکا سے فوجی امداد حاصل کرنے والے ممالک نے اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں تو وہ برسراقتدار آکرروس کے خطرے سے دوچار بحیرہ بلقان کے خطے میں واقع ریاستوں اورشمالی کوریا کے ایٹمی عزائم کے خطرات سے دوچار جنوبی کوریا جیسے ممالک کیلیے بھی فوجی امداد بند کردیںگے۔یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کااعلان ہوتے ہی جنوبی کوریا کوامریکی فوجی امداد بند ہونے کی صورت میں اپنی قومی سلامتی کو پیش آنے والی صورت حال پر غور کیلیے اپنی قومی سلامتی کونسل کااجلاس بلانے پر مجبور ہونا پڑا تھا ۔ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد جاپان، منیلا،کینبر اور امریکا کے دیگر اتحادی ممالک میں بھی قومی سلامتی کے حوالے سے خوف اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی اب تک کی کارکردگی سے تو یہ ظاہرہوتاہے کہ وہ امریکا کے دیرینہ حلیف چھوٹے ممالک کے بجائے اب روس جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کے خواہاں ہیں اور کسی کو ساتھ ملائے بغیر تنہا ہی اپنی قوت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسی بھی جس میں بہتری کی امید کی بنیاد پر سفید فام اکثریت نے ان کاساتھ دیاتھا گومگو کاشکار ہے اوراس سے بھی یہی نظر آرہاہے کہ امریکا اپنے چھوٹے اتحادی ممالک کے ساتھ پہلے جیسے تجارتی تعلقات قائم رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔جس کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ شمالی امریکا کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے کی بھی مخالفت کررہے ہیں اور مجوزہ بین البحرالکاہل تجارتی سمجھوتے اور علاقائی تجارتی تعلقات کے بھی مخالف ہیں۔جبکہ اس طرح کے تعلقات خود امریکا کیلیے فوجی اور اقتصادی دونوں اعتبار سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت پر بھاری ٹیرف کے نفاذ ، امیگرنٹس کی امریکا آمد پر سخت پابندیاں عاید کرنے اورٹی ٹی پی معاہدے ختم کرنے کے حوالے سے ان کے اعلانات پر عمل سے اس خطے میں امریکا کی سپریمیسی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتاہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس اب بھی وقت ہے انھیں اپنے ان خیالات پر نظر کرنی چاہئے اورامریکا کی صدارت کامنصب سنبھالنے کے بعد پوری دنیا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کیلیے حقیقت پسندانہ پالیسیاں اپنانی چاہئیں۔ایک قابل عمل اور تمام اتحادی ممالک کیلیے قابل قبول اور قابل عمل خارجہ پالیسی ترتیب دینی چاہئے اورمختلف خطوں کے ممالک کے ساتھ امریکا کے دیرینہ وعدوں اور وابستگیوں کو برقرار رکھنے کو ترجیح دینی چاہئے۔اس کے ساتھ ہی انھیں ایک ایسی اقتصادی پالیسی ترتیب دینی چاہئے جس کے ذریعے امریکا کی تجارت کو بڑھاوا دیاجاسکے اور اس میں کسی طرح کی کمی کاامکان نہ رہے۔ بصورت دیگر ڈونلڈ ٹرمپ کا دور حکومت امریکا کیلیے تاریک ترین دور بن جائے گا اور اسے دنیا بھر میں قائم امریکا کابھرم پاش پاش ہوجائے گا۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں