میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مستقبل کا چین اور’’ شی جن پنگ ‘‘کا مستقبل ؟

مستقبل کا چین اور’’ شی جن پنگ ‘‘کا مستقبل ؟

ویب ڈیسک
پیر, ۲۴ اکتوبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

لیڈرشپ یعنی قیادت سے مراد ’’رہنمائی کرنے کی اہلیت‘‘ ہے اور اس تناظر میں ہر سیاسی قیادت میں غیر معمولی ذہانت، انسانی تفہیم، معاملہ فہمی اور اخلاقی کردار کی اعلیٰ صلاحیتوں کا یکجا ہونا ازحد ضروری ہوتاہے۔کسی بھی سیاسی قیادت میں مذکورہ بالا صلاحیتوں کے کم یا زیادہ ہونے کی بنیاد پر اُس سیاسی قیادت کے بارے میں اچھا، بہت اچھا، یا پھر بہترین قائد ہونے کی رائے دی جاسکتی ہے۔ چونکہ سیاسی قیادت کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کبھی بھی تن تنہا نہیں کرتی ۔ لہٰذا، قیادت کی بنیادی تعریف ہی یہ ہے کہ سیاسی قائد کے ساتھ ایک گروہ یا سیاسی تنظیم بھی ضرور ہو ، جو ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے اور ہرہدف کو حاصل کرنے میں اُسے معاونت فراہم کرے۔ لیکن کسی بھی سیاسی تحریک ،تنظیم یا پھر ملک کو کامیابی کی شاہراہ ڈالنے کی تمام تر ذمہ داری صر ف قیادت پر ہی عائد ہوتی ہے ۔ یعنی اگر سیاسی قیادت نااہل ، غبی اور اناپرست ہے تو پھر وہ اپنے کارکنان میں نفرت اور تشدد کے جذبات اُبھار کر اُنہیں تخریب، احتجاج اور انارکی کی ڈگر پر چلنے پر مجبور کرے گی جبکہ قابل، ذہین ،معاملہ فہم اور اعلیٰ اخلاق سے متوصف قیادت اپنے کارکنان میں صبر ،برداشت، رواداری اور تعمیری جذبات بیدار کرکے اُنہیں اعلی سیاسی بالیدگی سے روشناس کروائے گی۔
اس پیمانہ پر اگر جائزہ لیا جائے تو پوری دنیا میں اِس وقت سیاسی قیادت کا زبردست بحران آیا ہوا ہے ،جس کی وجہ سے ہرملک چاہے اُس کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتاہے یا پھر ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں ، ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین سیاسی عدم استحکام کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مثال کے طور پر دنیا کی سب سے قدیم ترین جمہویت برطانیا میں گزشتہ ماہ تحریک عدم اعتماد کے نتیجہ میں اپنے عہدے سے برخاست کیئے جانے والے بورس جانسن کے بعد نئی آنے والی وزیراعظم لز ٹرس بھی فقط41 یوم بعد ہی،ملک میں روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث مستعفی ہونے پر مجبور ہوگئی ہیں اور اُن کے مستعفی ہونے کے بعد برطانوی سیاست شدید بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہے۔
جبکہ گزشتہ برس انجلا مرکل کو شکست دے کر اقتدار میں آنے والے جرمن چانسلر ،اولاف شولس، بھی بڑی تیزی کے ساتھ اپنی سیاسی مقبولیت کھوتے جارہے ہیں ۔ ایک تازہ ترین عوامی سروے کے مطابق 62 فیصد سے زائد جرمن عوام ،اُن کی حکومتی کارکردگی سے سخت نالاں ہیں ۔ دوسری طرف امریکی صدر ،جوبائیڈن کے خلاف بھی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی سراپا احتجاج ہیں اور امریکا بھر میں بائیڈن کی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جوبائیڈن داخلی سیاست کے انتشار کے باعث کس قدر ذہنی خلفشار کا شکار ہیں ،اُس کا اندازہ صرف اِس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے ، بائیڈن کی ہر تقریر میں کوئی نہ کوئی جملہ ضرور ایسا ہوتا ہے ، جو امریکا کی سیاسی و سفارتی پالیسی کے یکسر منافی ہوتا ہے ، بعدازاں جس کی وائٹ ہاؤس کو تردید جاری کرنا پڑتی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ یوکرین جنگ میں سست رفتار پیش قدمی کے باعث روسی صدر ،ولادی میر پیوٹن بھی روسی عوام کی جانب سے ملک بھر میں دبے دبے الفاظ میں سہی بہرحال سخت تنقیدی آوازوں کی زد پر ہیں ۔
لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ جب دنیا کے ہر ملک کی سیاسی قیادت، عدم مقبولیت کی نشانے پر آکر اقتدار پر اپنی گرفت آہستہ آہستہ کھو تی جا رہی ہے تو عین اُسی وقت چینی صدر ، شی جن پنگ ،اپنے ملک میں سیاسی مقبولیت کی نئی منزلیں طے کرتے ہوئے ، چین کے طاقت ور ترین حکمران بننے میں پوری طرح سے کامیاب ہوچکے ہیں ۔ دراصل رواں ہفتہ بیجنگ میں 20 ویں کمیونسٹ پارٹی کانگریس کے اجلاس میں شی جن پنگ کو تیسری مدت کے لیئے عہدہ صدار ت کے لیے باضابطہ طور پر منتخب کر لیاگیا ہے اور پیپل آف کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے تیسری مدت کے لیے صدر منتخب ہوتے ہی، چینی صدر شی جن پنگ ،کے لیئے تاحیات منصبِ صدارت اپنے پاس رکھنے کی تمام راہیں بالکل صاف ہوگئیں ہیں ۔ یعنی اَب چینی صدر، تادمِ مرگ بلاشرکت ِ غیرے چین کے حکمران رہیں گے۔
واضح رہے کہ کمیونسٹ پارٹی کانگریس کے سالانہ اجلاس میں چین کی قیادت اور ملک کے اگلے پانچ سالہ اہداف کا تعین کیا جاتاہے۔ جو قارئین ، چین کمیونسٹ پارٹی کی ہیت کذائیہ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے ،اُن کی معلومات میں اضافہ کے لیے عرض ہے کہ کمیونسٹ پارٹی 96ملین سے زائد اراکین رکھتی ہے، جن میں سے 70 فیصد مرد ، اور 30فیصد خواتین اراکین ہیں۔کمیونسٹ پارٹی کے یہ ہی اراکین شہروں سے لے کر ملکی سطح تک اپنی قیادت کو منتخب کرتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی نیشنل کانگریس3000 اراکین پر مشتمل ہے جبکہ ان میں سے سینٹرل کمیٹی کے اراکین کی تعداد 370 ہے۔ پھر 25 اراکین پر مشتمل پولٹ بیورو ہے اور آخر میں سب سے طاقتور ادارہ اسٹینڈنگ کمیٹی سات ارکان پر مشتمل ہوتی ہے۔کمیونسٹ پارٹی کے اس غیر معمولی تنظیمی نیٹ ورک سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے ، کمیونسٹ پارٹی کانگریس کے سالانہ اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کو چینی عوام کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہوتی ہے ۔ لہٰذا ، اتنے وسیع وعریض تنظیمی نیٹ ورک سے تیسری مدت کے لیے منصب صدارت کی توثیق پانا ،یقینا شی جن پنگ کی قائدانہ صلاحیت اور سیاسی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یاد رہے کہ شی جن پنگ کے تاحیات منصب صدارت پر فائز ہونے کی خبر عالمی ذرائع ابلاغ ،بالخصوص مغربی ذرائع ابلاغ پر بجلی بن گری ہے اور اس خبر کو امریکا اور اس کے اتحادی ممالک اپنے لیے ایک بہت بڑی سیاسی بدشگونی سے تعبیر کررہے ہیں ۔ دراصل جب ساری دنیا سیاسی عدم استحکام کے نازک دور سے گزر رہی ہے ، تب چین میں دیرپا سیاسی استحکام کا پنپنا امریکا کی عالمی بالادستی کے لیے ایک بہت بڑا سیاسی و معاشی خطرہ ہے۔امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ شی جن پنگ کے تاحیات صدر بن جانے سے چین میں 2012 سے بننے والی سیاسی و معاشی پالیسیوں کا جو تسلسل جاری تھا ، اَب اُس میں مزید بہتری اور دوام دیکھنے میں آئے گا۔ حالانکہ بعض مغربی قوتیں گزشتہ کئی برسوں سے ہانگ کانگ میں سیاسی افراط و تفریط کی فضا پیدا کرکے اس کوشش میں تھیں کہ کسی طرح چینی صدر ، شی جن پنگ کی شخصیت کو متنازعہ اور آمرانہ انداز میں پیش کرکے چینی عوام میں اُن کی سیاسی مقبولیت کو کم کیا جاسکے ۔ تاکہ شی جن پنگ تیسری مدت کے لیئے چین کے صدر منتخب نہ ہوسکیں ۔ مگر یہاں سلام ہے ، عظیم چینی قوم کو کہ جنہوںنے ملک میں سیاسی احتجاج بپا کرنے کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہ ہونا دیا اور چینی عوام نے اپنی سیاسی قیادت کے خلاف ہر طرح کے منفی پروپیگنڈے کو سختی کے ساتھ مسترد کرکے شی جن پنگ کو تیسری مدت کے لیے چین کا صدر منتخب کرلیا۔
تیسری مدت کے لیے چین کا صدر منتخب ہونے کے بعدبیجنگ کے گریٹ ہال آف پیپل میں کمیونسٹ پارٹی کے 2300مندوبین کے 20 ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ’’ اتحاد ہی میں طاقت ہے اور کامیابی کے لیے متحدرہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔لہٰذا ، ہم سب سے زیادہ خلوص اور عظیم کوششوں کے ساتھ دنیا بھر میں، پرامن اتحاد کے امکانات کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے ۔تاہم، اپنے دفاع کے لیئے تمام ضروری اقدامات اٹھانے کا اختیار بھی ہمیشہ محفوظ رکھیں گے۔بالخصوص چین عالمی سیاست میں ہر طرح کی بالادستی ، طاقت اور دوہرے معیار کی سیاست کی سختی سے مخالفت کرتا رہے گا۔نیز چین سرد جنگ کی ذہنیت اور دوسرے ممالک کی ملکی سیاست میں مداخلت کی شدید الفاظ مذمت اور مخالفت کرتا رہے گا اورچین کبھی بھی تائیوان پر طاقت کے استعمال سے دست بردار نہیں ہوگا۔ کیونکہ تائیوان کے مسئلے کو حل کرنا چینی عوام کا سراسر داخلی معاملہ ہے اور اسے چینی عوام کو ہی حل کرنا چاہیے‘‘۔
واضح رہے کہ1989 میں، 35 سال کی عمر میں، شی جن پنگ اُس وقت چین کی قومی سیاست کے اُفق پر نمایاں ہوئے جب اُنہیں2006 میں جنوبی فوجیان صوبے کے شہر ننگدے میں پارٹی کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ ملکی سیاست میں دو دہائیوں کی اَن تھک محنت کا صلہ شی جن پنگ کو بیجنگ میں 2008 کے اولمپکس کے انچارج بن جانے کی صورت میں ملا۔چونکہ ایک طویل عرصہ کے بعد چین کو اولمپکس کے عالمی کھیلوں کی میزبانی ملی تھی ،لہٰذا، بیجنگ اولمپکس کا کامیاب انعقاد، شی جن پنگ کی قائدانہ صلاحیت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ سی جن پنگ کی قیادت میں 2008 کے اولمپکس کی صورت میں چین دنیا کو یہ دکھانے میں کامیاب رہا کہ وہ واقعی بدل چکا ہے اور کسی بھی عالمی ایونٹس کی میزبانی کا مستحق ہے۔ مذکورہ عالمی مقابلہ کی فقید المثال کامیابی کے نتیجہ میں شی جن پنگ کے بڑھتے ہوئے سیاسی قد کاٹھ نے کمیونسٹ پارٹی کے فیصلہ ساز ادارے پولٹ بیورو کو بھی متاثر کیا اور بالآخر وہ 2012 میں چین کے صدر منتخب ہو گئے۔
شی جن پنگ نے 2012 میںجب سے چین کا اقتدار سنبھالا ہے ، تب سے لے کر آج تک ہر گزرتے دن کے ساتھ اُن کا سیاسی اقتدار مضبوط سے مضبوط ہی ہوتا رہا ہے۔شی جن پنگ ،نے صدر بنتے ہی سب سے پہلا کام پارٹی عہدے داروں کو راہ راست پر لانے اور ملک بھر میں کرپشن کے خاتمہ کے لیئے وسیع پیمانے پر کارروائی شروع کی اور کرپشن کرنے والے چینی سیاست دانوں ، بااثر ارب پتیوں اور صنعت کاروں کے خلاف بلاکسی تفریق سخت کریک ڈاؤن کیا تھا۔نیز اُن ہی کے دورِ حکومت میں بیجنگ نے بغیر کسی بیرونی امداد کے ہانگ کانگ پر اپنی گرفت مضبوط کی اور ضرورت پڑنے پر تائیوان تنازعے کو طاقت کے ذریعے دوبارہ حاصل کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔جبکہ ان کی حکومت نے ، دنیا کے سب سے بڑے معاشی منصوبہ’ ’ون بیلٹ ون روڈ‘ ‘کا آغاز کیا اور اِسی منصوبہ کے تحت ایشیائی اور افریقی ممالک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔
بلاشبہ، چینی قوم کو ساری دنیا پر حکمرانی کرنے کا خواب تو ماؤزے تنگ نے ہی دکھایا تھا لیکن اُس خواب کی سب سے بہترین تعبیریا عملی صورت گری شی جن پنگ نے کی ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ چینی عوام میں اُن کی بے پناہ مقبولیت اور اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے، کمیونسٹ پارٹی نے 2017 میں چین کے آئین میں ’’شی جن پنگ کے خیالات‘‘ شامل کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔یوں وہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے بانی ماؤ اور 1980 کی دہائی میں ڈینگ شیاؤپنگ کے بعد وہ تیسرے شخص قرار پائے جن کے نظریات چین کے آئین اور تعلیمی نصاب میں بھی شامل کردیئے گئے ۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر حال کا چین ماؤزے تنگ کے عزائم کا عکس ہے توپھر یقیناً، مستقبل کا چین، شی جن پنگ کے نظریات کی جیتی جاگتی تصویر ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں