آہ ۔۔پروفیسرڈاکٹراسلم انصاری
شیئر کریں
لقمان اسد
نام ور شاعر،دانش ور،ماہرتعلیم، نقاداورماہراقبالیات پروفیسرڈاکٹراسلم انصاری چندروزقبل ملتان میں وفات پاگئے۔یقینا ملتان ہمیشہ سے بے شمار نابغہ روزگار شخصیات، اصحاب قلم اور فکر ادب کا مخزن رہا ہے،متعدد اہلِ علم و فن نے اپنے اپنی ہمہ گیر خدمات سے اس دنیائے رنگ و بو کی عطر بیزی کی ہے ۔لیکن ایسی شخصیتیں بہت کم رونما ہوئیں جو مردم ساز اور عہد آفریں ہوں، جن کی علم و ادب کی وسعت،فکر و فن کی گہرائی اور ان کی گونا گوں خصوصیات و کمالات کی جامعیت اپنے اندر دور رس اور گہرے اثرات رکھتی ہو۔
ڈاکٹر اسلم انصاری 30 اپریل 1939 کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ایمرسن کالج ملتان سے 1959 میں بی اے آنرز اور پنجاب یونیورسٹی اوریئنٹل کالج سے 1962میں ایم اے اردو کیا۔ بعد میں ایم اے فارسی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ملازمت کا آغاز یونیورسٹی اوریئنٹل کالج لاہور سے کیا۔ ڈاکٹر اسلم انصاری ایمرسن کالج ملتان سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر ریٹائر ہوئے۔ وہ ملتان آرٹس کونسل کے بانی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر بھی رہے۔ ان کی شاعری اور علمی و ادبی خدمات پر مختلف جامعات میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات لکھے جا چکے ہیں جن میں یونیورسٹی لندن میں لکھا گیا پی ایچ ڈی مقالہ بھی شامل ہے۔ ان کی ادبی خدمات پر انھیں متعدد ایوارڈز پیش کیے گئے جن میں تمغہ حسن کارکردگی، صدارتی تمغہ امتیاز، اقبال ایوارڈ، خواجہ غلام فرید ایوارڈ، فیض احمد فیض ایوارڈ اور ریڈیو پاکستان ایوارڈ قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر اسلم انصاری کی اردو کتب میں خواب و آگہی، نقش عہد و سال، فیضانِ اقبال، شبِ عشق کا ستارہ، تحریر نغمہ، ماہ و انجم، پسِ دیوار چمن، منتخب کلیات اسلم انصاری، کلیات اسلم انصاری، جبکہ فارسی تصنیفات میں چراغ لالہ، نگار خاطر، دیوان اسلم انصاری اور فرخ نامہ شامل ہیں۔ ”گلبانگِ آرزو” کے عنوان سے اُن کی فارسی کلیات 2024 میں پہلی بار اکادمی ادبیاتِ پاکستان نے شایع کی۔ سرائیکی میں ان کے ناول ”بیڑی وچ دریا”کا ترجمہ ”ناؤ میں ندیا” کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ بطور محقق اور اقبال شناس بھی انھوں نے قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ ان کی تحقیقی و تنقیدی تصانیف میں اقبال عہد آفریں، اقبال عہد ساز شاعر اور مفکر، شعر و فکر اقبال، مطالعاتِ اقبالیات و ادبیاتِ عالم قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے خواجہ غلام فرید کی قافیوں کے انگریزی تراجم کیے ہیں نیز وہ انگریزی میں نظمیں ”کھیل اور کہانیاں” بھی تحریر کر چکے ہیں۔ اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے معروف کتابی سلسلے ”پاکستانی ادب کے معمار” کے تحت ڈاکٹر اسلم انصاری کے فن اور شخصیت پر ڈاکٹر محمد افتخار شفیع کی کتاب 2010 میں شایع کی گئی تھی۔
اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے زیر اہتمام ڈاکٹر اسلم انصاری کی فارسی کلیات ”گلبانگ آرزو” کی تقریبِ رونمائی 27 اپریل 2024 کو ملتان میں ہوئی تھی۔ اکادمی ادبیات کی صدرنشیں ڈاکٹر نجیبہ عارف اور ناظمِ اعلیٰ سُلطان ناصر نے خصوصی طور پر اسلام آباد سے ملتان جا کر اِس تقریب میں شرکت کی اور ڈاکٹر اسلم انصاری کو اُن کی زندگی بھر کی بیش قیمت علمی ادبی خدمات پر خراجِ تحسین و عقیدت پیش کیا۔ اس
تقریب میں ڈاکٹر اسلم انصاری مہمان خصوصی تھے جبکہ صدارت ڈاکٹر نجیبہ عارف نے کی تھی۔ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد جنھوں نے کلیات کی ترتیب میں خاص کردار ادا کیا، نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر مختار ظفر، ڈاکٹر حمید رضا صدیقی، اور شاکر حسین شاکر نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ تقریب کی نظامت اظہر سلیم مجوکہ نے کی۔ یہ ڈاکٹر اسلم انصاری کے ساتھ اہلِ قلم کا ایک یادگار اور اپنی طرز کا آخری اکٹھ تھا جس میں کئی نمایاں شخصیات نے شرکت کی جن میں رانا محبوب اختر، قمر رضا شہزاد، رضی الدین رضی، نسیم شاہد اور خالد مسعود خان صاحبان و دیگر شامل تھے۔
آپ جنوبی پنجاب سمیت ملک بھرکے علمی وادبی حلقوں کے ماتھے کاجھومرتھے۔ان کی نظم ”گوتم سے مکالمہ” زبان زد عام و خاص ہے جبکہ ”میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں” سمیت ان کی بہت سی غزلیں اوراشعار ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ اردو اور فارسی زبانوں کے بلندپایہ اورقادرالکلام شاعرتھے۔ اسلم انصاری نے سرائیکی ناول اور اردو افسانہ بھی لکھا ہے۔ان کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کا شمار سید عبد اللہ کے پیارے شاگردوں میں ہوتا تھا۔ یہیں ان کی ملاقات ناصر کاظمی سے ہوئی۔ اسلم انصاری کے مطابق ناصر کاظمی نے پہلی بارش کی غزلوں کا آئیڈیا ان ہی سے لیا۔ اسلم انصاری کی مثال علم ودانش کے ایک منبع کی ہے۔ ان کے شعر وفکر پر اقبال کے گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔
آئینہ خانہ عالم میں کھڑا سوچتاہو ں
میں نہ ہوتا تو یہاں کون سا چہرہ ہوتا
۔۔۔
جو سوچیے تو سبھی کارواں میں شامل ہیں
جو دیکھیے تو سفر میں ہرایک تنہا ہے
ڈاکٹراسلم انصاری متنوع ادبی جہات کی حامل شخصیت تھے۔ان کی شاعری ہو یا تنقید و تحقیق، ادبی کالم نگاری ہو یا افسانہ نگاری ہر شعبے میں انھیں ایک خاص انفرادیت حاصل تھی۔اسلم انصاری کی شخصیت کے بارے میں ڈاکٹرافتخارشفیع رقم طرازہیں:”ڈاکٹراسلم انصاری ملتان کی اس تہذیب کے وارث ہیں جس کا ایک سرا سمرقنداور بخارا جیسے علمی مراکز سے جا ملتا ہے۔کسی نے میر تقی میر کے بارے میں کہاتھا کہ وہ پورا دہلی تھے۔دہلی اور میر لازم وملزوم تھے۔اسی طرح یہ کہنے میں ہم حق بجانب ہیں کہ اسلم انصاری پوراملتان ہیں۔یہ الگ بات کہ ان کے فکروتفلسف کی اہمیت کوقومی سطح پرتسلیم کیاجاتاہے”۔
پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری کو 2009ء میں تمغہ امتیاز سے نوازاگیاتھا اور 14 اگست 2020ء کو انھیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ قول محال کی قوت بخش موجو دگی بھی ملتی ہے ساتھ ہی ساتھ اپنی ذات کا اقرار بھی ملتا ہے ۔ آپ نے زندگی کی نفسیات سے ایک بڑی وسیع لغت ترتیب دی اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے اردو ادب کے سنجیدہ حلقوں میں بہت جلد اپنی ایک الگ پہچان اور اعتماد بنایا
دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے