صدر اردوان کا دورہ پاکستان اور مسئلہ کشمیر
شیئر کریں
محمد قاسم حمدان
مردآہن صدررجب طیب اردوان‘ سحرانگیز شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے اپنی مضبوط قوت ارادی‘ عزم واستقلال اورجہد مسلسل سے یورپ کے مرد بیمار کومردِ میدان کارِ زار بنا دیا۔ ترکی کی معیشت کوبام عروج تک پہنچانے کاسہرابھی انہی کے سر سجتاہے۔ طیب اردوان ہی نہیں ترکی کاہرفرد پاکستان سے بے انتہامحبت کرتاہے۔دنیا میں جتنی عزت وتکریم ترک اہل پاکستان کودیتے ہیں،اس کی مثال ملنابھی مشکل ہے۔اس دوستی وتعاون کی بنیاد اسلام ہے کیونکہ محمدرسول نے فرمایا:مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے ایک جسم کی مانند ہے۔اسی محبت کا اظہار خود طیب اردوان نے بھی کیا۔ انہوں نے کہاترکی کی خلافت عثمانیہ کو بچانے کے لیے اس خطے کے مسلمانوں نے ترک بھائیوں کی دل وجان سے مدد کی۔ جسے ترکی کے عوام کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔
صدر رجب طیب اردوان نے کہاکہ 1995ءمیں جب ترکی میں خوفناک زلزلہ آیا توپاکستان کے عوام نے ایک بار پھر ترکوں کی بے پناہ مددکی۔ صدر اردوان محبت کے اس رشتے کو مزید مضبوط بنانے کے لیے دو روزہ دورے پرجب اسلام آباد پہنچے توان کا فقیدالمثال استقبال کیاگیا۔انہوں نے پاکستان کی پارلیمنٹ میں بڑے نپے تلے اندازمیں فہم وفراست کے موتی بکھیرے ۔وہ دنیا کے اٹھارہویں سربراہ مملکت ہیں جنہیں پارلیمنٹ میں خطاب کا اعزازحاصل ہوا۔ترک صدر پاکستان آئے اور لاہور نہ آئےں یہ کبھی نہیں ہوسکتا کیونکہ میاں شہباز شریف پاک ترک تعلقات میں ایک پل کی حیثیت رکھتے ہیں۔میاں صاحب نے کہاکہ اہل ترک ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔
صدر رجب طیب اردوان کایہ دورہ اس لیے بھی اہمیت کاحامل تھاکہ انہوں نے اپنے ملک میں ہونے والی بغاوت کواپنی جان پر کھیل کر ناکام بنایا۔وہ میدان میں نکلے تو پوری قوم ان کی دست وبازو بن گئی۔ترکی میں یہ رات جب لوگ ٹینکوں کے سامنے ان کا رستہ روکنے کے لیے لیٹ گئے۔بہت سوں کو کچل دیاگیالیکن انہوں نے اس کے باوجود قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کردی اور جن ممالک میں فوجی آمریت آئے روز کریک ڈا¶ن کرتی ہے‘انہیں آئینہ دکھایا۔ ترک عوام نے آمریت کی گھٹن میں سانس لینے والے عوام کو قربانیوں کی نئی راہ دکھا کر آمریت کودفن کرنے کا حوصلہ بھی عطاکیا۔
صدراردوان کی مہمان نوازی کے لیے شاہی قلعے کے سامنے حضوری باغ میں اسٹیج سجایاگیا۔ اس موقع پر پنجاب حکومت اور ترکی کی وزارت صحت کے درمیان ہیلتھ اینڈکیئر سسٹم کی بہتری کے لیے تعاون کے معاہدے پردستخطوں کی تقریب ہوئی۔ معاہدے کی رو سے ترکی کی وزارت صحت پنجاب کے شعبہ کو جدید خطوط پراستوار کرنے کے لیے تکنیکی معاونت بھی فراہم کرے گی۔ معاہدے کی رو سے نرسوں کو ترکی سے تربیت دلوائی جائے گی۔ پنجاب کڈنی اینڈلیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوشن اور ترکی کی یونیورسٹی مالٹایہ کے مابین اشتراک کاربھی ہوگا۔ترک صدر باہمی تجارت کو بھی ایک ارب ڈالر سے بہت آگے لے جاناچاہتے ہیں اور اس کے لیے پاکستان اور ترکی کے درمیان 2017ءتک آزادانہ تجارت کا معاہدہ بھی ہوجائے گا۔ پاکستانی آبدوز اور F-16 کو اپ گریڈ کرنے پربھی پاکستان ترکی کاممنون ہے۔ ترک صدر نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کے لئے پاکستان کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
صدر اردوان پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے تعاون کا منصوبہ تولائے ہی تھے لیکن انہوں نے خصوصی انداز میں ان بڑے ایشوز پر بہت جامع اور مدلل اندازمیں بات کی ‘جن میں اس وقت امت مسلمہ بری طرح جکڑی ہوئی ہے۔ان مصائب کی جڑ ام الخبائث دہشت گردی کاناسورہے۔آپ دنیاکانقشہ اٹھاکر دیکھیں۔اس وقت افغانستان‘ پاکستان‘ ترکی‘ شام‘ لیبیا‘ فلسطین اور کشمیرمیں خودکش حملوں‘ریاستی دہشت گردی نے امن وترقی کوخواب بنادیاہے۔کشمیرکی صورتحال اس وقت بہت نازک موڑپرہے۔ روزانہ ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں کشمیریوں کے لاشے اٹھائے جارہے ہیں۔ ہزاروں نوجوانوں کی پیلٹ گنوں سے بھارتی فوج نے بینائی چھین لی ہے۔ کرفیوکی سیاہ رات طویل ترہورہی ہے۔ان کاحق آزادی دینے کی بجائے کشمیر کو موت کی وادی بنادیاگیاہے۔امریکا ویورپ سبھی نے اپنے مفادات کی خاطر مودی کوموت کاکھیل کھیلنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
آج دنیاکی توجہ کشمیرکے مظالم سے ہٹانے کے لیے بھارت نے ایک طرف کنٹرول لائن پر جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ ابھی چند روز پہلے ہی بھارت کی وحشیانہ اندھادھند فائرنگ سے ہمارے سات جوان شہیدہوئے۔بھارت نے افغانستان میں دہشت گردی کے اڈے بناکر بلوچستان میں ایک نئی مکتی باہنی کھڑی کررکھی ہے۔اس کی دہشت گردی کی تازہ مثال اس کا ڈرون ہے جسے ہماری فوج نے مارگرایا۔بھارت کنٹرول لائن کے بعدسمندری حدود میں بھی دراندازی کے ذریعے جنگ کے شعلوں کو ہوادے رہاہے۔آزادی کشمیریوں کاحق ہے‘ اس موقف سے پاکستان کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ کشمیرکا مقدمہ ہرپلیٹ فارم پرلڑاجائے گا۔بھارت جو ہمیشہ ہرفورم پر مسئلہ کشمیر سے فرارہوتاہے‘اسے عالمی رائے عامہ کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔
میاں محمدنوازشریف نے کشمیرکے مقدمے کودنیاکے سامنے اجاگرکرنے کے لیے کئی ایک ممالک میں وفود بھیجے۔ ایساہی ایک وفد محسن شاہ‘ نوازرانجھاکی قیادت میں ترکی بھی گیا جس کی کاوشوںسے ترکی نے یواین میں کشمیر پر بھرپور آواز اٹھائی۔
صدراردوان نے پوری قوت سے کشمیریوں کویقین دلایا کہ ترکی مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے کردارادا کرنے کوتیارہے اورمسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرارداداور کشمیریوں کی خواہشات کوسامنے رکھ کر حل ہوناچاہیے۔ترکی کشمیرمیں ہونے والے مظالم پردل گرفتہ ہے۔ اردوان کشمیرپر کچھ کرناچاہتے ہیں مگر عمران خان نے اسمبلی میں نہ آکر ان کوششوں کو عملاً سبوتاژ کرنے کاعندیہ دیا۔ان کے بارے میں یہی کہاجاسکتاہے :
عجب تیری سیاست عجب تیرے ابہام
کشمیریوں سے نفرت، مودی کو پرنام
صدررجب طیب نے کہاوہ صرف پاکستان اوراہل پاکستان کے موقف کی کھل کرحمایت نہیں کررہے بلکہ بھارت کی جانب سے سی پیک کے خلاف جاری سازشوں کوناکام بنانے اورکسی بیرونی جارحیت کے خدشے کی صورت میں بھی پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ صدراردوان نے کہاکہ مسلم امہ کواس وقت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ اسلام دشمن قوتیں اسلام پردہشت گردی کالیبل لگاکر اسے بدنام کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس تناظرمیں ترک صدر نے جہاں دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی بیش بہاقربانیوں کو قابل ستائش قراردیا‘وہیں دہشت گردوں کودین اسلام کے دائرہ سے باہرنکالنے کے لیے مسلم ممالک کی مشترکہ حکمت عملی کا بھی تقاضاکیااور اس معاملہ میں پاکستان کے قائدانہ کردار کو پیش نظررکھا۔طیب اردوان نے لاینفک حقائق سے دنیاکو آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ مغربی دنیادہشت گردوں کے ساتھ ہے اور ان کی مدد کررہی ہے۔ دہشت گردوں کو اسلحہ کی فراہمی کاسب سے بڑا ذریعہ مغرب ہے جس نے اسلحہ کے بدلے میں داعش اورلیبیامیں کرنل قذافی کاتختہ الٹنے والوں سے تیل کی خریداری کے بڑے بڑے معاہدے کررکھے ہیں۔
داعش کادین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔اس چیز کو سمجھ لینا چاہیے کہ داعش جو اسرائیل کے بارڈر پربیٹھے ہیں جہاں سے انہیں اسلحہ کی ترسیل میں کوئی مشکل بھی پیش نہیں آتی۔ داعش نے کبھی بھی اسرائیل کے خلاف گولی چلاناتودور اس کے مظالم کے خلاف کبھی ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکالا۔لیکن پاکستان‘ترکی اور سعودی عرب ان کے خصوصی نشانے پرہیں۔ ان اسلام دشمن قوتوں سے نمٹنے کاحل صرف مسلم امہ کے اتحاد سے وابستہ ہے۔
شاہ سلمان نے34ممالک کو ایک جگہ جمع کردیاہے۔اس عسکری اتحاد کومضبوط کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی مفادات سے بالاتراخلاص سے سوچناہوگا۔اس اتحاد کو نیٹوطرزپر تیار کرنے کے لیے پاکستان اورترکی کاکردارنہایت اہمیت کاحامل ہے۔ دونوں ممالک کے پاس بڑی اورتربیت یافتہ افواج موجود ہیں۔ پاکستان اگرایٹمی قوت ہے تو ترکی بھی عسکری لحاظ سے مضبوط ہے۔مسلم دنیاکے اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے دونوں ممالک استعمار کے نشانے پرہیں۔ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت اس سلسلے کی ایک کڑی ہے اور اس کے سوتے امریکا کے زیرسایہ پروان چڑھنے والی گولن تحریک سے جاکر ملتے ہیں۔
ترکی کوبرماکے مسلمانوں اور شام کے تیس لاکھ پناہ گزینوں اوراسلام کی طرف اٹھتے ہرقدم پرسزادی جارہی ہے۔پاکستان کو بھی ایسی قوتوں کاسامناہے۔ ایسی صورت میں لفاظی کے گورکھ دھندے سے نکل کرحقائق کاسامنا کرنا ہے۔ صدر اردوان نے بجاکہاکہ باغی طاقتوں سے ملنے والے اسلحے کے تانے بانے مغرب سے ملتے ہیں۔ہمیں متحد ہوکر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف محاذآرائی کرنی چاہیے۔ ہم حضرت محمدﷺکے احکامات کے مطابق حکومت قائم کرسکتے ہیں۔اسلامی ملکوں کوفرقہ بازی‘فتنہ کے خلاف مل کر نبردآزما ہوناہے۔ اسلام برائی کو روکنے اورنیکی کی دعوت دینے کا دین ہے۔ ہرطرح کی ناانصافی کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا۔ طیب اردوان نے پاکستان اورافغانستان کے درمیان بہترتعلقات قائم کرنے پر بھی زور دیاکیونکہ افغانستان سے گزرکر ہی آزادمسلم ریاستوں اور روس سے ہاتھ ملایا جاسکتا ہے، اس وقت بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں افغان سرزمین استعمال ہورہی ہے۔
٭٭