میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عمران خان پارلیمان سے باہر نہ آتے تو نیب ترامیم پر بحث ہوتی، جسٹس منصور علی شاہ

عمران خان پارلیمان سے باہر نہ آتے تو نیب ترامیم پر بحث ہوتی، جسٹس منصور علی شاہ

ویب ڈیسک
پیر, ۲۴ اکتوبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پارلیمان سے باہر نہ آتے تو نیب ترامیم پر بحث ہوتی، ان کے کنڈکٹ پر یہی اعتراض ہے۔سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جنسی ہراسگی سمیت ہمارے کئی قوانین میں خامیاں موجود ہیں، کیا عدالت بین الاقوامی کنونشنز کے مطابق قانون سازی کی ہدایت کر سکتی ہے؟ اگر عدالت ہدایات دے بھی تو پارلیمان کس حد تک ان کی پابند ہوگی؟عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت کئی مقدمات میں پارلیمان کو ہدایات جاری کر چکی ہے، عدالت نے کئی قوانین کی تشریح بین الاقوامی کنونشنز کے تناظر میں کی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عالمی کنونشن میں نجی شخصیات کی کرپشن کا بھی تذکرہ ہے، نجی شخصیات میں کنسلٹنٹ، سپلائر اور ٹھیکیدار بھی ہوسکتے ہیں، نجی شخصیات اور کمپنیاں حکومت کو غلط رپورٹس بھی دے سکتی ہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ پنجاب بنک کیس میں بھی نجی شخصیات پر 9 ارب کی کرپشن کا الزام تھا۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کسی دوسرے ملک نے عالمی کنونشن کے مطابق کرپشن قانون بنایا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کسی دوسرے ملک کے کرپشن قانون کا جائزہ نہیں لیا، عالمی کنونشن میں درج جرائم پاکستانی قانون میں شامل تھے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دنیا نے کرپشن کے خلاف عالمی کنونشن 2003 میں جاری کیا، مثبت چیز یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن کے خلاف قانون 1947 سے ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت غلط قانون بنائے تو عوام اسے ووٹ نہیں دے گی، جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کے احتساب کا یہی طریقہ دیا گیا ہے، دوسری حکومت آ کر قانون تبدیل کر سکتی ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم کے بعد نیب قانون آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف رہ گیا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مالیاتی پالیسی میں معاشی بہتری کے لیے پارلیمان قانون نرم کرے تو عدالت کیا کر سکتی ہے؟ خودکشی پر فوجداری کارروائی کے خلاف بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں، کیا خودکشی پر فوجداری کارروائی ختم کرنے پر عدالت مداخلت کر سکتی ہے؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمان میں بحث ہوتی تو شاید خامیوں کی نشاندہی ہوجاتی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عمران خان کے کنڈکٹ پر یہی تو اعتراض ہے، عمران خان پارلیمان سے باہر نہ آتے تو نیب ترامیم پر بحث ہوتی۔خواجہ حارث نے کہا کہ پی ٹی آئی سینیٹ میں موجود تھی وہاں بحث کیوں نہیں کرائی گئی؟ نیب قانون ایسا بنا دیا گیا ہے کہ جرم ثابت ہی نہیں ہوسکتا۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ترامیم میں کہاں لکھا ہے کہ ہر کوئی احتساب سے بالاتر ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ فوجداری مقدمات میں عوام کے بنیادی حقوق شامل ہوتے ہیں، کرپشن مقدمات میں تو پیسہ ہی عوام کا شامل ہوتا ہے، کرپشن کے خلاف عالمی کنونشن میں کم سے کم معیار دیا گیا ہے، کنونشن کے مطابق انسداد کرپشن قانون کو مزید سخت کیا جا سکتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں